ایک اور شرمندگی امریکہ کے نام
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: الحمدللہ! آج ایران نہ صرف کامیاب ہوا ہے، بلکہ ایک سپر پاور کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر کر آیا ہے۔ ایران کی روحانی قیادت نے صرف ایران ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی قیادت کا مقام بھی حاصل کر لیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر ولی امرالمسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای، صدر مملکت ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان، وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی، افواج، پاسداران انقلاب نے قیادت کو جو قوت اور اعتماد دیا، اس کے صلے میں آج جتنے بھی تجزیہ کار اور غیرت مند انسان ہیں، وہ ایران کو مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی
امریکہ اور اسرائیل نے بڑے تکبر کیساتھ ایران پر جنگ مسلط کی، مگر اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکے۔ صلح پسند، پُرامن ایرانی قوم پر مسلط کردہ جنگ میں مسلح افواج کے چیف، پاسداران انقلاب کے کمانڈر، بشمول ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ جس سے بین الاقوامی تجزیہ کاروں کو موضوع مل گیا کہ ایران اب ختم ہوگیا اور امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں کہ اعلیٰ عہدیداروں کو شہید کر دیا گیا تو اب باقی ناتجربہ کار لوگ کیا کریں گے۔ اپنے تئیں وہ ٹھیک کہتے تھے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، پھر ایک دن گزرنے کے بعد ہی جب ایران نے اسرائیل پر بھرپور حملہ کیا تو تجزیہ کاروں اور اسرائیل کے سرپرستوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اسرائیل مقاصد حاصل نہ کرسکا تو 12 دن کی جنگ میں امریکہ جیسی شیطانی قوت کو بھی اپنی پوری طاقت کیساتھ ایران کے جوہری اثاثوں پر حملہ کرنا پڑا۔
پھر ذرائع ابلاغ میں خوشیاں مناتے ہوئے امریکہ نے کہا کہ ہم نے ایران کو ایٹمی قوت بننے میں بڑی رکاوٹ ڈال کر اس کے جوہری اثاثوں کو تباہ کر دیا ہے۔ ایران اب ایٹمی قوت نہیں بن سکے گا، جبکہ توانائی کا عالمی ادارہ امریکہ کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔ بھرپور تیاری کیساتھ جب ایران نے اسرائیلی حملوں کا بھرپور جواب دیتے ہوئے اپنا بھرپور اور مضبوط دفاع کیا، تو اپنے تو اپنے غیر بھی حیرت زدہ ہوگئے۔ قطر کے العدید ایئربیس پر امریکہ جیسی شیطانی قوت کے علاقائی مرکز سینٹ کام جیسی اہم اسٹریٹیجک پوزیشن پر بھی حملہ ہوا تو امریکہ اور اس کے حواریوں کو احساس ہوا کہ ایران اپنے دفاع میں جوابی حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پھر اسی دوران اسرائیل پر بھی بھرپور حملے جاری رکھے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کی مسلسل تباہی اور خود پر حملوں کے بعد امریکی صدر نے قطر کے امیر سے درخواست کی کہ ایران کیساتھ ہماری جنگ بندی کر وا دیں، جنہوں نے اعلیٰ ایرانی حکام سے رابطہ کرکے امریکی صدر کی استدعا اور خواہش پہنچائی، جس پر ایرانی قیادت نے مثبت جواب دیا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل اپنی جارحیت اور حملے بند کرے تو ہم بھی جواب بھی حملے نہیں کریں گے۔ جس پر قطر کے حکمران نے سیز فائر کا اشارہ دیا۔ لیکن مجھ سمیت ہر ذی شعور شخص کو حیرت اس وقت ہوئی، جب دیکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بداعتماد شخص بڑی ڈھٹائی سے یہ کہتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ ایران اور اسرائیل میرے پاس آئے اور سیز فائر کی درخواست کی، جو میں نے قبول کرلی۔ پھر اس نے دو معروف امریکی ٹی وی چینلز سی این این اور ایم ایس این بی سی پر بھی جھوٹی خبر کا الزام عائد کیا کہ وہ امریکہ کے بی ٹو طیارے کی طرف سے ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے بارے غلط خبریں دے رہے ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ملک کے بڑے عہدے پر فائز شخص بھی اتنا جھوٹ بول سکتا ہے اور اتنی مکاری کے ساتھ صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا جھوٹا اعلان کرسکتا ہے کہ میں نے ایران کی درخواست پر سیز فائر کروایا ہے۔
