Express News:
2025-10-05@07:39:12 GMT

انقلاب کے حامی نوجوانوں کے نام

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

پاکستان میں بعض سیاسی اور مذہبی گروہ بالخصوص نوجوانوں کی جانب سے انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ موجودہ نظام سے مایوس نظر آتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ مایوسی کیوں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت کہ پاکستان کے عوام نے پارلیمانی نظام سے لے کر صدارتی نظام صوبہ پرستی سے لے کر وفاقی نظام مذہبی سیاست سے لے کر سیکولر سیاست کے تمام حربے آزما لیے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکے، اس ملک میں طاقتور آمروں کی حکومت بھی رہی ہے اور جمہوریت کے علم برداروں کی بھی، اس ملک پر روایت پسندوں کا غلبہ بھی رہا ہے اور روشن خیالوں کا بھی، اس ملک میں مغربی تہذیب کے دل دادہ حکمران بھی رہے ہیں اور ایسے بھی جنھیں مرد مومن کے خطابات اور القابات سے نوازا گیا، ان تمام حربوں کے استعمال ہونے کے باوجود عوام کی تقدیر نہیں بدل سکی۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا بہتر جواب تو سیاسی ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں بار بار کے مارشل لا کے نفاذ کے باعث ہمارے یہاں جمہوری عمل تسلسل سے جاری نہ رہ سکا جس کی وجہ سے ہم عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ظاہر ہے ایسے مایوس کن حالات میں بعض سیاسی اور مذہبی طبقات کی جانب سے انقلاب کا نعرہ لگانا ایک فطری عمل ہے۔

لفظ ’’ انقلاب‘‘ بظاہر ایک چھ حروفی لفظ ہے لیکن یہ لفظ اپنے اندر ایسی تاثیر اور دل کشی رکھتا ہے کہ اس لفظ کو بطور نعرہ بلند کرنے والے کو اپنے سحر میں اس طرح گرفتار کر لیتا ہے کہ وہ خود کو انقلابی سمجھنے لگتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انقلاب سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کا ایک ذریعہ ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ لفظ خون ریزی کے تصور سے جڑا ہوا ہے ہمارے یہاں لفظ ’’انقلاب‘‘ کے حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ اگر پاکستان کے تمام عوام ظلم و جبر کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں اور جلاؤ گھیراؤ کرکے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر لیں تو انقلاب آ جائے گا۔

میں کیونکہ تجسس کا مارا اور سوال کرنے کی بیماری میں مبتلا ہوں اس لیے میرا ان عناصر سے یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ بتائیے اس عمل میں کامیابی کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا پروگرام ہے، تعمیر نو کا عمل کیسے شروع ہوگا، اس کام کو کون انجام دے گا اور عوام کو اس انقلاب کے ثمرات کس طرح حاصل ہوں گے؟ ان سوالات کا ان عناصر کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم انقلاب میں کامیابی کے بعد دیکھیں گے، اس جواب کے ضمن میں، میں ان عناصر سے احتراماً عرض کرتا ہوں کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد راستہ اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں۔

ان پرتشدد تحریکوں کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور انارکی جنم لیتی ہے، ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے اس کا خمیازہ بھی عوام ہی بھگتتے ہیں۔ اس لیے دنیا میں غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقوں سے حکومتوں کی تبدیلی کو جرم قرار دیا جاتا ہے اور تبدیلی کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کے طریقہ کار پر ہی زور دیا جاتا ہے یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر خون خرابے کے سیاسی اور سماجی نظام میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

