Jasarat News:
2025-06-27@02:08:40 GMT

غزوۂ حنین: دیانت داری کی عملی مثال

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈرشپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔

فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنو ہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً 12 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں سیدنا محمدؐ اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دُنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔

اس غزوہ کے دوران میں آنحضرتؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنتِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑ گیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اُونٹ اور بکریاں دے کر ان کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔

تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصار اللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔

حضرت محمدؐ نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حُنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اُترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔
دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تو اس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہر شے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے والے اور ان کے لیے

پڑھیں:

والدین اور اولاد کے لیے بے مثال دُعائیں

حضرت امام سیّد سجادؓ کی اپنے والدین اور اولاد کے حق میں کی گئی بے مِثل دُعا کے مفہوم سے استفادہ کرتے ہیں:

’’اے اﷲ! اپنے عبد ِ خاص اور رسول محمد مصطفی ﷺ اور اُن کے پاک و پاکیزہ اہلِ بیتؓ پر رحمت نازل فرما اور انھیں بہترین رحمت و برکت اور دُرود و سلام کے ساتھ خصوصی امتیاز بخش۔ اور اے معبود! میرے ماں باپ کو بھی اپنے نزدیک عزت و کرامت اور اپنی رحمت سے مخصوص فرما۔ اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اے اﷲ! مجھے ایسا بنا دے کہ میں ان دونوں سے اِس طرح ڈروں جس طرح کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے۔ اور اِس طرح اُن کے حال پر شفیق و مہر بان رہوں جس طرح شفیق ماں (اپنی اولاد پر) شفقت کرتی ہے اور ان کی فرماں برداری اور ان سے حُسنِ سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے اس سے زیادہ کیف افزا قرار دے جتنا چشمِ خواب آلود میں نیند کا خمار۔ اور میرے قلب و رُوح کے لیے اِس سے بڑھ کر مسرّت انگیز قرار دے جتنا پیاسے کے لیے جرعہِ آب، تاکہ میں اپنی خواہش پر اُن کی خواہش کو ترجیح دوں اور اپنی خوشی پر اُن کی خوشی کو مقدّم رکھوں اور اُن کے تھوڑے احسان کو بھی جو مجھ پر کریں، زیادہ سمجھوں۔ اور میں جو نیکی اُن کے ساتھ کروں وہ زیادہ بھی ہو تو اُسے کم تصور کروں۔

اے اﷲ! میری آواز کو اُن کے سامنے آہستہ، میرے کلام کو ان کے لیے خوش گوار، میری طبیعت کو نرم اور میرے دل کو مہربان بنادے اور مجھے اُن کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنے والا قرار دے۔ اے اﷲ! انھیں میری پرورش کی جزائے خیر دے۔ اور میرے حُسنِ نگہہ داشت پر اجر و ثواب عطا کر اور کم سنی میں میری خبر گیری کا انھیں صلہ دے۔ اے اﷲ! انھیں میری طرف سے کوئی تکلیف پہنچی ہو یا میری جانب سے کوئی ناگوار صورت پیش آئی ہو یا اُن کی حق تلفی ہوئی ہو تو اُسے اُن کے گناہوں کا کفّارہ فرما، درجات کی بلندی اور نیکیوں میں اضافے کا سبب قرار دے۔

اے برائیوں کو کئی گنا نیکیوں سے بدل دینے والے بارِ الٰہا ! اگر انھوں نے میرے ساتھ گفت گو میں سختی یا کسی کام میں زیادتی یا میرے کسی حق میں فروگزاشت یا اپنے فرضِ منصبی میں کوتاہی کی ہو تو میں اُن کو بخشتا ہوں اور اسے نیکی و احسان کا وسیلہ قرار دیتا ہوں۔ اور پالنے والے! تجھ سے خواہش کرتا ہوں کہ اس کا مواخذہ اُن سے نہ کرنا۔ اس میں اپنی نسبت اُن سے کوئی بدگمانی نہیں رکھتا اور نہ تربیت کے سلسلے میں انھیں سہل انگار سمجھتا ہوں اور نہ اُن کی دیکھ بھال کو ناپسند کرتا ہوں، اِس لیے کہ اُن کے حقوق مجھ پر لازم و واجب، اُن کے احسانات دیرینہ اور اُن کے انعامات عظیم ہیں۔

وہ اس سے بالاتر ہیں کہ میں اُن کو برابر کا بدلہ یا ویسا ہی عوض دے سکوں۔ اگر ایسا کرسکوں تو اے میرے معبود! وہ ان کا ہمہ وقت میری تربیت میں مشغول رہنا، میری خبر گیری میں رنج و تعب اُٹھانا اور خود عسرت و تنگی میں رہ کر میری آسودگی کا سامان کرنا کہاں جائے گا۔

