Express News:
2025-11-12@04:35:31 GMT

مخصوص نشستیں، آئینی بینچ کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تعداد کی بنیاد پر خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ کے ذریعے اپنے 12جولائی 2024کے فیصلے کو کالعد م قراردیتے ہوئے نظر ثانی کی ساری درخواستیں منظور کرلی ہیں، جس کی بناء پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال ہوگیا ہے اور پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے مکمل طور پر محروم ہوگئی ہے، اب یہ نشستیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔

عدالت نے اپنے 4صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آج، بنچ کے ایک رکن جسٹس صلاح الدین پنہور نے بوجہ ،بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، اس کی وجوہات کے حوالے سے وہ ایک علیحدہ نوٹ قلم بند کریں گے،جس پر تمام دستیاب ججوں پر مبنی 10رکنی بنچ دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے، ابتدائی طور پر یہ بنچ 13 ججوں پر مشتمل تھا لیکن جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے نظرثانی کی تمام درخواستوں کو پہلی ہی سماعت پر مسترد کر دیا تھا۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ تفصیلی وجوہات بعد میں قلم بند کی جائیں گی، اپنے مختصر فیصلے کے ذریعے سات اکثریتی ججوں ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی نے نظر ثانی کی تمام درخواستوں کو منظور کرلیا ہے جس کی بناء پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال ہوگیا ہے۔

جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے علیحدہ مختصر فیصلے میںجزوی طور پر41 نشستوں کی حد تک نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کرلیا ہے جب کہ 39 نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے حوالے سے اپنے پہلے والے حکم کو بھی برقراررکھا ہے جب کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے بھی اپنے علیحدہ مختصر حکمنامہ میں قرار دیا ہے کہ چونکہ 80 امیدواروں کی جماعتی وابستگی سے متعلق حقائق کا تعین نہ توہائی کورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ کر سکتی ہے، اس لیے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس مختصر آرڈر کی کاپی موصول ہونے کے 15دنوں کے اندر اندر تمام 80 امیدواروں کے کاغذات اور دیگر متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لے کرمخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے قانون اور دیگر قابل اطلاق قوانین کے ذریعے اپنا فیصلہ جاری کرے۔

قبل ازیں جمعہ کی صبح جسٹس امین الدین خان، سینئر جج کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پہنور، جسٹس عامر فاروق اورجسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل 11رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس صلاح الدین پہنورنے خود کو بینچ سے الگ کر لیا جسکے بعد 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔

مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی جب کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کے سینیٹرز کی تعداد تیسرے نمبر پر آجائے گی، اس عدالتی فیصلے سے تحریک انصاف قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عددی لحاظ سے سکڑ گئی ہے۔ ماہرین کی رائے میں عدالتی فیصلے نے نظرثانی میں غلطی کو ٹھیک کیا ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی ہے کہ وہ سیٹوں کے معاملات پر فیصلہ کرے۔ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اس سارے معاملے میں پی ٹی آئی مخصوص نشستیں مانگنے نہیں آئی تھی۔ اب آئین میں درج طریقہ کار کے تحت مخصوص نشستوں کی تقسیم ہو گی۔

آرٹیکل 51، آرٹیکل 106 اور الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں مختلف جماعتوں کے حصے میں آ جائیں گی۔ یوں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی سے زیادتی نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے پوچھا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے اتحاد میں حصہ لیا ہے؟ سنی اتحاد کونسل نے اپنے انتخابی نشان کے تحت حصہ نہیں لیا جب کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ آئین کے مطابق آزاد اراکین ایسی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنھوں نے نشستیں جیتی ہوں۔ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات بھی متنازعہ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وضع کردہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں الیکشن کمیشن نشستوں کی پی ٹی ا ئی اتحاد کو

پڑھیں:

26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا‘ آزاد عدلیہ کے بغیر انصاف ممکن نہیں‘ لطیف کھوسہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251111-08-21
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پی ٹی آئی رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ آزاد عدلیہ کے بغیر معاشرے میں انصاف ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا۔ وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ فسطائیت نے نظام مکمل طور پر خراب کردیا ہے۔ 26ویں ترمیم میں بھی اسی طرح شب خون مارا گیا تھا۔ کس طرح آدھی رات کو حالات بدلے گئے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے چیف جسٹس عبد الرشید نے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات سے معذرت کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ملاقات کا اثر کیسز کے نتائج پر نہ مرتب ہو۔انہوں نے کہا کہ جس قوم کو انصاف ملتا ہے وہ قوم کبھی شکست نہیں کھاتی۔ 8 فروری 2024ء کو عوام نے مینڈیٹ تحریک انصاف کو دیا اور پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان بلا ہی چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود عوام نے من پسند نمائندوں کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا۔ ہمارے فارم 45 کے تحت 180 اور ن لیگ کو 17 سیٹیں ملی۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ الیکشن کی ہار تسلیم کرتی تو سیاست پر مثبت اثر پڑتا۔ اگر مخصوص نشستوں پر بھی ہمیں ملتی تو ہمیں 230 نشستیں ملتیں،عوام کے ووٹوں پر آج بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہیں۔ لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں ترمیم کرکے من پسند ججز کو نظام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقصد یہ کہ فیصلوں کے نتائج تحریک انصاف کے خلاف آئیں۔قانون کہتا ہے فراڈ کی بنیاد پر کوئی عمارت نہیں ٹھہر سکتی۔ حکومت نے 26ویں ترمیم میں جے یو آئی کو بھی دھوکا دیا تھا۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے زیر اثر آئینی بینچ بنایا گیا۔ ہمیں بتائیں کہ اس آئینی بینچ نے کون سا بڑا فیصلہ سنایا۔ جسٹس منصور علی شاہ ایک جید قسم کے جج ہیں۔ ان کا ایک عالمی مقام ہے۔ 17 ججز کے آئینی بینچ سے فیصلہ ریورس کروایا گیا۔ اس آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ ان مخصوص نشستوں کی بھی ہم نے بندر بانٹ دیکھی۔ ان کو مخصوص نشستیں دے دی گئیں، جن کا حق ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو جید ججز ہیں، ان کو بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ من پسند فیصلے کروانے کے لیے اب پیراشوٹر ججز کی تعیناتی کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف عدالتوں کے بعد اب اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی قبضے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ آئینی بینچ کے بننے کے بعد ایک بھی فیصلہ عوامی مفاد کے حق میں نہیں آیا۔ آئینی بینچ کے زیادہ فیصلوں میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو ریورس کرتے دیکھا گیا ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری پارٹی سرے سے ختم کردی اور حکومت کے لیے گراونڈ کو کلیئر کیا۔ ان فیصلوں کے بعد حکومت کے لیے بھی آسانی ہوگئی کہ جس رہنما کو چاہیں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل
  • 26 ویں ترمیم میں بھی شب خون مارا گیا تھا‘ آزاد عدلیہ کے بغیر انصاف ممکن نہیں‘ لطیف کھوسہ
  • ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے تو قانون اپنا راستہ بنائے، چیف جسٹس
  • وفاقی دارالحکومت کے بلدیاتی الیکشن جلد کروانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • اسلام آباد میں جلد بلدیاتی الیکشن کرانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • حیرت ہے جنہوں نے الیکشن کا فیصلہ دیا، پھر ڈویژن بینچ میں بیٹھ کر معطل کر دیا، جسٹس محسن
  • ستائیسویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • اپوزیشن اتحاد نے 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کردی
  • امریکی جج کا بڑا فیصلہ: ٹرمپ کا نیشنل گارڈ کو پورٹ لینڈ بھیجنے کا حکم غیر قانونی قرار