Express News:
2025-10-04@23:47:58 GMT

وہ دن کب آئے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

جنگ خونریزی، تباہی، بربادی یہ الفاظ ہمارے شعور میں یوں رچ بس گئے ہیں جیسے روزمرہ کے معمولات۔ کبھی غزہ میں آگ برستی ہے،کبھی یوکرین میں گولیوں کی گونج سنائی دیتی ہے تو کبھی ایران کی فضا میں جنگی طیاروں کی گرج سنائی دیتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں زندگی کی قیمت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے اور موت کا کاروبار دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔

جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ کیا یہ مذہب کی جنگ ہے؟ کیا یہ زمین کے کسی چھوٹے سے ٹکڑے کی جنگ ہے؟ یا پھر یہ صرف چند طاقتور ریاستوں کے معاشی مفادات اسلحہ ساز اداروں کے منافع اور سامراجی طاقتوں کے پھیلاؤ کی ہوس کی علامت ہیں؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے پڑتے ہیں جہاں جنگوں کا آغاز اکثر انھی قوتوں نے کیا جو خود کو مہذب دنیا کا رہنما کہتی ہیں۔

افریقہ سے لے کر ایشیا تک لاطینی امریکا سے مشرقِ وسطیٰ تک جہاں جہاں سامراج گیا وہاں اپنی طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو غلام بنایا، وسائل کی لوٹ مار کی اور پھر جب ان زمینوں کے باسیوں نے آواز اٹھائی تو ان پر دہشت گرد کا لیبل لگا کر ان کی بستیاں تباہ کر دی گئیں۔ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین کا زخم ،عراق کی جنگ ہو یا افغانستان کی ان سب کے پیچھے اگر کچھ ہے تو وہ سامراجی مفادات، سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا تسلط اور اسلحے کا نہ ختم ہونے والا کاروبار ہے۔

ہم کب سکون سے جی سکیں گے؟ یہ سوال شاید کسی فلسطینی ماں کی آہ میں پوشیدہ ہو جو اپنے بچے کی لاش کو سینے سے لگائے سوچتی ہے کہ آخر یہ خون خرابہ کب رکے گا۔ شاید کسی یوکرینی بزرگ کے دل میں ہو جو اپنے اجڑے گھر کے سامنے بیٹھا ماضی کو یاد کر رہا ہو یا پھر شاید یہ سوال کسی ایرانی باپ کی آنکھ میں ہو جو اپنی بیٹی کے جنازے کو کندھا دے رہا ہو۔

ہم اس دنیا میں تب سکون سے جی سکیں گے جب جنگ کو صرف میدانِ جنگ میں ہونے والی لڑائی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سرمایہ دارانہ جرم کے طور پر پہچانا جائے گا۔ جب ہم یہ مان لیں گے کہ کسی بھی انسان کو صرف اس لیے مار دینا کہ وہ کسی اور قوم مذہب یا رنگ سے تعلق رکھتا ہے، ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔

جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ دنیا کے سارے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کا خون ایک جیسا سرخ ہوتا ہے، ان کی ہنسی ایک جیسی خوشبو رکھتی ہے۔لیکن اس سے پہلے ہمیں سچ کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ آج کی عالمی سیاست اخلاقیات انسانیت یا انصاف پر نہیں بلکہ طاقت کے توازن تیل کی قیمتوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز پر مبنی ہے۔ امریکا ہو یا روس چین ہو یا اسرائیل ہر بڑی طاقت اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے انسانوں کو مہرے بناتی ہے۔

ایک طرف وہ امن کی بات کرتے ہیں دوسری طرف اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچتے ہیں۔اور ہم جو اس دنیا کے عام لوگ ہیں جو ہر روز زندگی کے لیے جدو جہد کرتے ہیں کب تک ان جنگوں کے ایندھن بنتے رہیں گے؟ کب تک ہمارے نوجوان فوجی بھرتیوں میں اپنی جانیں گروی رکھ کر کسی طاقتور کے مفادات کی جنگ لڑیں گے؟ کب تک ہماری عورتیں بیوہ ہوتی رہیں گی؟ کب تک ہمارے بچے یتیم ہوتے رہیں گے؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان قوتوں کو بے نقاب کریں جو جنگ کو ضرورت اور دفاع کا نام دے کر اصل حقیقت چھپاتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی قوم کی بقا کسی سرحد کی حفاظت یا کسی عقیدے کی برتری کے نام پر جب انسانیت کا قتلِ عام ہوتا ہے تو اصل میں قاتل وہی ہیں جو دنیا کی معیشت اور سیاست کے مرکز میں بیٹھے ہیں۔

