احمد آباد میں رتھ یاترا کے دوران ہاتھی بے قابو، لوگوں میں خوف و ہراس
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
بھارتی ریاست احمد آباد میں مذہبی تقریب رتھ یاترا کے دوران ایک ہاتھی اچانک بے پرجوش ہوکر بے قابو ہوگیا، جس سے لوگوں میں خوف ہو ہراس پھیل گیا، تاہم ہاتھی کو انجیکش لگا کر قابو میں کرلیا گیا ہے۔
جمعے کی صبح احمد آباد کے علاقے دسائی نی پول کے قریب 18 ہاتھیوں کی ریلی میں شامل واحد نر ہاتھی اچانک بے قابو ہوگیا، جس سے موجودہ شہریوں اور ناظرین میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ: دیوہیکل ہاتھی کا سپر اسٹور پر دھاوا، کیک انڈے کھا کر چلتا بنا
کاملا نیہرو چڑیا گھر کے سپرنٹنڈنٹ آر کے ساہو نے بتایا کہ ایک نر ہاتھی اچانک پرجوش اور بے چین ہوگیا اور مقررہ راستے سے ہٹ کر بھاگنے لگا، جو ریلی میں شامل لوگوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔
فوری طور پر حفاظتی پروٹوکول کے تحت، ہاتھی کو ٹرانکیلائزر کی مدد سے بے ہوش کر دیا گیا تاکہ اسے قابو میں لایا جاسکے۔ اس دوران دو مادہ ہاتھیوں کی مدد سے اسے نرمی سے بھیڑ سے دور کیا گیا تاکہ کسی قسم کا نقصان نہ ہو۔
#RathYatra scare in #Ahmedabad: Elephant runs amok near Khadia, tranquilised and isolated; 17 others continue on route
Know more ???? https://t.
— The Times Of India (@timesofindia) June 27, 2025
اہم بات یہ ہے کہ اس واقعے میں کسی کو کوئی چوٹ نہیں پہنچی، بے قابو ہاتھی کو فوری طور پر ریس سے الگ کر دیا گیا ہے، اس ہاتھی کو مزید ریلی میں شامل نہیں کیا جائے گا تاکہ آئندہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے۔
دوسری طرف، باقی 17 مادہ ہاتھی جو ریلی میں شامل ہیں، وہ اپنی روانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے منزل کی جانب گامزن رہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اونی چوہوں کے بعد سائنسدان ’اونی ہاتھی‘ کی پیدائش کے لیے کوشاں
احمد آباد کی یہ رتھ یاترا مذہبی لحاظ سے شہر کی ایک انتہائی اہم تقریب ہے، جس میں ہر سال لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں۔ اس میں بڑے پیمانے پر انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ نہ صرف ہجوم کو سنبھالا جاسکے بلکہ جانوروں اور شرکا کی حفاظت بھی یقینی بنائی جا سکے۔
آر کے ساہو نے کہا کہ ہاتھیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ احتیاط برتی جاتی ہے، اور ضرورت پڑنے پر فوری ردعمل دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: بپھرے ہوئے ہاتھی کے حملے میں جرمن سیاح ہلاک
یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بڑے عوامی اجتماعات میں جانوروں کے انتظامات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور جانور دونوں کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news احمد آباد بھارت رتھ یاترا ریس ہاتھیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت رتھ یاترا ہاتھی ریلی میں رتھ یاترا ہاتھی کو
پڑھیں:
آپریشن شیوا اور یاترا کے سکیورٹی انتظامات — اصل مقاصد کیا ہیں؟
بھارت(نیوز ڈیسک)بھارت نے امرناتھ یاترا 2025 کے لیے “آپریشن شیوا” کے نام سے جس سکیورٹی منصوبے کا آغاز کیا ہے، وہ نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔
ایک طرف یاترا کے لیے لاکھوں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں، جن میں 40 ہزار اضافی فورسز خاص طور پر پاہلگام اور بالتال کے راستوں پر لگائی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب پہلے ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تقریباً دس لاکھ فوجی مستقل طور پر تعینات کر رکھے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی فورس کی موجودگی کے باوجود پاہلگام جیسے حساس علاقے میں حملہ ہو جاتا ہے کیا یہ سکیورٹی میں ناکامی تھی یا ایک سوچا سمجھا سیاسی منصوبہ؟ کیا یہ حملہ جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا تاکہ مودی سرکار اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کر سکے؟ ایک ایسا سوال ہے جو سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔
یاترا کے راستوں پر جس شدت سے چیکنگ، نگرانی، RFID کارڈز، ڈرون، سگنل جیمرز اور کیمروں کا نظام نافذ کیا گیا ہے، وہ ایک مذہبی سفر سے زیادہ کسی فوجی آپریشن کا منظر پیش کرتا ہے۔ ان اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سکیورٹی پلان کا اصل مقصد یاتریوں کی حفاظت نہیں بلکہ مقامی کشمیری آبادی پر مزید گرفت مضبوط کرنا ہے۔ دکانوں، گھروں اور گلیوں میں زبردستی کیمرے نصب کروانا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
یہ سارا منظرنامہ پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت دیتا ہے کہ *پاہلگام واقعہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، جسے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اگر بھارت واقعی شفاف ہوتا، تو وہ پاکستان کے مطالبے پر آزادانہ تحقیقات سے نہ بھاگتا۔ مگر چونکہ حقیقت کچھ اور ہے، اس لیے اس نے خاموشی اور الزامات کی راہ اپنائی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا اب بھارتی بیانیے کو آنکھیں بند کر کے قبول نہیں کرتی۔ 2025 کی کشیدگی کے دوران بین الاقوامی ردعمل نے واضح کر دیا کہ بھارتی پروپیگنڈے کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے اور اس کی فوجی موجودگی، سیاسی چالوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھنا اب فطری اور ضروری ہو چکا ہے۔
’مائنڈ یور لینگویج‘، سپریم کورٹ میں جسٹس جمال اور حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