جنگ خونریزی، تباہی، بربادی یہ الفاظ ہمارے شعور میں یوں رچ بس گئے ہیں جیسے روزمرہ کے معمولات۔ کبھی غزہ میں آگ برستی ہے،کبھی یوکرین میں گولیوں کی گونج سنائی دیتی ہے تو کبھی ایران کی فضا میں جنگی طیاروں کی گرج سنائی دیتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں زندگی کی قیمت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے اور موت کا کاروبار دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔
جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ کیا یہ مذہب کی جنگ ہے؟ کیا یہ زمین کے کسی چھوٹے سے ٹکڑے کی جنگ ہے؟ یا پھر یہ صرف چند طاقتور ریاستوں کے معاشی مفادات اسلحہ ساز اداروں کے منافع اور سامراجی طاقتوں کے پھیلاؤ کی ہوس کی علامت ہیں؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے پڑتے ہیں جہاں جنگوں کا آغاز اکثر انھی قوتوں نے کیا جو خود کو مہذب دنیا کا رہنما کہتی ہیں۔
افریقہ سے لے کر ایشیا تک لاطینی امریکا سے مشرقِ وسطیٰ تک جہاں جہاں سامراج گیا وہاں اپنی طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو غلام بنایا، وسائل کی لوٹ مار کی اور پھر جب ان زمینوں کے باسیوں نے آواز اٹھائی تو ان پر دہشت گرد کا لیبل لگا کر ان کی بستیاں تباہ کر دی گئیں۔ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین کا زخم ،عراق کی جنگ ہو یا افغانستان کی ان سب کے پیچھے اگر کچھ ہے تو وہ سامراجی مفادات، سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا تسلط اور اسلحے کا نہ ختم ہونے والا کاروبار ہے۔
ہم کب سکون سے جی سکیں گے؟ یہ سوال شاید کسی فلسطینی ماں کی آہ میں پوشیدہ ہو جو اپنے بچے کی لاش کو سینے سے لگائے سوچتی ہے کہ آخر یہ خون خرابہ کب رکے گا۔ شاید کسی یوکرینی بزرگ کے دل میں ہو جو اپنے اجڑے گھر کے سامنے بیٹھا ماضی کو یاد کر رہا ہو یا پھر شاید یہ سوال کسی ایرانی باپ کی آنکھ میں ہو جو اپنی بیٹی کے جنازے کو کندھا دے رہا ہو۔
ہم اس دنیا میں تب سکون سے جی سکیں گے جب جنگ کو صرف میدانِ جنگ میں ہونے والی لڑائی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سرمایہ دارانہ جرم کے طور پر پہچانا جائے گا۔ جب ہم یہ مان لیں گے کہ کسی بھی انسان کو صرف اس لیے مار دینا کہ وہ کسی اور قوم مذہب یا رنگ سے تعلق رکھتا ہے، ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔
جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ دنیا کے سارے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کا خون ایک جیسا سرخ ہوتا ہے، ان کی ہنسی ایک جیسی خوشبو رکھتی ہے۔لیکن اس سے پہلے ہمیں سچ کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ آج کی عالمی سیاست اخلاقیات انسانیت یا انصاف پر نہیں بلکہ طاقت کے توازن تیل کی قیمتوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز پر مبنی ہے۔ امریکا ہو یا روس چین ہو یا اسرائیل ہر بڑی طاقت اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے انسانوں کو مہرے بناتی ہے۔
ایک طرف وہ امن کی بات کرتے ہیں دوسری طرف اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچتے ہیں۔اور ہم جو اس دنیا کے عام لوگ ہیں جو ہر روز زندگی کے لیے جدو جہد کرتے ہیں کب تک ان جنگوں کے ایندھن بنتے رہیں گے؟ کب تک ہمارے نوجوان فوجی بھرتیوں میں اپنی جانیں گروی رکھ کر کسی طاقتور کے مفادات کی جنگ لڑیں گے؟ کب تک ہماری عورتیں بیوہ ہوتی رہیں گی؟ کب تک ہمارے بچے یتیم ہوتے رہیں گے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان قوتوں کو بے نقاب کریں جو جنگ کو ضرورت اور دفاع کا نام دے کر اصل حقیقت چھپاتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی قوم کی بقا کسی سرحد کی حفاظت یا کسی عقیدے کی برتری کے نام پر جب انسانیت کا قتلِ عام ہوتا ہے تو اصل میں قاتل وہی ہیں جو دنیا کی معیشت اور سیاست کے مرکز میں بیٹھے ہیں۔
کیا ہم کبھی ایک دوسرے کو جینے کا حق دے سکیں گے؟ ہاں دے سکتے ہیں اگر ہم اپنی نفرتوں کو پہچانیں ان سازشوں کو سمجھیں جو ہمیں آپس میں لڑاتی ہیں، اگر ہم یہ مان لیں کہ مذہب، زبان، رنگ، قومیت انسان کو تقسیم کرنے کے ہتھیار بنائے گئے ہیں، اگر ہم یہ جان لیں کہ ہر جنگ سے پہلے جھوٹ گھڑا جاتا ہے، میڈیا کے ذریعے فضا تیارکی جاتی ہے اور پھر انسانوں کو مارنے کے لیے جائز بہانہ تراشا جاتا ہے۔
دنیا میں جینے کا حق سب کا ہے۔ کسی فلسطینی کا خون کسی یہودی کے خون سے کم قیمتی نہیں۔ کسی ایرانی کا دکھ کسی امریکی ماں کے آنسو سے کم نہیں۔ کسی افغانی بچے کی بھوک کسی یورپی بچے کی بھوک جتنی ہی تکلیف دہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کی تصویر میڈیا پر آتی ہے اور دوسرے کی لاش ملبے تلے دفن ہو جاتی ہے۔
