Express News:
2025-08-14@01:01:34 GMT

وہ دن کب آئے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

جنگ خونریزی، تباہی، بربادی یہ الفاظ ہمارے شعور میں یوں رچ بس گئے ہیں جیسے روزمرہ کے معمولات۔ کبھی غزہ میں آگ برستی ہے،کبھی یوکرین میں گولیوں کی گونج سنائی دیتی ہے تو کبھی ایران کی فضا میں جنگی طیاروں کی گرج سنائی دیتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں زندگی کی قیمت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے اور موت کا کاروبار دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔

جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ کیا یہ مذہب کی جنگ ہے؟ کیا یہ زمین کے کسی چھوٹے سے ٹکڑے کی جنگ ہے؟ یا پھر یہ صرف چند طاقتور ریاستوں کے معاشی مفادات اسلحہ ساز اداروں کے منافع اور سامراجی طاقتوں کے پھیلاؤ کی ہوس کی علامت ہیں؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے پڑتے ہیں جہاں جنگوں کا آغاز اکثر انھی قوتوں نے کیا جو خود کو مہذب دنیا کا رہنما کہتی ہیں۔

افریقہ سے لے کر ایشیا تک لاطینی امریکا سے مشرقِ وسطیٰ تک جہاں جہاں سامراج گیا وہاں اپنی طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو غلام بنایا، وسائل کی لوٹ مار کی اور پھر جب ان زمینوں کے باسیوں نے آواز اٹھائی تو ان پر دہشت گرد کا لیبل لگا کر ان کی بستیاں تباہ کر دی گئیں۔ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین کا زخم ،عراق کی جنگ ہو یا افغانستان کی ان سب کے پیچھے اگر کچھ ہے تو وہ سامراجی مفادات، سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا تسلط اور اسلحے کا نہ ختم ہونے والا کاروبار ہے۔

ہم کب سکون سے جی سکیں گے؟ یہ سوال شاید کسی فلسطینی ماں کی آہ میں پوشیدہ ہو جو اپنے بچے کی لاش کو سینے سے لگائے سوچتی ہے کہ آخر یہ خون خرابہ کب رکے گا۔ شاید کسی یوکرینی بزرگ کے دل میں ہو جو اپنے اجڑے گھر کے سامنے بیٹھا ماضی کو یاد کر رہا ہو یا پھر شاید یہ سوال کسی ایرانی باپ کی آنکھ میں ہو جو اپنی بیٹی کے جنازے کو کندھا دے رہا ہو۔

ہم اس دنیا میں تب سکون سے جی سکیں گے جب جنگ کو صرف میدانِ جنگ میں ہونے والی لڑائی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سرمایہ دارانہ جرم کے طور پر پہچانا جائے گا۔ جب ہم یہ مان لیں گے کہ کسی بھی انسان کو صرف اس لیے مار دینا کہ وہ کسی اور قوم مذہب یا رنگ سے تعلق رکھتا ہے، ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔

جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ دنیا کے سارے بچے ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کا خون ایک جیسا سرخ ہوتا ہے، ان کی ہنسی ایک جیسی خوشبو رکھتی ہے۔لیکن اس سے پہلے ہمیں سچ کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ آج کی عالمی سیاست اخلاقیات انسانیت یا انصاف پر نہیں بلکہ طاقت کے توازن تیل کی قیمتوں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے شیئرز پر مبنی ہے۔ امریکا ہو یا روس چین ہو یا اسرائیل ہر بڑی طاقت اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے انسانوں کو مہرے بناتی ہے۔

ایک طرف وہ امن کی بات کرتے ہیں دوسری طرف اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچتے ہیں۔اور ہم جو اس دنیا کے عام لوگ ہیں جو ہر روز زندگی کے لیے جدو جہد کرتے ہیں کب تک ان جنگوں کے ایندھن بنتے رہیں گے؟ کب تک ہمارے نوجوان فوجی بھرتیوں میں اپنی جانیں گروی رکھ کر کسی طاقتور کے مفادات کی جنگ لڑیں گے؟ کب تک ہماری عورتیں بیوہ ہوتی رہیں گی؟ کب تک ہمارے بچے یتیم ہوتے رہیں گے؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان قوتوں کو بے نقاب کریں جو جنگ کو ضرورت اور دفاع کا نام دے کر اصل حقیقت چھپاتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی قوم کی بقا کسی سرحد کی حفاظت یا کسی عقیدے کی برتری کے نام پر جب انسانیت کا قتلِ عام ہوتا ہے تو اصل میں قاتل وہی ہیں جو دنیا کی معیشت اور سیاست کے مرکز میں بیٹھے ہیں۔

