Islam Times:
2025-11-11@23:42:39 GMT

امریکی رائے عامہ ایران پر حملے کی مخالف ہے، سروے رپورٹس

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

امریکی رائے عامہ ایران پر حملے کی مخالف ہے، سروے رپورٹس

امریکی میڈیا ذرائع کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر امریکی ایران پر حملے کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ ریپبلکن پارٹی کے اندر اندرونی تقسیم اور علاقائی جنگ کے بارے میں خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ این بی سی نیوز کے سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 22 جون کو ایران کی متعدد جوہری تنصیبات پر جارحانہ فضائی حملہ کرنے کے فیصلے نے امریکی عوام کو تقسیم کر دیا ہے اور دونوں جماعتوں کے اتحادوں میں دراڑیں واضح کر دی ہیں۔ 13  جون کو صیہونی رژیم نے واضح جارحیت کا ثبوت دیتے ہوئے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات، شہری اور فوجی مراکز پر حملے کیے جس کے نتیجے میں متعدد اہلکار، ایٹمی سائنسدان اور بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے بعد رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قوم کے نام ایک پیغام میں ایران پر حملوں کو جرم قرار دیا اور فرمایا کہ صیہونی رژیم کو تلخ اور بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اعلان کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ان حملوں کے جواب میں مقبوضہ علاقوں میں فوجی اہداف کے خلاف آپریشن "وعدہ صادق 3" شروع کر دیا ہے۔ اس آپریشن میں تل ابیب اور حیفا سمیت مقبوضہ علاقوں میں متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے بھاری نقصان ہوا اور تل ابیب کو امریکہ کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکہ نے جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے تین ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی کی لیکن بالآخر 12 دن کے بعد ایران نے دشمن کو جنگ بندی اختیار کرنے پر مجبور کر ڈالا۔
 
این بی سی نیوز کے سروے کے مطابق 45 فیصد افراد نے فضائی حملوں کی مخالفت کی جبکہ 38 فیصد نے اس کی حمایت کی۔ مزید 18 فیصد امریکیوں نے کہا کہ وہ تو حملوں کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت۔ یہ سروے پیر سے بدھ تک انجام پا رہے تھے اور اس دوران ایران نے خطے میں امریکی فوجی اڈے پر جوابی میزائل حملہ کیا۔ امریکی معاشرہ ایران پر جارحانہ امریکی فضائی حملوں کے مسئلے میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ڈیموکریٹس میں 77 فیصد ان حملوں کی مخالفت کرتے ہیں اور 61 فیصد ان کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس 78 فیصد ریپبلکن ان حملوں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 60 فیصد ان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ آزاد شہری بہت زیادہ تذبذب کا شکار ہیں۔ 45 فیصد مخالفت کرتے ہیں 21 فیصد حمایت کرتے ہیں اور 34 فیصد غیر جانبدار ہیں جو کہ عام آبادی کے تناسب سے تقریباً دوگنا ہے۔ ایران پر امریکی حملوں کی تیاری نے ریپبلکن پارٹی میں اختلافات نمایاں کر دیے ہیں۔ دائیں بازو کے مبصر ٹکر کارلسن اور ٹیکساس کے سینیٹر ٹڈ کروز کے درمیان تلخ کلامی سے یہ اختلاف مزید واضح ہو جاتا ہے۔ کارلسن نے دلیل دی کہ ایران پر حملہ صدر ٹرمپ کے "امریکہ فرسٹ" نعرے سے غداری ہے۔
 