بھلا کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا صلہ مجھ سے پاسکیں اور نہ میں خود ہی اُن کے حقوق سے سبک دوش ہوسکتا ہوں اور نہ اُن کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکتا ہوں۔ رحمت نازل فرما محمدؐ اور اُن کی آل ؓپر اور میری مدد فرما، اے بہتر اُن سے جن سے مدد مانگی جاتی ہے اور مجھے توفیق دے، اے زیادہ راہ نمائی کرنے والے اُن سب سے جن کی طرف (ہدایت کے لیے) توجّہ کی جاتی ہے۔ اور مجھے اُس دن جب کہ ہر شخص کو اُس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر زیادتی نہ ہوگی، اُن لوگوں میں سے قرار نہ دینا جو ماں باپ کے عاق و نافرماں بردار ہوں۔

اے اﷲ! محمدؐ اور اُن کی آل ؓو اولاد ؓ پر رحمت نازل فرما اور میرے ماں باپ کو اس سے بڑھ کر امتیاز دے جو مومن بندوں کے ماں باپ کو تُونے بخشا ہے۔ اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے اے اﷲ! ان کی یاد کو نمازوں کے بعد رات کی ساعتوں اور دن کے تمام لمحوں میں کسی وقت فراموش نہ ہونے دے۔

اے اﷲ! محمدؐ اور اُن کی آلؓ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اُن کے حق میں دُعا کرنے کی وجہ سے انھیں میرے ساتھ نیکی کرنے کی وجہ سے لازمی طور پر بخش دے اور میری سفارش کی وجہ سے ان سے قطعی طور پر راضی و خوش نُود ہو اور انھیں عزت و آبرو کے ساتھ سلامتی کی منزلوں تک پہنچا دے۔ اے اﷲ! اگر تُونے انھیں مجھ سے پہلے بخش دیا تو انھیں میرا شفیع بنا، اور اگر مجھے پہلے بخش دیا تو مجھے اُن کا شفیع قرار دے۔ تاکہ ہم سب تیرے لطف و کرم کی بہ دولت تیرے بزرگی کے گھر اور بخشش و رحمت کی منزل میں ایک ساتھ جمع ہوسکیں۔ یقیناً تُو بڑے فضل والا، قدیم احسان والا اور سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (ماخوذ از: صحیفۂ کاملہ)

اور اب عزیزانِ گرامی! اولاد کے حق میں حضرتؓ کی اِس لاجواب دُعا کے مفہوم سے مستفید ہوتے ہیں۔ آپ ؓ فرماتے ہیں:

’’اے میرے معبود! میری اولاد کی بقاء اور ان کی اصلاح اور ان سے بہرہ مندی کے سامان مہیا کرکے مجھے ممنونِ احسان فرما اور میرے سہارے کے لیے اُن کی عمروں میں برکت اور اُن کی زندگی میں طول دے اور اُن میں سے چھوٹوں کی پرورش فرما اور کم زوروں کو توانائی دے اور اُن کی جسمانی، ایمانی اور اَخلاقی حالت کو دُرست فرما اور اُن کے جسم و جان اور اُن کے دوسرے معاملات میں جن میں مجھے اہتمام کرنا پڑے انھیں عافیت سے ہم کنار رکھ، اور میرے لیے اور میرے ذریعے اُن کے لیے رزقِ فراواں جاری کر اور انھیں نیکو کار، پرہیز گار، روشن دل، حق نیوش اور اپنا فرماں بردار اور اپنے دوستوں کا دوست و خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن و بد خواہ قرار دے۔ آمین۔

اے اﷲ! ان کے ذریعے میرے بازوؤں کو قوی اور میری پریشان حالی کی اصلاح اور ان کی وجہ سے میری جمعیت میں اضافہ اور میری مجلس کی رونق دوبالا فرما اور ان کی بہ دولت میرا نام زندہ رکھ اور میری عدم موجودی میں انھیں میرا قائم مقام قرار دے اور ان کے وسیلے سے میری حاجتوں میں میری مدد فرما اور انھیں میرے لیے دوست ، مہربان، ہمہ تن متوجّہ، ثابت قدم اور فرماں بردار قرار دے۔ وہ نافرمان، سرکش، مخالف و خطاکار نہ ہوں اور اُن کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاؤ میں میری مدد فرما۔ اور ان کے علاوہ بھی مجھے اپنے خزانۂ رحمت سے نرینہ اولاد عطا کر اور انھیں میرے لیے سراپا خیر و برکت قرار دے اور انھیں ان چیزوں میں جن کا میں طلب گار ہوں، میرا مددگار بنا اور مجھے اور میری ذریّت کو شیطان مردود سے پناہ دے۔

اِس لیے کہ تُونے ہمیں پیدا کیا اور امر و نہی کی اور جو حکم دیا، اُس کے ثواب کی طرف راغب کیا اور جس سے منع کیا اُس کے عذاب سے ڈرایا۔ اور ہمارا ایک دشمن بنایا جو ہم سے مکر کرتا ہے اور جتنا ہماری چیزوں پر اسے تسلط دیا ہے، اُتنا ہمیں اس کی کسی چیز پر تسّلط نہیں دیا۔ اِس طرح کہ اسے ہمارے سینوں میں ٹھہرا دیا اور ہماری رگ و پے میں دوڑا دیا۔ ہم غافل ہوجائیں مگر وہ غافل نہیں ہوتا۔ ہم بھول جائیں مگر وہ نہیں بھولتا۔ وہ ہمیں تیرے عذاب سے مطمئن کرتا اور تیرے علاوہ دوسروں سے ڈراتا ہے۔ اگر ہم کسی برائی کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ ہماری ہمّت بندھاتا ہے اور اگر کسی عملِ خیر کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمیں اُس سے باز رکھتا ہے اور گناہوں کی دعوت دیتا اور ہمارے سامنے شبہے کھڑے کردیتا ہے۔ اگر وعدہ کرتا ہے تو جھوٹا، اور اُمید دِلاتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ اگر تُو اس کے مکر کو نہ ہٹائے تو وہ ہمیں گم راہ کرکے چھوڑے گا اور اس کے فتنوں سے نہ بچائے تو وہ ہمیں ڈگمگا دے گا۔