کیا ہم کبھی ایک دوسرے کو جینے کا حق دے سکیں گے؟ ہاں دے سکتے ہیں اگر ہم اپنی نفرتوں کو پہچانیں ان سازشوں کو سمجھیں جو ہمیں آپس میں لڑاتی ہیں، اگر ہم یہ مان لیں کہ مذہب، زبان، رنگ، قومیت انسان کو تقسیم کرنے کے ہتھیار بنائے گئے ہیں، اگر ہم یہ جان لیں کہ ہر جنگ سے پہلے جھوٹ گھڑا جاتا ہے، میڈیا کے ذریعے فضا تیارکی جاتی ہے اور پھر انسانوں کو مارنے کے لیے جائز بہانہ تراشا جاتا ہے۔

دنیا میں جینے کا حق سب کا ہے۔ کسی فلسطینی کا خون کسی یہودی کے خون سے کم قیمتی نہیں۔ کسی ایرانی کا دکھ کسی امریکی ماں کے آنسو سے کم نہیں۔ کسی افغانی بچے کی بھوک کسی یورپی بچے کی بھوک جتنی ہی تکلیف دہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کی تصویر میڈیا پر آتی ہے اور دوسرے کی لاش ملبے تلے دفن ہو جاتی ہے۔

ہمیں وہ دن لانا ہو گا جب جنگ کو ناکامی سمجھا جائے گا فتح نہیں۔ جب امن کو صرف مذاکرات یا معاہدوں سے نہیں بلکہ انصاف سے جوڑا جائے گا۔ ہمیں یہ لڑائی قلم سے لڑنی ہو گی شعور سے علم سے بیداری سے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہو گا کہ جنگیں انسانوں کا مقدر نہیں بلکہ مفادات کی سازش ہیں۔ ہمیں امن کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، چاہے وہ امن فلسطین میں ہو، ایران میں بھارت میں پاکستان میں یا کسی افریقی ملک میں۔

دنیا سکون کا گھر بن سکتی ہے اگر ہم چاہیں۔ اگر ہم وہ دن لانا چاہیں جب بچے اسکول جائیں نہ کہ پناہ گاہوں میں چھپیں جب ماں کی آنکھ میں خواب ہوں آنسو نہیں جب باپ کے کندھے پر بیٹے کی لاش نہ ہو بلکہ اُس کا بستہ ہو۔کیا وہ دن کبھی آئے گا؟ شاید آئے اگر ہم سوال کرنا سیکھ لیں اگر ہم سچ بولنا سیکھ لیں اگر ہم انسان کو انسان سمجھنا سیکھ لیں۔ جب ہماری آواز قلم سب ظلم کے خلاف یکجا ہو جائیں گے۔ تب شاید وہ دن آئے گا اور ہاں وہ دن ضرور آئے گا جب ہم جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں اپنی آخری سانس تک بات کریں گے لکھیں گے۔ اس خواب کو فیض صاحب نے کیا خوب لفظوں میں ڈھالا ہے۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہلِ حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارضِ خدا کے کعبے سے

سب بت اُٹھوائے جائیں گے

ہم اہلِ صفا مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو ناظر بھی ہے منظر بھی

اٹھے گا أنا الحقّ کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلقِ خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ جائیں گے ا ئے گا کے لیے میں ہو کی جنگ اگر ہم بھی ہو

پڑھیں:

مغل بادشا شاہجہاں نے تاج محل آگرہ میں کیوں تعمیر کرایا؟

مغل بادشاہ شاہجہاں نے جب اپنی اہلیہ بیگم ممتاز محل کے لیے تاج محل تعمیر کرایا تو اس کا مقصد دنیا میں انتہائی خاص اور منفرد ترین مقبرہ بنانا تھا تاکہ مستقبل کی نسلیں تاج محل کی منفرد خوب صورت دیکھ سکیں اور اس کے ساتھ ممتاز محل کے ساتھ محبت کا بھی اندازہ ہو۔

تاج محل ایک منفرد اور شان دار فن کا مظہر ہے اور اس سے لازوال محبت کا نشان تصور کیا جاتا ہے لیکن تاج محل کی تعمیر کے لیے ایک ایسا مقام کا انتخاب کیا گیا جو دریائے جمنا کے کنارے پر تھا جو دہلی سے آگرہ کی طرف بہتا ہے۔

