انقلاب کے حامی نوجوانوں کے نام
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
پاکستان میں بعض سیاسی اور مذہبی گروہ بالخصوص نوجوانوں کی جانب سے انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ موجودہ نظام سے مایوس نظر آتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ مایوسی کیوں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت کہ پاکستان کے عوام نے پارلیمانی نظام سے لے کر صدارتی نظام صوبہ پرستی سے لے کر وفاقی نظام مذہبی سیاست سے لے کر سیکولر سیاست کے تمام حربے آزما لیے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکے، اس ملک میں طاقتور آمروں کی حکومت بھی رہی ہے اور جمہوریت کے علم برداروں کی بھی، اس ملک پر روایت پسندوں کا غلبہ بھی رہا ہے اور روشن خیالوں کا بھی، اس ملک میں مغربی تہذیب کے دل دادہ حکمران بھی رہے ہیں اور ایسے بھی جنھیں مرد مومن کے خطابات اور القابات سے نوازا گیا، ان تمام حربوں کے استعمال ہونے کے باوجود عوام کی تقدیر نہیں بدل سکی۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا بہتر جواب تو سیاسی ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں بار بار کے مارشل لا کے نفاذ کے باعث ہمارے یہاں جمہوری عمل تسلسل سے جاری نہ رہ سکا جس کی وجہ سے ہم عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ظاہر ہے ایسے مایوس کن حالات میں بعض سیاسی اور مذہبی طبقات کی جانب سے انقلاب کا نعرہ لگانا ایک فطری عمل ہے۔
لفظ ’’ انقلاب‘‘ بظاہر ایک چھ حروفی لفظ ہے لیکن یہ لفظ اپنے اندر ایسی تاثیر اور دل کشی رکھتا ہے کہ اس لفظ کو بطور نعرہ بلند کرنے والے کو اپنے سحر میں اس طرح گرفتار کر لیتا ہے کہ وہ خود کو انقلابی سمجھنے لگتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انقلاب سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کا ایک ذریعہ ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ لفظ خون ریزی کے تصور سے جڑا ہوا ہے ہمارے یہاں لفظ ’’انقلاب‘‘ کے حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ اگر پاکستان کے تمام عوام ظلم و جبر کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں اور جلاؤ گھیراؤ کرکے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کر لیں تو انقلاب آ جائے گا۔
میں کیونکہ تجسس کا مارا اور سوال کرنے کی بیماری میں مبتلا ہوں اس لیے میرا ان عناصر سے یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ بتائیے اس عمل میں کامیابی کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا پروگرام ہے، تعمیر نو کا عمل کیسے شروع ہوگا، اس کام کو کون انجام دے گا اور عوام کو اس انقلاب کے ثمرات کس طرح حاصل ہوں گے؟ ان سوالات کا ان عناصر کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم انقلاب میں کامیابی کے بعد دیکھیں گے، اس جواب کے ضمن میں، میں ان عناصر سے احتراماً عرض کرتا ہوں کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد راستہ اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں۔
ان پرتشدد تحریکوں کے نتیجے میں ملک میں بدامنی اور انارکی جنم لیتی ہے، ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے اس کا خمیازہ بھی عوام ہی بھگتتے ہیں۔ اس لیے دنیا میں غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقوں سے حکومتوں کی تبدیلی کو جرم قرار دیا جاتا ہے اور تبدیلی کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کے طریقہ کار پر ہی زور دیا جاتا ہے یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بغیر خون خرابے کے سیاسی اور سماجی نظام میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
میرے اس نقطہ نظر سے کچھ عناصر اتفاق کرتے ہیں، کچھ اپنے موقف پر ہی قائم رہتے ہیں، آج کا یہ کالم اسی تناظر میں تحریر کیا ہے۔ آئیے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ انقلاب کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انقلابی تحریکیں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہیں تاکہ انقلاب کے حامی نوجوانوں کو رہنمائی حاصل ہو سکے۔ انقلاب کے لفظی معنی ایک نظام زندگی کا دوسرے نظام زندگی میں تبدیل ہونا یہ تبدیلی ظاہری نہیں ہوتی بلکہ اس میں نظریات، افکار، ترجیحات اور سماجی اقدار سب کچھ بدل جاتی ہیں یعنی انقلاب وہ عمل ہے جس میں صرف حکومتیں اور اقدار ہی نہیں بدلتا بلکہ حکمران طبقہ کا پورا نظام اس کی سوچ اور رسوم و رواج سب بدل جاتے ہیں۔
انقلاب معاشرے کے اندر ایسی تبدیلی کا نام ہے جو نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دے۔یہ انقلاب اس وقت آتا ہے جب رائج نظام بوسیدہ اور فرسودہ ہو جاتا ہے اور وہ مزید چلنے کے قابل نہ رہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی گنجائش باقی رہے جب لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ نظام ناکام ہو چکا ہے اور اس کو مزید نہیں چلایا جاسکتا اور اب نئے نظام کی ضرورت ہے۔ اب جدوجہد کرکے نئے انقلاب کو لانا ہوگا۔
