Express News:
2025-06-29@02:10:57 GMT

مخصوص نشستیں، آئینی بینچ کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تعداد کی بنیاد پر خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ کے ذریعے اپنے 12جولائی 2024کے فیصلے کو کالعد م قراردیتے ہوئے نظر ثانی کی ساری درخواستیں منظور کرلی ہیں، جس کی بناء پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال ہوگیا ہے اور پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے مکمل طور پر محروم ہوگئی ہے، اب یہ نشستیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔

عدالت نے اپنے 4صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آج، بنچ کے ایک رکن جسٹس صلاح الدین پنہور نے بوجہ ،بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، اس کی وجوہات کے حوالے سے وہ ایک علیحدہ نوٹ قلم بند کریں گے،جس پر تمام دستیاب ججوں پر مبنی 10رکنی بنچ دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے، ابتدائی طور پر یہ بنچ 13 ججوں پر مشتمل تھا لیکن جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے نظرثانی کی تمام درخواستوں کو پہلی ہی سماعت پر مسترد کر دیا تھا۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ تفصیلی وجوہات بعد میں قلم بند کی جائیں گی، اپنے مختصر فیصلے کے ذریعے سات اکثریتی ججوں ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی نے نظر ثانی کی تمام درخواستوں کو منظور کرلیا ہے جس کی بناء پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال ہوگیا ہے۔

جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے علیحدہ مختصر فیصلے میںجزوی طور پر41 نشستوں کی حد تک نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کرلیا ہے جب کہ 39 نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے حوالے سے اپنے پہلے والے حکم کو بھی برقراررکھا ہے جب کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے بھی اپنے علیحدہ مختصر حکمنامہ میں قرار دیا ہے کہ چونکہ 80 امیدواروں کی جماعتی وابستگی سے متعلق حقائق کا تعین نہ توہائی کورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ کر سکتی ہے، اس لیے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس مختصر آرڈر کی کاپی موصول ہونے کے 15دنوں کے اندر اندر تمام 80 امیدواروں کے کاغذات اور دیگر متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لے کرمخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے قانون اور دیگر قابل اطلاق قوانین کے ذریعے اپنا فیصلہ جاری کرے۔

قبل ازیں جمعہ کی صبح جسٹس امین الدین خان، سینئر جج کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پہنور، جسٹس عامر فاروق اورجسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل 11رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس صلاح الدین پہنورنے خود کو بینچ سے الگ کر لیا جسکے بعد 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔

مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی جب کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کے سینیٹرز کی تعداد تیسرے نمبر پر آجائے گی، اس عدالتی فیصلے سے تحریک انصاف قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عددی لحاظ سے سکڑ گئی ہے۔ ماہرین کی رائے میں عدالتی فیصلے نے نظرثانی میں غلطی کو ٹھیک کیا ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی ہے کہ وہ سیٹوں کے معاملات پر فیصلہ کرے۔ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اس سارے معاملے میں پی ٹی آئی مخصوص نشستیں مانگنے نہیں آئی تھی۔ اب آئین میں درج طریقہ کار کے تحت مخصوص نشستوں کی تقسیم ہو گی۔

آرٹیکل 51، آرٹیکل 106 اور الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں مختلف جماعتوں کے حصے میں آ جائیں گی۔ یوں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی سے زیادتی نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے پوچھا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے اتحاد میں حصہ لیا ہے؟ سنی اتحاد کونسل نے اپنے انتخابی نشان کے تحت حصہ نہیں لیا جب کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ آئین کے مطابق آزاد اراکین ایسی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنھوں نے نشستیں جیتی ہوں۔ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات بھی متنازعہ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وضع کردہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں الیکشن کمیشن نشستوں کی پی ٹی ا ئی اتحاد کو

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواستیں منظور، تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم



اسلام آباد:

 

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور حکومتی اتحاد کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 نشستیں مل گئیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعتیں مکمل کرلیں۔ آج کی سماعت آئینی بینچ کے گیارہ کے بجائے دس رکنی بنچ نے کی جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہوئے۔

بینچ نے آج کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور وقفے کے بعد چار صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

فیصلہ سات ججز نے اکثریت کے ساتھ سنایا جس میں سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ ،جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔

بینچ نے نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

12 جولائی کے فیصلے کے خلاف جتنی درخواستیں دائر ہوئی تھیں عدالت نے وہ ساری منظور کرلیں۔ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی تمام مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی، قومی اسمبلی کی 22 نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی 55 نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔

قومی اسمبلی میں اضافی نشستیں ملنے سے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224اراکین کی ضرورت ہے مگر اب حکمران اتحاد کو 237 اراکین کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنے رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظرثانی درخواستیں منظور کیں۔

الیکشن کمیشن ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں، بینچ

جسٹس حسن اظہر رضوی  اور جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ نشستوں کی حد تک معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں، الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ سے علیحدگی اختیار کی، ابتدا میں 13رکنی آئینی بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

سماعت کرنے والا گیارہ رکنی بینچ ٹوٹ گیا

قبل ازیں عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخصوص نشستیں کیس کے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیس کی آج ہونے والی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جاری تھی، تاہم سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ آپ سے میرا 2010 کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلا نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا، لہٰذا ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بینچ سے الگ ہو رہا ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔

عدالت میں موجود ایڈووکیٹ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ  آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے 2 وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں،تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔

دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔

سماعت کے لیے دس رکن بینچ تشکیل

 

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواستیں منظور، تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم
  • پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، آئینی بنچ کا فیصلہ: حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل
  • (سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواستیں منظور)تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم
  • سپریم کورٹ فیصلے کے بعد حکمران اتحاد کی چاندی ہو گئی
  • آئین کی بالادستی اور قانون کی درست تشریح ہوئی، وزیراعظم کافیصلے پرردعمل
  • مخصوص نشستیں: آئینی بینچ کے فیصلے پر پی ٹی آئی کا ردعمل سامنے آگیا
  • تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
  • مخصوص نشستوں پر نظرثانی سے متعلق کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
  • مخصوص نشستیں سے ملیں گی؟ آئینی بینچ مختصر فیصلہ کچھ دیر میں سنائے گا