ہمیں وہ دن لانا ہو گا جب جنگ کو ناکامی سمجھا جائے گا فتح نہیں۔ جب امن کو صرف مذاکرات یا معاہدوں سے نہیں بلکہ انصاف سے جوڑا جائے گا۔ ہمیں یہ لڑائی قلم سے لڑنی ہو گی شعور سے علم سے بیداری سے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہو گا کہ جنگیں انسانوں کا مقدر نہیں بلکہ مفادات کی سازش ہیں۔ ہمیں امن کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، چاہے وہ امن فلسطین میں ہو، ایران میں بھارت میں پاکستان میں یا کسی افریقی ملک میں۔
دنیا سکون کا گھر بن سکتی ہے اگر ہم چاہیں۔ اگر ہم وہ دن لانا چاہیں جب بچے اسکول جائیں نہ کہ پناہ گاہوں میں چھپیں جب ماں کی آنکھ میں خواب ہوں آنسو نہیں جب باپ کے کندھے پر بیٹے کی لاش نہ ہو بلکہ اُس کا بستہ ہو۔کیا وہ دن کبھی آئے گا؟ شاید آئے اگر ہم سوال کرنا سیکھ لیں اگر ہم سچ بولنا سیکھ لیں اگر ہم انسان کو انسان سمجھنا سیکھ لیں۔ جب ہماری آواز قلم سب ظلم کے خلاف یکجا ہو جائیں گے۔ تب شاید وہ دن آئے گا اور ہاں وہ دن ضرور آئے گا جب ہم جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں اپنی آخری سانس تک بات کریں گے لکھیں گے۔ اس خواب کو فیض صاحب نے کیا خوب لفظوں میں ڈھالا ہے۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھے گا أنا الحقّ کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ جائیں گے ا ئے گا کے لیے میں ہو کی جنگ اگر ہم بھی ہو
پڑھیں:
کسی سے مذاکرات نہیں ہورہے ،ہمیں سیاست میں ملوث نہ کریں،فوجی ترجمان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ سیاستدان آپس میں بات کریں فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ترجمان پاک فوج نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں، فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے، جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ انٹرویو 18 مئی کو آئی ایس پی آر میں ریکارڈ کیا گیا تھا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد بعض بین الاقوامی میڈیا ٹیموں کو انٹرویوز دیے تھے جن میں بی بی سی بھی شامل تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟جس پر ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں، میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا، ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔ غیر ملکی نشریاتی ادرے کے صحافی نے سوال کیا کہ حال ہی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر بھی سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ کا الزام لگا، ان تمام واقعات کے دوران یہ تاثر بھی موجود رہا کہ انہی سیاسی مداخلت کے الزامات کی وجہ سے فوج کی صفوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کو ردّ کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کے لیے پھیلائی گئی افواہ قرار کرتے ہوئے جواب دیا کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے، لیکن جب معرکہِ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے، یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے،اس لیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں، ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ غیر نشریاتی ادارے کے نمائندے نے سوال کا کہ پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ فوج اپنی اصل ذمے داری یعنی دفاع تک محدود نہیں ہے بلکہ اب وہ دیگر شعبوں جیسے معیشت، ٹیکنالوجی اور انتظامی امور میں بھی اثر انداز ہو رہی ہے، فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سویلین معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور فوج اپنے مینڈیٹ سے ہٹ رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب میں کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے، میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کے لیے نکلتی ہیں، تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے، جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں، تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں، اس ملک میں اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں، ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں، ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے، ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آتے ہیں، یہ جو داخلی سلامتی کے لیے فوج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے، ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے، یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