یعنی انقلاب کی ضرورت کا احساس انقلاب کا پہلا مرحلہ ہے۔دوسرے مرحلے میں عوام کے سامنے انقلابی نظریہ پیش کیا جاتا ہے، انقلابی نظریے سے مراد مربوط خیالات ہوتے ہیں جو کسی انسانی سماج کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔ یہ کام عمومی طور پر دانشور طبقات کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔انقلابی نظریہ پیش کیے جانے کے بعد ایک انقلابی پارٹی کا تشکیل پایا جانا ہے۔
یہ انقلاب کا تیسرا مرحلہ ہے، انقلابی نظریہ کی روشنی میں پارٹی کو منظم کیا جاتا ہے۔ پارٹی اس نظریے کی روشنی میں اپنا ایک منشور ترتیب دیتی ہے۔ پارٹی منشور ایسا ہو جو عوامی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار ہو، قابل عمل ہو اور سماج کو بدلنے کا پورا خاکہ پیش کرتا ہو۔ انقلابی منشورکو مرتب کرنے کے بعد لیڈر شپ کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے، یہ انقلاب کا چوتھا مرحلہ ہے۔
قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ باصلاحیت ہو، سیاسی بصیرت کی حامل ہو، مخلص، دیانت دار اور دلیر ہو۔ کسی بھی انقلابی تحریک میں لیڈر شپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ لیڈر شپ اپنی تحریروں اور تقاریر کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک منتقل کرتی ہے تاکہ عوام فرسودہ نظام کے خلاف ہو کر نئے نظام کی جدوجہد پر آمادہ ہو۔ انقلاب کے پانچویں مرحلے میں انقلابی جماعت میں شامل ہونے والے کارکنوں کو فکری اور عملی تربیت سے گزارا جاتا ہے، اس عمل میں پارٹی کی جانب سے مرتب کیا گیا تحریکی لٹریچر اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انھیں پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ کارکنان انقلابی نظریے کی روشنی میں نظریاتی طور پر پختہ ہونے کے نہ صرف پارٹی کے نظریے کو عوام الناس تک عام کرتے ہیں بلکہ انھیں عمل کے لیے بھی آمادہ کرتے ہیں اس طرح لوگوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور پارٹی ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
انقلابی تحریکیں نظام سے سمجھوتہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے بغاوت کرتی ہیں جس کے نتیجے میں تصادم جنم لیتا ہے۔ یہ انقلاب کا چھٹا مرحلہ ہے اس مرحلے کو بھی انقلابی جماعتیں حکمت کے ساتھ طے کرتی ہیں۔ اس طرح عوامی جدوجہد کے نتیجے میں انھیں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اس کے بعد اپنے منشور کی روشنی میں نظام کو تبدیل کرکے معاشرے کو ایک نئی زندگی دے دیتی ہیں۔یاد رکھیں انقلاب کے تمام تقاضے پورے کیے بغیر ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ بلند کرنا ملک میں انارکی، بدامنی، انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی روشنی میں کیا جاتا ہے کی جانب سے انقلاب کے انقلاب کا یہ انقلاب کرتے ہیں مرحلہ ہے حاصل ہو ملک میں ہے اور کے لیے کے بعد
پڑھیں:
حکومت بلوچستان کا منشیات بحالی مرکز کس طرح مریضوں کو صحت اور روزگار کی طرف لا رہا ہے؟
عبداللہ (فرضی نام) کبھی منشیات کی لعنت میں مبتلا تھے۔ نشے کی عادت نے نہ صرف ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا بلکہ وہ اکثر گھریلو جھگڑوں کا باعث بھی بنتی تھی مگر اب ان کی زندگی نے ایک نیا اور خوشگوار موڑ لے لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ژوب کے شہری کا قائم کردہ ادارہ منشیات کے عادی افراد کے لیے نئی زندگی کی نوید
وہ کراٹے کا بھی شوق رکھتے ہیں اور فی الوقت منشیات بحالی مرکز میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب میری طبیعت بہتر ہے، نشے سے دل ٹوٹ چکا تھا۔ لیکن اب میں بجلی کا کام سیکھ رہا ہوں اور بحالی مرکز سے فراغت کے بعد حصول روزگار کے ساتھ ساتھ کراٹے کی پریکٹس بھی دوبارہ شروع کروں گا‘۔
یہ بحالی مرکز بلوچستان حکومت کے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام چل رہا ہے جہاں منشیات کے عادی افراد کا نہ صرف علاج کیا جاتا ہے بلکہ انہیں ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی میں انوکھا واقعہ، منشیات کے عادی 125 افراد کو عام شہریوں نے فرار کروا دیا
سینٹر کے سپروائزر تابش احد کے مطابق پہلے مریضوں کو 15 دن ڈی ٹوکسیفیکیشن کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور پھر انہیں بنیادی تعلیم دینے کے علاوہ الیکٹریشن، درزی اور بلوچستان کا ثقافتی چپل سازی کا کام سکھایا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ حکومت بلوچستان منشیات بحالی مرکز منشیات کے عادی افراد کا علاج