جی سی سی کے ممبران ممالک کے شہری اب سال کے کسی بھی وقت عمرہ ادا کرسکتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
اب خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے شہری سال کے کسی بھی وقت عمرہ ادا کرسکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جی سی سی ممالک کے شہری سال کے کسی بھی وقت عمرہ ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں ہوا، زمینی یا سمندری، کسی بھی راستے بغیر ویزا یا فوری اجازت کے داخل ہوسکتے ہیں۔
سعودی وزارت حج و عمرہ نے اعلان کیا ہے کہ جی سی سی ممالک کے شہری 365 دن، 24 گھنٹے میں کوئی بھی وقت منتخب کرکے عمرہ کر سکتے ہیں ۔
خلیجی تعاون کونسل جس میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، کے شہریوں کیلئے سعودی عرب میں بغیر ویزا داخل ہوتے وقت صرف ان کا قومی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کا استعمال کیا جائے گا۔
عمرہ کے لیے مخصوص اجازت "نُسک" موبائل ایپ کے ذریعے فوری طور پر جاری ہوتی ہے۔ اگر جی سی سی شہری مسافر ہوں، تو وہ "ٹرانزٹ ویزا" یا "ٹورسٹ ویزا" کے ذریعے بھی سعودی عرب میں داخل ہو سکتے ہیں، بعض ایئر لائنز کے ذریعے بکنگ کرتے وقت یہ ویزا خودبخود فراہم کیا جاتا ہے۔
مزید آسانی کے لیے "ٹورسٹ-عمرہ" ویزا بھی دستیاب ہے جو آن لائن ksavisa.
واضح رہے کہ یہ سہولت تقریباً پچھلے 6 ماہ سے دستیاب ہے۔ اگرچہ عام طور پر حج کے دوران (ذو الحجہ کے ابتدائی دنوں میں) عمرہ ویزے محدود ہوتے ہیں، جون 2025 کے وسط میں حج ختم ہونے کے بعد دوبارہ جاری کیے گئے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ممالک کے شہری کسی بھی بھی وقت
پڑھیں:
صنم ماروی کا حج و عمرہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بننے کا انکشاف
پاکستان میوزک انڈسٹری کی لوک گلوکارہ صنم ماروی نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں حج و عمرہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گلوکارہ صنم ماروی حال ہی میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے شوبز کی دنیا سے وابستہ ہونے پر کی جانے والی تنقید اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر کھل کر بات کی۔
صنم ماروی نے بتایا کہ جب کبھی وہ مذہبی زیارتوں اور حج و عمرہ کرنے جاتی ہیں تو انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر منفی باتیں کرتے ہیں۔
گلوکارہ کا کہنا تھا کہ لوگ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پورا سال گانے گائے اب حج و عمرے کر رہی ہیں۔ جبکہ کوئی کہتا ہے کہ ابھی عمرہ کر رہی ہیں اور واپس جاکر گانیں گائیں گی۔ صنم ماروی نے کہا کہ تنقید کرنے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارا پیشہ اور یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کی ٹرولنگ پر خاموش رہنا بہتر سمجھتی ہیں کیونکہ وہ نہیں سمجھتے کہ ہم کتنی لگن کیساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