میرے اس نقطہ نظر سے کچھ عناصر اتفاق کرتے ہیں، کچھ اپنے موقف پر ہی قائم رہتے ہیں، آج کا یہ کالم اسی تناظر میں تحریر کیا ہے۔ آئیے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ انقلاب کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انقلابی تحریکیں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہیں تاکہ انقلاب کے حامی نوجوانوں کو رہنمائی حاصل ہو سکے۔ انقلاب کے لفظی معنی ایک نظام زندگی کا دوسرے نظام زندگی میں تبدیل ہونا یہ تبدیلی ظاہری نہیں ہوتی بلکہ اس میں نظریات، افکار، ترجیحات اور سماجی اقدار سب کچھ بدل جاتی ہیں یعنی انقلاب وہ عمل ہے جس میں صرف حکومتیں اور اقدار ہی نہیں بدلتا بلکہ حکمران طبقہ کا پورا نظام اس کی سوچ اور رسوم و رواج سب بدل جاتے ہیں۔

انقلاب معاشرے کے اندر ایسی تبدیلی کا نام ہے جو نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دے۔یہ انقلاب اس وقت آتا ہے جب رائج نظام بوسیدہ اور فرسودہ ہو جاتا ہے اور وہ مزید چلنے کے قابل نہ رہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی گنجائش باقی رہے جب لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ نظام ناکام ہو چکا ہے اور اس کو مزید نہیں چلایا جاسکتا اور اب نئے نظام کی ضرورت ہے۔ اب جدوجہد کرکے نئے انقلاب کو لانا ہوگا۔

یعنی انقلاب کی ضرورت کا احساس انقلاب کا پہلا مرحلہ ہے۔دوسرے مرحلے میں عوام کے سامنے انقلابی نظریہ پیش کیا جاتا ہے، انقلابی نظریے سے مراد مربوط خیالات ہوتے ہیں جو کسی انسانی سماج کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔ یہ کام عمومی طور پر دانشور طبقات کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔انقلابی نظریہ پیش کیے جانے کے بعد ایک انقلابی پارٹی کا تشکیل پایا جانا ہے۔

یہ انقلاب کا تیسرا مرحلہ ہے، انقلابی نظریہ کی روشنی میں پارٹی کو منظم کیا جاتا ہے۔ پارٹی اس نظریے کی روشنی میں اپنا ایک منشور ترتیب دیتی ہے۔ پارٹی منشور ایسا ہو جو عوامی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار ہو، قابل عمل ہو اور سماج کو بدلنے کا پورا خاکہ پیش کرتا ہو۔ انقلابی منشورکو مرتب کرنے کے بعد لیڈر شپ کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے، یہ انقلاب کا چوتھا مرحلہ ہے۔

قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ باصلاحیت ہو، سیاسی بصیرت کی حامل ہو، مخلص، دیانت دار اور دلیر ہو۔ کسی بھی انقلابی تحریک میں لیڈر شپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ لیڈر شپ اپنی تحریروں اور تقاریر کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک منتقل کرتی ہے تاکہ عوام فرسودہ نظام کے خلاف ہو کر نئے نظام کی جدوجہد پر آمادہ ہو۔ انقلاب کے پانچویں مرحلے میں انقلابی جماعت میں شامل ہونے والے کارکنوں کو فکری اور عملی تربیت سے گزارا جاتا ہے، اس عمل میں پارٹی کی جانب سے مرتب کیا گیا تحریکی لٹریچر اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انھیں پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ کارکنان انقلابی نظریے کی روشنی میں نظریاتی طور پر پختہ ہونے کے نہ صرف پارٹی کے نظریے کو عوام الناس تک عام کرتے ہیں بلکہ انھیں عمل کے لیے بھی آمادہ کرتے ہیں اس طرح لوگوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور پارٹی ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

انقلابی تحریکیں نظام سے سمجھوتہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے بغاوت کرتی ہیں جس کے نتیجے میں تصادم جنم لیتا ہے۔ یہ انقلاب کا چھٹا مرحلہ ہے اس مرحلے کو بھی انقلابی جماعتیں حکمت کے ساتھ طے کرتی ہیں۔ اس طرح عوامی جدوجہد کے نتیجے میں انھیں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اس کے بعد اپنے منشور کی روشنی میں نظام کو تبدیل کرکے معاشرے کو ایک نئی زندگی دے دیتی ہیں۔یاد رکھیں انقلاب کے تمام تقاضے پورے کیے بغیر ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ بلند کرنا ملک میں انارکی، بدامنی، انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی روشنی میں کیا جاتا ہے کی جانب سے انقلاب کے انقلاب کا یہ انقلاب کرتے ہیں مرحلہ ہے حاصل ہو ملک میں ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