کیا ہم کبھی ایک دوسرے کو جینے کا حق دے سکیں گے؟ ہاں دے سکتے ہیں اگر ہم اپنی نفرتوں کو پہچانیں ان سازشوں کو سمجھیں جو ہمیں آپس میں لڑاتی ہیں، اگر ہم یہ مان لیں کہ مذہب، زبان، رنگ، قومیت انسان کو تقسیم کرنے کے ہتھیار بنائے گئے ہیں، اگر ہم یہ جان لیں کہ ہر جنگ سے پہلے جھوٹ گھڑا جاتا ہے، میڈیا کے ذریعے فضا تیارکی جاتی ہے اور پھر انسانوں کو مارنے کے لیے جائز بہانہ تراشا جاتا ہے۔

دنیا میں جینے کا حق سب کا ہے۔ کسی فلسطینی کا خون کسی یہودی کے خون سے کم قیمتی نہیں۔ کسی ایرانی کا دکھ کسی امریکی ماں کے آنسو سے کم نہیں۔ کسی افغانی بچے کی بھوک کسی یورپی بچے کی بھوک جتنی ہی تکلیف دہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کی تصویر میڈیا پر آتی ہے اور دوسرے کی لاش ملبے تلے دفن ہو جاتی ہے۔

ہمیں وہ دن لانا ہو گا جب جنگ کو ناکامی سمجھا جائے گا فتح نہیں۔ جب امن کو صرف مذاکرات یا معاہدوں سے نہیں بلکہ انصاف سے جوڑا جائے گا۔ ہمیں یہ لڑائی قلم سے لڑنی ہو گی شعور سے علم سے بیداری سے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہو گا کہ جنگیں انسانوں کا مقدر نہیں بلکہ مفادات کی سازش ہیں۔ ہمیں امن کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، چاہے وہ امن فلسطین میں ہو، ایران میں بھارت میں پاکستان میں یا کسی افریقی ملک میں۔

دنیا سکون کا گھر بن سکتی ہے اگر ہم چاہیں۔ اگر ہم وہ دن لانا چاہیں جب بچے اسکول جائیں نہ کہ پناہ گاہوں میں چھپیں جب ماں کی آنکھ میں خواب ہوں آنسو نہیں جب باپ کے کندھے پر بیٹے کی لاش نہ ہو بلکہ اُس کا بستہ ہو۔کیا وہ دن کبھی آئے گا؟ شاید آئے اگر ہم سوال کرنا سیکھ لیں اگر ہم سچ بولنا سیکھ لیں اگر ہم انسان کو انسان سمجھنا سیکھ لیں۔ جب ہماری آواز قلم سب ظلم کے خلاف یکجا ہو جائیں گے۔ تب شاید وہ دن آئے گا اور ہاں وہ دن ضرور آئے گا جب ہم جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں اپنی آخری سانس تک بات کریں گے لکھیں گے۔ اس خواب کو فیض صاحب نے کیا خوب لفظوں میں ڈھالا ہے۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہلِ حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارضِ خدا کے کعبے سے

سب بت اُٹھوائے جائیں گے

ہم اہلِ صفا مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو ناظر بھی ہے منظر بھی

اٹھے گا أنا الحقّ کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلقِ خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ جائیں گے ا ئے گا کے لیے میں ہو کی جنگ اگر ہم بھی ہو

پڑھیں:

