سانحہ سوات: دریا کے کنارے تجارتی سرگرمیاں بند، غفلت برتنے پر 4 افسران معطل
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
---فائل فوٹو
خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے دریائے سوات کے کنارے تجارتی سرگرمیاں بند کر کے افسوسناک واقعے میں مبینہ غفلت برتنے پر 4 افسران کو معطل کر دیا گیا۔
گزشتہ روز دریائے سوات کی بے رحم بپھری موجیں ایک درجن سے زائد جانیں نگل گئیں۔
حکومت کو موصول ہونے والی ابتدائی رپورٹ کے مطابق دریائے سوات کے کنارے مختلف مقامات پر 75 افراد پھنس گئے تھے جن میں سے بیشتر افراد کو ریسکیو آپریشن کے ذریعے زندہ بچایا گیا۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 10ہوگئی ہے جبکہ 3 افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین وزیرِ اعلیٰ انسپکشن ٹیم کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
قائم کی گئی انکوائری کمیٹی ٹیم فلیش فلَڈ واقعے کی وجوہات کا تعین کرے گی اور حکومتی کوتاہیوں اور ہدایات پرعملدرآمد کا جائزہ لے کر ذمہ داروں کا تعین کر کے 7 دنوں میں رپورٹ پیش کرے گی۔
کمیٹی مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی سفارشات تیار کرے گی۔
دوسری جانب محکمۂ سیاحت خیبر پختونخوا نے واقعہ کے بعد ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے سیلاب کے خطرے کے پیشِ نظر صوبے بھر میں دریا کے کناروں پر موجود ہوٹل فوری طور بند کرنے کا حکم دیا ہے اور کناروں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ایڈوائزری میں نئے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے لیے این او سی لینا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف انتظامی اور قانونی کارروائی کا اعلان کیا گیا ہے۔
خطرناک مقامات پر سیلفی لینا، تصاویر اور ویڈیو بنانے کا شوق ہر سال سیاحتی موسم میں کئی قیمتی جانیں نگل لیتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سوات میں دریائے سوات کے کنارے تفریح کی غرض سے آنے والے سیاحوں کے لیے خوشی کا لمحہ قیامت بن گیا تھا۔
مینگورہ بائی پاس کے قریب اچانک پانی کا ریلا آنے سے 17 سیاح دریا میں بہہ گئے تھے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: دریائے سوات کے کنارے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا: باجوڑ قومی جرگے اور طالبان میں مذاکرات بے نتیجہ، آپریشن شروع
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں قومی جرگے اور طالبان کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد دہشتگردوں کے خلاف ملٹری آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق باجوڑ قومی جرگے اور طالبان کے مابین کئی روز تک جاری رہنے والے مذاکرات میں مختلف مطالبات پیش کیے گئے، قومی جرگے کی جانب سے طالبان کے سامنے جو مطالبات رکھے گئے، ان میں لڑائی کا خاتمہ، امن قائم رکھنا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کا سلسلہ ختم کرنا شامل تھا۔
جرگے نے واضح کیا تھا کہ اگر وہ لڑائی چاہتے ہیں تو واپس افغانستان جانا ہوگا اور مقامی آبادی میں رہائش کی اجازت نہیں دی جائے گی، کئی روز تک مرحلہ وار مذاکرات کے باوجود اتفاق رائے نہ ہو سکا، جس کے بعد صوبائی حکومت کی مشاورت سے آپریشن کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔
باجوڑ کے دیہات میں کرفیو نافذضلعی انتظامیہ باجوڑ نے محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی اجازت اورہدایت پر ضلع کے دہشتگردوں کے گڑھ سمجھے جانے والے دیہات میں کرفیو نافذ کیا ہے۔ یہ اقدام دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ مقامی آبادی کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
انتظامیہ کے مطابق 4 اہم شاہراہوں، یعنی چار منڈا روڈ، خار ناواگئی روڈ، خار پشت سالارزئی روڈ اور خار صادق آباد عنایت کلی روڈ، پر کرفیو صبح 11 بجے سے 12 گھنٹوں کے لیے نافذ رہے گا۔
یہ بھی پڑھین:ہتھیار ڈالیں یا واپس افغانستان جائیں، ورنہ آپریشن ہوگا، باجوڑ امن جرگے نے طالبان پر واضح کردیا
اس کے علاوہ باجوڑ کے 27 گاؤں میں 3 روز کے لیے کرفیو نافذ کیا گیا ہے، جن میں لغرئی، گواٹی، غنم شاہ، باد سیاہ، کمر، امانتا، زگئ، گٹ، غنڈے، گڑیگال، نیاگ کلی، رئگئ، ڈاگ، ڈماڈولا، سلطان بیگ، چوترا، شین کوٹ، گنگ، جیوار، انعام خورو، چینگئ، انگا، سفری، بر گٹکی، خرکی، شکرو اور بکرو شامل ہیں۔
انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ کرفیو کے دوران گھروں سے باہر نکلنے پر مکمل پابندی ہوگی تاکہ کارروائی کے دوران کسی جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق ان دیہات میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور یہاں افغانستان سے آئے بڑی تعداد میں افغان دہشتگرد موجود ہیں جو طویل عرصے سے علاقے میں امن کو خراب کررہے تھے۔ مذاکرات کے دوران بھی انہوں نے امن قائم رکھنے کے مطالبات ماننے سے انکار کیا۔
متاثرہ دیہات سے نقل مکانی شروعمذاکرات کی ناکامی کے بعد ان دیہات کے مکینوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے، جہاں آپریشن کے پیش نظر کرفیو نافذ کیا گیا ہے، مقامی افراد نے بتایا کہ رات گئے تک بڑی تعداد میں لوگ خوف اورخدشات کے باعث اپنے گھروں سے نکل گئے، ان کا کہنا تھا کہ انہیں ٹرانسپورٹ کی کمی اور دیگر مشکلات کا سامنا ہے جبکہ حکومتی انتظامات بھی ناکافی ہیں۔
خار شہر میں متاثرین کے لیے انتظاماتضلعی انتظامیہ نے باجوڑ کے ہیڈ کوارٹر خار میں آپریشن کے پیش نظر نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے رہائش کا انتظام کیا ہے، انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق خار میں سرکاری اسکولوں کو خالی کرا کے متاثرین کو رہائش کے لیے فراہم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے متاثرین کے لیے مزید سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انتظامات ناکافی ہیں اور پینے کے پانی اور بجلی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باجوڑ ٹرانسپورٹ جرگہ خار خیبرپختونخوا کرفیو محکمہ داخلہ ملٹری آپریشن ناکام نقل مکانی