شاہجہاں نے اپنی محبوب اہلیہ کے لیے تاج محل کی تعمیر کا انتخاب آگرہ میں کیوں کیا؟ آئیے اس حوالے سے تاریخ سے دستیاب معلومات جانتے ہیں۔

مغل بادشاہ شاہجہاں کا تعمیر کردہ تاج محل کو دنیا کا ساتواں عجوبہ بھی شمار کیا جاتا ہے اور اس کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد یہاں پہنچتی ہے اور بھارت کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور دنیا بھر کے لاکھوں سیاح اس مقام کی زیارت کرتے ہیں۔

تاج محل کی تعمیر میں تقریباً 20 سال کا طویل عرصہ لگا تھا، اس کی تعمیر 1635 عیسوی میں شروع ہوئی تھی اور 1953 عیسوی میں مکمل ہوئی تھی، اس کی تعمیر میں 20 ہزار سے زائد مزدروں، دست کاروں، آرکیٹکٹس اور ہنرمندوں نے کام کیا تھا اور ان کی بھرپور محنت سے دنیا میں خوب صورت فن کا ایک شاہکار تخلیق ہوا۔

اس کی تعمیر میں بہت زیادہ محنت کارفرما تھی، جس کی بدولت فن کی دنیا کا ماسٹر پیس تیار ہوا۔

تاج محل کی آگرہ میں تعمیر کی وجوہات مختلف ہیں لیکن یہاں ہم صرف تین وجوہات کا ذکر کریں گے جو عموماً تاج محل کی تعمیر کی بنیادی وجوہات کہلاتی ہیں۔

شاہجہاں نے تاج محل کے لیے آگرہ کا انتخاب اس لیے کیا تھا کیونکہ اس وقت مغل بادشاہت کا دارالحکومت دہلی کے بجائے آگرہ تھا اور بادشاہ کے انتظامی امور کے دفاتر اور عدالتیں بھی وہیں قائم تھیں۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ دریائے جمنا کے کنارے یہ جگہ نہایت مناسب تھی ، اس کے ساتھ ساتھ ماربل کی سپلائی اور کہنہ مشق دست کاروں کی دستیابی بھی آگرہ کے انتخاب کی بنیادی وجوہات تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ شاہجہاں کے لیے آگرہ کے انتخاب کی تیسری وجہ دریائے جمنا کی روانی تھی، جس کی وجہ سے تاج محل خوب صورت دکھائی دیتا ہے اور یہ پانی عمارت کو نقصان پہنچانے کا بھی باعث نہیں تھا۔

تاریخ دانوں کے مطابق شاہ جہاں نے تاج محل کو دریائے جمنا کے کنارے تعمیر کرانے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا کیونکہ دریائے جمنا کا موڑ تاج محل کو سیلاب یا ساحلی کٹاؤ سے محفوظ رکھتا ہے۔

مغل بادشاہ شاہجہاں نے آگرہ میں تاج محل کی تعمیر کے بعد اپنا دارالحکومت دہلی منتقل کردیا تھا اور اس کے بعد دہلی آج بھی دارالحکومت ہے اور تاج محل کو دنیا کا ساتواں عجوبہ شمار کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی غیر ملکی طاقت ہمیں غلام نہیں بنا سکتی، بھارتی کسان
  • دنیا بھر کے اہل عقیدت کربلا جا رہے ہیں اور اہل پاکستان
  • جس طرح ہماری فورسز نے بھارت کو دھول چٹائی اس کی مثال نہیں ملتی: شرجیل میمن
  • مغل بادشا شاہجہاں نے تاج محل آگرہ میں کیوں تعمیر کرایا؟
  • عدالتیں ہتھیار کیوں بن گئیں؟ ہمیں وکٹ سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟  پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
  • خونی ڈمپر کراچی میں دہشتگردی پھیلارہے ہیں، ہمیں بدمعاشی نہ بتائیں پہلے خود کو ٹھیک کریں، گورنر سندھ
  • عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں، پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
  • ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ یہ کرسیاں اور عہدے عارضی ہیں، ایازصادق
  • بیجنگ میں دنیا کا پہلا روبوٹ مال کھل گیا
  • دنیا بھر کی جیلوں میں 17 ہزار سے زائد پاکستانی قید، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز میں انکشاف