Jasarat News:
2025-08-11@15:22:48 GMT

غزوۂ حنین: دیانت داری کی عملی مثال

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈرشپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔

فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنو ہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً 12 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں سیدنا محمدؐ اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دُنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔

اس غزوہ کے دوران میں آنحضرتؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنتِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑ گیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اُونٹ اور بکریاں دے کر ان کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔

تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصار اللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔

حضرت محمدؐ نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حُنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اُترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔
دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تو اس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہر شے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے والے اور ان کے لیے

پڑھیں:

شیری رحمن نے کشمیریوں کی تاریخی و مزاحمتی کتابوں پر مودی سرکار کی پابندی کو فسطائیت کی بدترین مثال قرار دیدیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اگست2025ء)نائب صدر پیپلزپارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کشمیریوں کی تاریخی و مزاحمتی کتابوں پر مودی سرکار کی پابندی کو فسطائیت کی بدترین مثال قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا یہ عمل کشمیریوں کی فکری آزادی پر حملہ ہے۔ اپنے بیان میں شیری رحمن نے کہاکہ کشمیر کی فکری آزادی پر پابندی بھارت کے غیر جمہوری عزائم کا عکاس ہے، کتابوں سے خوف کھانے والا ملک خود اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ تاریخ کو دبانے سے حقائق مٹ نہیں جاتے، بلکہ اور نمایاں ہو جاتے ہیں، اظہار رائے کا گلا گھونٹنا بھارت کے فاشسٹ رجحانات کو ظاہر کرتا ہے۔ شیری رحمن نے کہاکہ بھارت کی پالیسیوں نے کشمیری نوجوانوں کو فکری غلامی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پابندیاں لگا کر بھارت صرف اپنی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے، سچائی کو دبانے کی ہر کوشش تاریخ میں ناکام ہوئی ہے، بھارت بھی ناکام ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ کتابیں چھین کر بھارت کشمیری شناخت مٹانا چاہتا ہے، پابندیوں سے نظریات کو روکا نہیں جا سکتا، بھارت یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سوکن نے ایثار کی اعلیٰ مثال قائم کردی، شوہر کی دوسری بیوی کو اپنا جگر عطیہ کردیا
  • تحصیلدار چودھری شفقت محمود کی جرات مندانہ قیادت، فتح جنگ میں امن و انصاف کی مثال
  • طلباء دیانت داری، محنت اور راست بازی کو اپنا شعار بنائیں: نیول چیف
  • طلبا دیانت داری، محنت اور راست بازی کو اپنا شعار بنائیں، چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف
  • بھارت خود کو بطور ’وشوا گرو‘ پیش کرنا چاہتا ہے، عملی طور پر ایسا کچھ نہیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • ‎بھارت اپنے آپ کو ’’وشوا گرو‘‘ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • اسرائیلی وزیر خزانہ کی حکومت گرانے کی دھمکی، غزہ جنگ کی حکمت عملی پر اختلافات شدید
  • مسلمانوں نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہا اور آزادی کے اصل مقصد کو سمجھا، بلال سلیم قادری
  • بی جے پی اور آر ایس ایس دہشت گردی کروا کر الزام مسلمانوں پر لگاتے ہیں، دھماکا خیز انکشاف
  • شیری رحمن نے کشمیریوں کی تاریخی و مزاحمتی کتابوں پر مودی سرکار کی پابندی کو فسطائیت کی بدترین مثال قرار دیدیا