ا مریکا اور پاکستان میں مثبت پیش رفت

آج کل
۔۔۔۔۔۔۔
رفیق پٹیل

امریکی صد ر اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کی حالیہ ملاقاتوں کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ اور خطے میں اہم کردار ملنے والا ہے۔ پاکستان یہ کردار مزید موثر انداز میں کرسکتاہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ توقع کی جارہی ہے پاکستان میں معدنیات اور تیل کے ذخائر کو تلاش کرکے اسے قابل استعمال بنانے سے پاکستان کی انتظامیہ پر معاشی دبائو میں کمی آئے گی۔ معد نیات اور تیل کے حصول کا عمل طویل مدّت ہوسکتا ہے جس کے لیے کئی سالوں پر مشتمل طویل عرصہ درکارہوگا۔ اہم ترین مسئلہ اندرونی خلفشار ہے جس سے نجات کی ضرورت ہے ۔پاکستان بہتر اور موثر کردار صرف اس صورت میں ادا کر سکتا ہے جب پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے نجات حاصل کرکے اندرونی طور پر مستحکم ہو ۔
فوری طور ملک میں جاری بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی قیادت کی دلچسپی بہت کم نظر آتی ہے۔ ریاست کے بنیادی اداروں خصوصاً مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ کی کمزوریوں کے خاتمے کے ذریعے ہی ملک استحکام کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ محض عالمی حمایت سے امور خارجہ یقینا بہتری کے قوی امکانات ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی استحکام کی توقع کرناخام خیالی کے سوا کچھ نہیںہے۔ پاکستان کا ایک پڑوسی ملک بھارت جو خارجہ سطح پر پاکستان کی کسی بھی کامیابی سے خوش نہیں ہوتا پاکستان کو نقصان پہچانے کے مزید درپے ہوسکتا ہے۔ پاکستان دوستی اور امن کا خواہاں ہے لیکن دوسرے فریق سے مثبت تعاون نہیں ملتا پاکستان کے اندرونی عدم استحکا م کی موجودہ خراب ترین کیفیت اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے اور یہ کچھ اتار چڑھائو کے ساتھ رفتہ رفتہ بتدریج بڑھتی چلی گئی ۔ قیام پاکستان کے بعدسے اچھی اور موثر حکمرانی سے محرومی کے باعث پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچارہے۔ حالیہ چند سالوں میں اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت موجودہ حکمرانوں اور عوا م کے درمیان بہت بڑی دوری ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے واقعات اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کے نتیجے جنگ کی کیفیت میں ہے ۔پاکستان علاقائی محل وقوع کی وجہ سے دنیا کے اہم ممالک کے لیے اہم ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے میں خاطر خواہ کامیابی سے محروم ہے ۔پاکستان کا حکمران طبقہ عوامی نمائندگی سے محروم ہونے کی وجہ سے کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی صلاحیت سے اس لیے محروم ہے کہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے وفادار لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے چاپلوس اور بدعنوان عناصر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیںایماندار اور اچھی کارکردگی رکھنے والے عناصر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ملک دشمنوں کو ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ خصوصاً پڑوسی ملک دولت کا استعمال کرکے اہم عہدیداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کر چکا ہے ۔اس جدید دور میں مصنوعی ذہانت ،جدید ٹیکنالوجی کے فر وغ اور انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر معلومات کی رسائی سے دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں ایک محدود پیمانے کی عالمی جنگ بھی جاری ہے جس میںیوکرین،روس ،اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان جنگ اور پاک بھارت کی حالیہ فوجی کارروائیاں شامل ہیں دنیا کی سب سے بڑی فوجی اورمعاشی طاقت امریکا چین کی معاشی ترقی، فوجی طاقت میںاضافے اور تجارتی اثرورسوخ کو روکنے کے اقدامات کر رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر نئی تبدیلیا ں رونما ہورہی ہیں ۔