وینٹیج گیمز کا اجرا: پاکستان میں نوجوانوں کے کھیلوں کی نئی دنیا

وینٹیج گیمز کا باضابطہ آغاز ہو گیا جو پاکستان کا پہلا منظم قومی پلیٹ فارم ہے جو سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کھیلوں کو یکجا کرتا ہے، یہ پلیٹ فارم www.vantagegames.org پر دستیاب ہے۔اس کا مقصد کھیلوں کے جمود زدہ غیر مربوط اور مالی طور پہ نظر انداز شدہ بنیادی ڈھانچے کو پیشہ ورانہ صالحیت، تخلیقی سوچ دینا ہے۔وینٹیج گیمز کے ذریعہ اس بے ترتیبی کو ایک خاص ترتیب میں لایا جائے گا جس کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے تاکہ نوجوانوں تک اس کے فوائد پہنچ سکیں۔ملک بھر میں اس کی ترسیل اور عملی طور پہ یقینی بنانے کے لیے وینٹیج گیمز نے تمام بورڈ آف انٹر میڈیٹ سے الحاق کر لیا ہے تاکہ بچوں کی ذہن سازی پہ کام کیا جائے اور انہیں سپورٹس سے وابستگی کے فوائد بتائے جائیں۔اس منصوبہ بندی کے بانی حیدر علی داؤد نے اپنے خیاالت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجود وقت عمل کا ہے اور بچوں کو تعلیمی شروعات سے ہی سپورٹس کی طرف مائل کرنا چاہیے تاکہ اچھے، مثبت اور توانا اذہان معاشرے کا حصہ بن سکیں اور ملک کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔انہوں نے کہا ہے کہ کھیلیں صرف بچوں پہ ہی اثرانداز نہیں ہوتیں بلکہ اس کے اثرات اردگرد کے ماحول کو بھی توانا کر دیتے ہیں اور مجموعی طور پہ خوشحالی آتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وینٹیج گیمز صرف ایک یا دو دن کی منصوبہ بندی نہیں ہے اس کا اجراء پورا ایک سال ہوگا تاکہ بہتری کا عمل مسلسل اور لگاتار رہے، وینٹیج گیمز کو اس وقت اسٹرابری سپورٹس مینجمنٹ اور پاکستان سپورٹس الائنس مشترکہ طور پہ دیکھ رہی ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • آج شام میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن عوام کے بغیر
  • پاکستان خودمختار فلسطینی ریاست کا حامی، دارالحکومت القدس ہو: دفتر خارجہ
  • خودمختار فلسطینی ریاست کے حامی ہیں‘ جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو‘پاکستان
  • 2ریاستی حل قبول نہیں‘ صرف ریاست فلسطین کے حامی ہیں، حمیرا طارق
  • اب چاندی بھی عوام کی پہنچ سے دور
  • چینی نوجوانوں میں — ’’ٹوتھ ٹیٹو‘‘ کا نیا فیشن
  • پاکستان خودمختار فلسطینی ریاست کا حامی ہے،  جس کا دارالحکومت القدس  شریف ہو، دفتر خارجہ
  • پاکستان خودمختار فلسطینی ریاست کا حامی ہے، جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، دفتر خارجہ
  • اب عمارتیں خود بجلی بنائیں گی، ایم آئی ٹی کا انقلابی کنکریٹ متعارف
  • وینٹیج گیمز کا اجرا: پاکستان میں نوجوانوں کے کھیلوں کی نئی دنیا