Express News:
2025-11-20@02:17:59 GMT

انقلاب کے حامی نوجوانوں کے نام

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

پاکستان میں بعض سیاسی اور مذہبی گروہ بالخصوص نوجوانوں کی جانب سے انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ موجودہ نظام سے مایوس نظر آتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ مایوسی کیوں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت کہ پاکستان کے عوام نے پارلیمانی نظام سے لے کر صدارتی نظام صوبہ پرستی سے لے کر وفاقی نظام مذہبی سیاست سے لے کر سیکولر سیاست کے تمام حربے آزما لیے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکے، اس ملک میں طاقتور آمروں کی حکومت بھی رہی ہے اور جمہوریت کے علم برداروں کی بھی، اس ملک پر روایت پسندوں کا غلبہ بھی رہا ہے اور روشن خیالوں کا بھی، اس ملک میں مغربی تہذیب کے دل دادہ حکمران بھی رہے ہیں اور ایسے بھی جنھیں مرد مومن کے خطابات اور القابات سے نوازا گیا، ان تمام حربوں کے استعمال ہونے کے باوجود عوام کی تقدیر نہیں بدل سکی۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا بہتر جواب تو سیاسی ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں بار بار کے مارشل لا کے نفاذ کے باعث ہمارے یہاں جمہوری عمل تسلسل سے جاری نہ رہ سکا جس کی وجہ سے ہم عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ظاہر ہے ایسے مایوس کن حالات میں بعض سیاسی اور مذہبی طبقات کی جانب سے انقلاب کا نعرہ لگانا ایک فطری عمل ہے۔

لفظ ’’ انقلاب‘‘ بظاہر ایک چھ حروفی لفظ ہے لیکن یہ لفظ اپنے اندر ایسی تاثیر اور دل کشی رکھتا ہے کہ اس لفظ کو بطور نعرہ بلند کرنے والے کو اپنے سحر میں اس طرح گرفتار کر لیتا ہے کہ وہ خود کو انقلابی سمجھنے لگتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انقلاب سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کا ایک ذریعہ ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ لفظ خون ریزی کے تصور سے جڑا ہوا ہے ہمارے یہاں لفظ ’’انقلاب‘‘ کے حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ اگر پاکستان کے تمام عوام ظلم و جبر کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں اور جلاؤ گھیراؤ کرکے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر لیں تو انقلاب آ جائے گا۔

میں کیونکہ تجسس کا مارا اور سوال کرنے کی بیماری میں مبتلا ہوں اس لیے میرا ان عناصر سے یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ بتائیے اس عمل میں کامیابی کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا پروگرام ہے، تعمیر نو کا عمل کیسے شروع ہوگا، اس کام کو کون انجام دے گا اور عوام کو اس انقلاب کے ثمرات کس طرح حاصل ہوں گے؟ ان سوالات کا ان عناصر کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم انقلاب میں کامیابی کے بعد دیکھیں گے، اس جواب کے ضمن میں، میں ان عناصر سے احتراماً عرض کرتا ہوں کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد راستہ اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں۔

ان پرتشدد تحریکوں کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور انارکی جنم لیتی ہے، ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے اس کا خمیازہ بھی عوام ہی بھگتتے ہیں۔ اس لیے دنیا میں غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقوں سے حکومتوں کی تبدیلی کو جرم قرار دیا جاتا ہے اور تبدیلی کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کے طریقہ کار پر ہی زور دیا جاتا ہے یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر خون خرابے کے سیاسی اور سماجی نظام میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

میرے اس نقطہ نظر سے کچھ عناصر اتفاق کرتے ہیں، کچھ اپنے موقف پر ہی قائم رہتے ہیں، آج کا یہ کالم اسی تناظر میں تحریر کیا ہے۔ آئیے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ انقلاب کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انقلابی تحریکیں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہیں تاکہ انقلاب کے حامی نوجوانوں کو رہنمائی حاصل ہو سکے۔ انقلاب کے لفظی معنی ایک نظام زندگی کا دوسرے نظام زندگی میں تبدیل ہونا یہ تبدیلی ظاہری نہیں ہوتی بلکہ اس میں نظریات، افکار، ترجیحات اور سماجی اقدار سب کچھ بدل جاتی ہیں یعنی انقلاب وہ عمل ہے جس میں صرف حکومتیں اور اقدار ہی نہیں بدلتا بلکہ حکمران طبقہ کا پورا نظام اس کی سوچ اور رسوم و رواج سب بدل جاتے ہیں۔

انقلاب معاشرے کے اندر ایسی تبدیلی کا نام ہے جو نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دے۔یہ انقلاب اس وقت آتا ہے جب رائج نظام بوسیدہ اور فرسودہ ہو جاتا ہے اور وہ مزید چلنے کے قابل نہ رہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی گنجائش باقی رہے جب لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ نظام ناکام ہو چکا ہے اور اس کو مزید نہیں چلایا جاسکتا اور اب نئے نظام کی ضرورت ہے۔ اب جدوجہد کرکے نئے انقلاب کو لانا ہوگا۔

