سندھ ہائی کورٹ نے سزائے موت پانے والے ملزمان کی سزا کالعدم قرار دے دی
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ نے اغوا برائے تاوان کے الزام میں سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیلیں منظور کرلیں۔
ہائیکورٹ نے اغوا برائے تاوان کے الزام میں سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیلوں کا فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے ملزمان محبوب اور عباس بنگش کی سزا کیخلاف اپیلیں منظور کرلیں۔
عدالت نے ملزمان کو سنائی گئی پھانسی کی سزا کالعدم قرار دیدی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ملزمان کسی اور مقدمے میں ملوث نہیں تو رہا کردیا جائے۔
یاد رہے کہ دونوں ملزمان کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
وکیل صفائی محمد فاروق ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا تھا کہ ملزمان نے کبھی تاوان طلب نہیں کیا۔ فریقین میں 5 لاکھ روپے کے لین دین کا تنازعہ تھا۔ پولیس نے کئی دن تشدد کرنے کے بعد ملزمان کا اقبالی بیان ریکارڈ کیا تھا۔ ملزمان کیخلاف اغواء اور قتل کی کوئی شہادت نہیں۔
استغاثہ کے مطابق ملزمان نے 2020 میں گلشن حدید کے علاقے سے عزیزہ اختر کو اغوا کیا تھا۔ ملزمان نے خاتون کو اغوا کرکے رقم طلب کی اور بعد میں قتل کردیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سزائے موت ملزمان کی عدالت نے
پڑھیں:
پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون کو 10 دنوں کے اندر واپس لایا جائے، ہائی کورٹ
بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ رخشندہ کے طویل مدتی ویزہ کیوجہ سے اسکو ملک بدری نہیں کیا جانا چاہیئے تھا اور اسکے منفرد کیس کی مناسب جانچ نہ ہونا ایک واضح غلطی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے بھارتی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد سخت حفاظتی کریک ڈاؤن کے درمیان پاکستان ڈی پورٹ کی گئی خاتون رخشندہ راشد کو واپس لایا جائے۔ معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس جزو ہیں۔ اسی کے ساتھ ہائی کورٹ نے رخشندہ راشد کو واپس لا کر 10 دنوں کے اندر جموں میں ان کے شوہر کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ رخشندہ ایک پاکستانی شہری ہیں لیکن ان کی شادی ہندوستانی شہری شیخ ظہور احمد سے ہوئی ہے۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد مودی حکومت نے پاکستانی شہریوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران طویل مدتی ویزا (LTV) اور خراب صحت کے باوجود رخشندہ کو پاکستان بھیج دیا تھا۔ جسٹس راہل بھارتی نے رٹ پٹیشن (WP(C) نمبر 1072/2025) کی سماعت کرتے ہوئے اس معاملے میں براہ راست مداخلت کرنے کا غیر معمولی قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنے حکم میں انسانی بنیادوں کا حوالہ دیا جو سرکاری طریقہ کار کی بھینٹ چڑھ گئے۔
تین صفحات پر مشتمل حکم میں جج نے تصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع آتے ہیں جب ایک آئینی عدالت کو کسی کیس کی خوبیوں اور خامیوں کو درکنار کر کے خصوصی حکم جیسی رعایت دینی پڑتی ہے۔ جسٹس راہل بھارتی نے مزید کہا کہ انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس جزو ہیں، یہ عدالت وزارت داخلہ، بھارتی حکومت کو ہدایت دیتی ہے کہ درخواست گزار کو اس کی ملک بدری سے واپس لایا جائے۔ رخشندہ نے یہ درخواست اپنے وکیل ہمانی کھجوریا کے توسط سے دائر کی تھی اور ان کے شوہر شیخ ظہور نے عدالت میں ان کی حمایت کی۔ ظہور نے عدالت کو بتایا "میری بیوی کے پاس اس کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے کوئی نہیں ہے۔ وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہے اور اس کی صحت اور زندگی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرہ لاحق ہے جب کہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے"۔
بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ رخشندہ کے طویل مدتی ویزہ کی وجہ سے اس کو ملک بدری نہیں کیا جانا چاہیئے تھا اور اس کے منفرد کیس کی مناسب جانچ نہ ہونا ایک واضح غلطی تھی۔ جسٹس بھارتی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزار کو متعلقہ وقت پر طویل مدتی قیام کی منظوری قیام کی منظوری حاصل تھی، پھر بھی اسے زبردستی نکال دیا گیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ رخشندہ کی ملک بدری کسی مخصوص اور باضابطہ حکم کے بغیر ہوئی تھی، جس سے ان کے نکالے جانے کی قانونی حیثیت پر شک پیدا ہوتا ہے۔ جج نے کیس کو غیر معمولی نوعیت کا قرار دیا اور واضح کیا کہ اس کا فوری ازالہ ضروری ہے۔ وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تعمیل کو یقینی بنائے اور یکم جولائی 2025ء کو ہونے والی اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرے۔