جب میں تاریخ کے اوراق پلٹتا ہوں تو مجھے ویتنام کی جنگ میں امریکی فوج لمبے عرصے تک جنگ کرنے کے بعد شکست کھا کر بھاگتی نظر آتی ہے۔ میرے سامنے وہ وقت بھی ہے، جب امریکہ نے کچھ مفادات حاصل کرنے کیلئے کوریا پر حملہ کیا مگر اسے ناکامی ہوئی۔ کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ مجھے نزدیک ترین تاریخ پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور اپنے شیطانی مقاصد پورے نہ کرسکا، لمبی جنگ کے بعد اسے بڑی شرمندگی کیساتھ اسلحہ چھوڑ کر افغانستان سے نکلنا پڑا۔ میں عراق پر بھی گفتگو کرنے سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ اسی امریکہ نے عراق کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے اُکسایا۔ عرب ممالک سمیت امریکہ نے صدام حسین کی ہر طرح کی مدد بھی کی، لیکن اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایرانی قیادت اور عوام کے جذبہ قربانی نے امریکی سازش کو ناکام کیا۔
پھر اسی امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے الزام پر عراق پر بھی حملہ کر دیا۔ معصوم عراقی عوام کو لمبا عرصے زیر عتاب رکھا، امریکہ اپنے مقاصد حاصل تو نہ کرسکا، لیکن عراق کے عوام اور ان کی ترقی کو کئی سالوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پھر لیبیا میں بھی امریکہ نے اپنے شیطانی ایجنڈے کے لیے سازشوں کا چال پھیلایا، جس میں یورپی ممالک بھی امریکہ کے ساتھی تھے۔ قذافی کا نظام حکومت الٹ پلٹ کر دیا گیا۔ حکومت ترقی کی راہ پر گامزن تھی، مختلف گروہوں کو اقتدار کا لالچ دے کر خانہ جنگی کا سماں پیدا کیا گیا۔ ترقی یافتہ ملک لیبیا کے سیاسی گروہوں میں اقتدار کی لالچ میں باہمی جنگ شروع ہوئی اور آج تک لیبیا میں امن و ترقی قائم نہیں ہوسکی۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی حکمران نہ صرف عقل سے عاری ہیں بلکہ وہ تاریخ کو بھی نہیں جانتے کہ سابقہ ناکام تجربات سے کچھ سبق سیکھتے ہوئے کرہ ارض میں امن قائم کرنے کیلئے مثالی اچھے اقدامات کرتے اور دنیا انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھتی۔
اسرائیل اور امریکہ نے ایران کی جنگ میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے اپنے منہ پر ناکامی کی ایک اور سیاہی مل لی ہے۔ الحمدللہ! آج ایران نہ صرف کامیاب ہوا ہے، بلکہ ایک سپر پاور کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر کر آیا ہے۔ ایران کی روحانی قیادت نے صرف ایران ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی قیادت کا مقام بھی حاصل کر لیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر ولی امرالمسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای، صدر مملکت ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان، وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی، افواج، پاسداران انقلاب نے قیادت کو جو قوت اور اعتماد دیا، اس کے صلے میں آج جتنے بھی تجزیہ کار اور غیرت مند انسان ہیں، وہ ایران کو مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں، جبکہ وہ امریکی صدر، یورپی ممالک کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کی تعریف میں کوئی ایک بھی مثبت جملہ لکھا جائے، اس لئے وہ منفی کردار کے طور پر ہی جانے جائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے امریکہ نے امریکہ کے کہ ایران ایران کی نہ کرسکا کرنے کی دیا گیا پر حملہ حملہ کر کر دیا کے بعد اور اس پر بھی
پڑھیں:
روس اور چین کی ایران پر پابندیاں موخر کروانے کے لئے چارہ جوئی