خدایا! اُس لعین کے تسلط کو اپنی قوت و توانائی کے ذریعے ہم سے دفع کردے اور کثرتِ دُعا کے وسیلے سے اسے ہماری راہ ہی سے ہٹا دے تاکہ ہم اس کی مکاریوں سے محفوظ ہوجائیں۔ اے اﷲ! میری ہر درخواست کو قبول فرما اور میری حاجتیں بر لا، جب کہ تُو نے استجابتِ دُعا کا ذمّہ لیا ہے تُو میری دُعا کو رد نہ کر اور جب کہ تُونے مجھے دُعا کا حکم دیا ہے تو میری دُعا کو اپنی بارگاہ سے روک نہ دے۔ اور جن چیزوں سے میرا دِینی و دُنیاوی مفاد وابستہ ہے، اُن کی تکمیل سے مجھ پر احسان فرما۔ جو یاد ہوں اور جو بھول گیا ہوں۔

ظاہر کی ہوں، یا پوشیدہ رہنے دی ہوں، اعلانیہ طلب کی ہوں یا درپردہ، ان تمام صورتوں میں اِس وجہ سے کہ تجھ سے سوال کیا ہے (نیت و عمل کی) اصلاح کرنے والوں اور اِس بناء پر کہ تجھ سے طلب کیا ہے، کام یاب ہونے والوں اور اِس سبب سے کہ تجھ پر بھروسا کیا ہے، غیر مسترد ہونے والوں میں سے قرار دے اور (اُن لوگوں میں شمار کر) جو تیرے دامن میں پناہ لینے کے خُوگر، تجھ سے بیوپار (تجارت) میں فائدہ اُٹھانے والے اور تیرے دامنِ عزت میں پناہ گزیں ہیں۔

جنھیں تیرے ہمہ گیر فضل اور جُود و کرم سے رزقِ حلال میں فراوانی حاصل ہوئی ہے اور تیری وجہ سے ذلّت سے عزت تک پہنچے ہیں اور تیرے عدل و انصاف کے دامن میں ظلم سے پناہ لی ہے اور رحمت کے ذریعے بلا و مصیبت سے محفوظ ہیں اور تیری بے نیازی کی وجہ سے فقیر سے غنی ہوچکے ہیں اور تیرے تقویٰ کی وجہ سے گناہوں، لغزشوں اور خطاؤں سے معصوم ہیں اور تیری اطاعت کی وجہ سے خیر و رُشد و ثواب کی توفیق انھیں حاصل ہے اور تیری قدرت سے ان کے اور گناہوں کے درمیان پردہ حائل ہے اور جو تمام گناہوں سے دست بردار اور تیرے جوارِ رحمت میں مقیم ہیں۔

بارِ الٰہا! اپنی توفیق و رحمت سے یہ تمام چیزیں ہمیں عطا فرما اور دوزخ کے آزار سے پناہ دے اور جن چیزوں کا میں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے سوال کیا ہے، ایسی ہی چیزیں تمام مسلمین و مسلمات اور مومنین و مومنات کو دُنیا و آخرت میں مرحمت فرما۔ اِس لیے کہ تُو نزدیک اور دُعا کا قبول کرنے والا ہے، سننے والا اور جاننے والا ہے، معاف کرنے والا اور بخشنے والا اور شفیق اور مہر بان ہے۔ اور ہمیں دُنیا میں نیکی (توفیقِ عبادت) اور آخرت میں نیکی (بہشتِ جاوید) عطا کر، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔ آمین۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • گروسی جواب دو!
  • وقف کی اسلامی روایت
  • والدین اور اولاد کے لیے بے مثال دُعائیں
  • ملازمین پر تشدد آمریت کی بدترین مثال ہے، بلوچستان بار کونسل
  • منی پور میں مسلمان معذور نوجوان کا قتل؛بھارت میں اقلیتوں کیخلاف بڑھتا ظلم و تشدد
  • مسلمان سے شادی کرنے پر زندہ بھارتی لڑکی کی آخری رسومات ادا
  • تاریخ رقم! نیویارک کا پہلا مسلمان میئر؟ مامدانی نے کومو کو پیچھے چھوڑ دیا
  •  یہود ہو یا ہنود وہ شیعہ اور سنی کی تمیز سے ہٹ کر اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے، فاروق خان سعیدی 
  • اہلبیتؑ سے محبت و تکریم ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے،مریم نواز