اگرچہ ایران پر امریکی حملوں کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد حمایت کرنے والوں سے زیادہ ہے، لیکن اکثریت (60 فیصد) ایران کا جوہری پروگرام برقرار رہنے کی صورت میں فوجی کارروائی جاری رکھنے کی حمایت کرتی ہے۔ ابتدائی انٹیلی جنس اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو صرف تین سے چھ ماہ تک پیچھے کر دیا ہے حالانکہ حتمی تشخیص کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے ان اندازوں کو مسترد کر دیا ہے۔ مجموعی طور پر 26 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو تمام فوجی آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔ مزید 34 فیصد فوجی کارروائی جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہیں لیکن صرف فضائی حملوں کی صورت میں جبکہ باقی 41 فیصد کا خیال ہے کہ امریکہ کو ایران میں مزید فوجی کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ ترقی پسندوں (بائیں بازوں) میں سے 75 فیصد کا خیال ہے کہ امریکہ کو ایران میں مزید کوئی فوجی کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ دریں اثنا، روایتی ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی تقریباً یکساں طور پر تقسیم ہیں، 54 فیصد مزید کارروائی کے مخالف اور 45 فیصد ایران کا جوہری پروگرام جاری رہنے کی صورت میں محدود کارروائی کے حق میں ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حمایت کرتے ہیں فوجی کارروائی کی مخالفت مخالفت کر کر دیا ہے ایران پر حملوں کی کی حمایت

پڑھیں:

امریکی صیہونی عزائم: اسرائیل میں غزہ سرحد کے قریب بڑے امریکی فوجی اڈے کے قیام کا منصوبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسانیت کے مستقبل اور دنیا کے امن کو امریکی و صیہونی عزائم اپنی گرفت میں لے چکے ہیں، اب امریکا اسرائیل میں غزہ کی سرحد کے قریب 50 کروڑ ڈالر مالیت کا بڑا فوجی اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا اسرائیل میں غزہ کی سرحد کے قریب 50 کروڑ ڈالر مالیت کا بڑا فوجی اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ فلسطینی علاقے میں جنگ بندی کے معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کی جا سکے۔ اس اڈے میں بین الاقوامی ٹاسک فورس ہوگی جو غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کے لیے قائم کی جائے گی اور یہاں چند ہزار امریکی فوجی تعینات ہوں گے، یہ منصوبہ اسرائیل میں پہلے بڑے امریکی فوجی اڈے کے قیام کی نشاندہی کرتا ہے اور امریکا کی غزہ میں جنگ کے بعد استحکام کی کوششوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس سے قبل امریکا نے اسرائیل میں تھاڈ میزائل دفاعی نظام نصب کیا تھا، جسے ایران کے میزائل اور ڈرونز کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

غزہ جنگ بندی کا معاہدہ 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہے، جس کے تحت اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی، غزہ کی دوبارہ تعمیر اور حماس کے بغیر نئے انتظامی نظام کے قیام جیسے اقدامات شامل ہیں۔

غزہ صحت کی وزارت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی جارحیت میں 69,000 سے زائد افراد جاں بحق اور 1,70,600 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • افغان پولیس پریڈ میں پاکستان مخالف ترانے، اسلام آباد کو آگ لگانے کی دھمکیاں
  • برطانیہ اور کینیڈا نے امریکی جہازوں پر حملوں کیلیے انٹیلی جنس فراہم کرنا بند کر دی
  • افغان پاسنگ آؤٹ پریڈمیں پاکستان مخالف ترانے اور آگ لگانے کی دھمکیاں، خطے میں تشویش
  • عالمی برادری کی اسلام آباد کچہری میں خود کش حملے کی شدید مذمت
  • امریکی صیہونی عزائم: اسرائیل میں غزہ سرحد کے قریب بڑے امریکی فوجی اڈے کے قیام کا منصوبہ
  • دہشتگرد حملوں سے قوم کا حوصلہ پست نہیں ہوگا، اعظم نذیر تارڑ کی اسلام آباد دھماکے کے زخمیوں کی عیادت
  • افغان پولیس پریڈ میں پاکستان مخالف ترانے، اسلام آباد کو آگ لگانے کی دھمکیاں
  • گیلپ سروے: 40 فیصد پاکستانی دوسری شادی کے حامی، 60 فیصد نے مخالفت کردی
  • قاتل کا اعتراف
  • چین کا اعلیٰ معیار کے کھلے پن کی جانب ایک اور قدم