سفارت کاروں نے جمعرات کو روئٹرز کو بتایا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان معاہدے کے بغیر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو روکنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ روس اور چین نے جمعرات کو ایک قراردادکا مسودہ پیش کر کے ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کے ممکنہ نفاذ میں تاخیر کے لیے ایک نئی کوشش کا آغاز کیا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کے مطابق دونوں ممالک نے جمعرات کو سلامتی کونسل سے ایک مسودہ قرارداد پر ووٹنگ کے لیے کہا ہے، جس میں ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو چھ ماہ کے لیے ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ درخواست ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں جمعہ کو رات 8 بجے دوبارہ لگائی جائیں گی۔
اس قرارداد کی منظوری کے لیے، کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہے، اور امریکہ، برطانیہ یا فرانس کا ویٹو نہ کرنا بھی ضروری ہے۔ سفارت کاروں نے جمعرات کو روئٹرز کو بتایا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان معاہدے کے بغیر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو روکنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ گزشتہ جمعے کو ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں کے لیے روس کے نمائندے نے سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیاں بحال کرنے کی قرارداد کی منظوری کے بعد ایرانی جوہری مسئلے کے حل کے لیے چین اور روس کی جانب سے "نئے نقطہ نظر" کی بات کی تھی۔انہوں نے اس منصوبے کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران کے خلاف پابندیاں ہٹانے کا سلسلہ جاری رکھنے کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی تھی۔ چین اور روس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف لگائی گئی ثانوی پابندیوں کے پیش نظر ان پابندیوں کی واپسی سے ایرانی معیشت پر کوئی حقیقی اثرات مرتب نہیں ہوں گے لیکن مغربی ممالک ایران پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔چند ہفتے قبل تین یورپی ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیج کر نام نہاد "ٹریگر میکانزم" کو فعال کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔
یہ طریقہ کار، جو جوہری معاہدے کی شقوں میں سے ایک ہے اور سلامتی کونسل میں اس کی منظوری دینے والی قرارداد (قرارداد 2231)، ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں کی واپسی کا باعث بن سکتی ہے۔مغربی ممالک کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ جے سی پی او اے سے امریکی انخلا کے بعد ایران کے اقدامات اس معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیے جاتے ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران نے یورپی ممالک کو جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کے مطابق اس انخلاء کے اثرات کو بے اثر کرنے اور معاہدے میں وعدہ کردہ ٹھوس اقتصادی اثرات کو حاصل کرنے کے لئے ایک سال کا وقت دیا تھا۔
تاہم، "INSTEX" کے نام سے موسوم طریقہ کار، جس کے بارے میں یورپیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ ڈالر کے بغیرتجارت کو آسان بنانے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کے ذریعے کوئی تبادلہ کیے بغیر، ناکام ہو گیا اور بند ہو گیا۔ اس کے مطابق، ایران نے جوہری معاہدے میں بیان کردہ قانونی عمل کی پیروی کرتے ہوئے، امریکی انخلا کے ایک سال بعد اعلان کیا کہ معاہدےکے آرٹیکل 26 اور 36 کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں کو مرحلہ وار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایران کے اصلاحاتی اقدامات کے بعد یورپی ممالک نے بھی ایسے اقدامات کیے جنہیں تہران نے جوہری معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی خلاف ورزی سمجھا۔مثال کے طور پر، تین یورپی ممالک نے اکتوبر 2023 کو ایران کے خلاف میزائل پابندیاں ختم کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیا، جسے جوہری معاہدےمیں "منتقلی دن" کے طور پررکھا کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی اور امریکی حملوں کی نہ صرف مذمت نہیں کی تھی بلکہ ان کی حمایت بھی کی تھی۔