اس منظر نامے میں پاکستان کو فوری طور پر سیاسی،معاشی استحکام کے اقدامات کی اس لیے ضرورت ہے کہ اندرونی عدم استحکام میں عوامی بے چینی،بڑھتی ہوئی غربت،بیروزگاری،مہنگائی ،بد عنوانی،تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کمی، مہنگی ٹرانسپورٹ، صاف پانی کی کمی، جرائم کو قابو پانے میں رکاوٹیں، صنعت اور زراعت کی پیداوار میں کمی ،خصوصاًبجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور حالیہ سیلاب سے مزید اضافہ ہو سکتاہے۔ پاکستان کے ان مسائل کی کسی حد تک نشاندہی ورلڈ بینک نے کی ہے ۔پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشابھی بار بار ان مسائل اور خطرات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔دنیا بھر میں ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالی جائے اور معاشی ماہرین کی رائے
کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی اچھی اور صاف ستھری حکمرانی کے بغیر ممکن نہیںہے۔ ان تما م مسائل پر قابو پانے کے لیے بدعنوانی سے پاک موثر اور صاف ستھری با صلاحیت میرٹ پر مشتمل انتظامیہ،عوامی حمایت پر مشتمل مقننہ،آزاد اور غیرجانبدار عدلیہ کے ساتھ میڈیا کی آزادی ضروری ہے جس کے ذریعے پاکستان کے تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی ہوملک میں امن و امان ہو، مہنگائی کم ہو، تجارتی اور صنعتی سرگرمیوںکا فروغ ہو، روزگا ر میں اضافہ ہو، ایکسپورٹ کو فروغ ملے، تعلیم عام ہو، تعلیم کے معیار میں حقیقی معنوں میں اضافہ، ہو ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل ہو، یہ کام پاکستان کی موجودہ قیادت کو ہی کرنے ہوں گے جو ایک پیچیدہ اور انتہائی محنت طلب مسئلہ ہے لیکن قومیں اسی صورت میں آگے بڑھتی ہیں جب وہ مشکالات کا سامنا کرنے کے لیے تیا ر ہوں اور ایسے آسان حل جو سطحی ہوں مصنوعی ہوں محض پردہ پوشی اورنمائش کے لیے ہوں مزید خرابی پیدا کرسکتے ہیں۔پاکستان اور امریکا کی قربت پر شکوک کا اظہا ر کرنے کے بجائے اس کے مثبت پہلو پر نظر رکھنی جائے تو بہترہے ۔دنیاکاکوئی ملک بھی دوسرے ملک کے تمام اندرنی پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کر سکتا ۔اس کے لیے عوام اور انتظامیہ مل کر اجتماعی طور پر راہ تلاش کر سکتے ہیں۔ عوام کو نظر انداز کرنے کی موجودہ روش دانشمندی کے منافی ہی نہیں اچھی حکمرانی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے نتیجے میںکم ازکم اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے خاتمے میں امریکا مزید کردار ادا کرے گا جو ایک مزید بڑی پیش رفت ہوگی ۔صرف خطے میں ہی نہیں دنیا بھر میں امن تمام قوموں کے مفاد میں ہے ۔امریکی صدر ٹرمپ اگر دنیا کو امن کی طرف لے جانے اور تنازعات کا حل افہام وتفہیم سے نکالنے کی کوشش کرینگے تو یقیناان کی پذیرائی ہوگی ۔
دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی خیال رکھنا ہوگاکہ جنگ سے مزید مسائل پید ا ہوتے ہیں اور معصوم جانوں کا نقصان ہوتا ہے ۔دنیا کو موسمیاتی تبدیلی جیسے سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے جس کے مقابلے کے دنیا بھر کے ممالک کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر اس دنیا کو اس کے تباہ کن اثرات سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ مفادات سے بالاتر ہوکر ہی اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا کیا دنیا کے طاقتور اپنے مفادات سے پیچھے ہٹ کر دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس سے پہلے کے دیر ہوجائے۔

متعلقہ مضامین

  • چاہتے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ملنا چاہیے، فیصل کریم کنڈی
  • گریٹا تھنبرگ اور فلسطین
  • دل کی بات زبان پر، پنجاب کو امداد کی ضرورت نہیں تو ہمیں دیں،فیصل کنڈی
  • صمود فلوٹیلا، 40 گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا گیا، برہنہ کیا گیا، دیوار پر مسلم بچوں کے خون سے نام لکھے تھے
  • غزہ کی جنگ نے اسرائیل کو دنیا میں تنہاء كر دیا، ڈونلڈ ٹرامپ
  • بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، ہمیں کوئی فکر نہیں، ہر وقت جواب دینے کیلیے تیار رہتے ہیں: سیکیورٹی ذرائع
  • مشاق احمد سمیت تمام پاکستانیوں کی رہائی کیلیے بااثر یورپی ملک سے رابطے میں ہیں،اسحق ڈار
  • نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • ا مریکا اور پاکستان میں مثبت پیش رفت