یعنی انقلاب کی ضرورت کا احساس انقلاب کا پہلا مرحلہ ہے۔دوسرے مرحلے میں عوام کے سامنے انقلابی نظریہ پیش کیا جاتا ہے، انقلابی نظریے سے مراد مربوط خیالات ہوتے ہیں جو کسی انسانی سماج کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔ یہ کام عمومی طور پر دانشور طبقات کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔انقلابی نظریہ پیش کیے جانے کے بعد ایک انقلابی پارٹی کا تشکیل پایا جانا ہے۔

یہ انقلاب کا تیسرا مرحلہ ہے، انقلابی نظریہ کی روشنی میں پارٹی کو منظم کیا جاتا ہے۔ پارٹی اس نظریے کی روشنی میں اپنا ایک منشور ترتیب دیتی ہے۔ پارٹی منشور ایسا ہو جو عوامی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار ہو، قابل عمل ہو اور سماج کو بدلنے کا پورا خاکہ پیش کرتا ہو۔ انقلابی منشورکو مرتب کرنے کے بعد لیڈر شپ کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے، یہ انقلاب کا چوتھا مرحلہ ہے۔

قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ باصلاحیت ہو، سیاسی بصیرت کی حامل ہو، مخلص، دیانت دار اور دلیر ہو۔ کسی بھی انقلابی تحریک میں لیڈر شپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ لیڈر شپ اپنی تحریروں اور تقاریر کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک منتقل کرتی ہے تاکہ عوام فرسودہ نظام کے خلاف ہو کر نئے نظام کی جدوجہد پر آمادہ ہو۔ انقلاب کے پانچویں مرحلے میں انقلابی جماعت میں شامل ہونے والے کارکنوں کو فکری اور عملی تربیت سے گزارا جاتا ہے، اس عمل میں پارٹی کی جانب سے مرتب کیا گیا تحریکی لٹریچر اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انھیں پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ کارکنان انقلابی نظریے کی روشنی میں نظریاتی طور پر پختہ ہونے کے نہ صرف پارٹی کے نظریے کو عوام الناس تک عام کرتے ہیں بلکہ انھیں عمل کے لیے بھی آمادہ کرتے ہیں اس طرح لوگوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور پارٹی ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

انقلابی تحریکیں نظام سے سمجھوتہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے بغاوت کرتی ہیں جس کے نتیجے میں تصادم جنم لیتا ہے۔ یہ انقلاب کا چھٹا مرحلہ ہے اس مرحلے کو بھی انقلابی جماعتیں حکمت کے ساتھ طے کرتی ہیں۔ اس طرح عوامی جدوجہد کے نتیجے میں انھیں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اس کے بعد اپنے منشور کی روشنی میں نظام کو تبدیل کرکے معاشرے کو ایک نئی زندگی دے دیتی ہیں۔یاد رکھیں انقلاب کے تمام تقاضے پورے کیے بغیر ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ بلند کرنا ملک میں انارکی، بدامنی، انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی روشنی میں کیا جاتا ہے کی جانب سے انقلاب کے انقلاب کا یہ انقلاب کرتے ہیں مرحلہ ہے حاصل ہو ملک میں ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

چین کا نوجوانوں کی شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیجنگ: چینی حکومت نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دیتے ہوئے شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق مشرقی چین کے شہر ننگبو نے 31 دسمبر تک شادیاں کرنے والے جوڑوں کے شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق حکومت نے نوجوانوں کو شادی اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ چین میں گزشتہ سال شادیوں میں20 فیصد کمی آئی، جو ریکارڈ کے مطابق سب سے بڑی کمی ہے، جہاں شادی کے بعد خاندان شروع کرنے میں دلچسپی میں کمی پر طویل عرصے سے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم کے زیادہ اخراجات کو موردِ الزام قرار دیا جا تا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ نے نوبیاہتا افراد شادی کے اخراجات کے لیے امدادی رقم کے8 واو¿چر حاصل کر سکتے ہیں، جن کی کل مالیت141 ڈالر ہے جوکہ واو¿چرز کی رقم کو شادی کی تقریبات اور امور پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔

محمد ایوب

متعلقہ مضامین

  • ’’بدلو نظام اجتماع عام‘‘ : نئی تحریک شروع کرنے جارہے ہیں‘کاشف سعید شیخ
  • جاگیرداروں ‘وڈیروں اور مافیاز کے مسلط کردہ ظالمانہ نظام کو اب مزید برداشت نہیں کریں گے‘حافظ نعیم الرحمن
  • مافیاز کے ظالمانہ نظام کوبرداشت نہیں کریں گے، حافظ نعیم
  • کوئٹہ کے مقبول ترین روایتی کلچوں کا سفر، تندور کی دھیمی آنچ سے دلوں تک
  • اجتماع عام میں اضلاع سے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوگی، حافظ طاہر مجید
  • پاکستان میں پہلی بار بنکرنگ لائسنس کا اجراء، سمندری معیشت میں انقلاب کی توقع
  • چین کا نوجوانوں کی شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان
  • کوئٹہ، حکومت کیجانب سے سڑکیں بند، ٹریفک کا نظام درہم برہم
  • منشیات شہروں تک آخر پہنچتی کیسے ہے؟بارڈر پر کیوں نہیں روکا جاتا؟جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار 
  • بارڈر پر منشیات کو کیوں نہیں روکا جاتا؟ ضیاء الحق کا دیا تحفہ بھگتیں: جسٹس جمال مندوخیل