یمن میں ملیشیاؤں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اتحاد کے قیام کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) یمن کی صدارتی کونسل کے چیئرمین رشاد محمد العلیمی نے اپنے ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے، قومی ریاست کی تعمیر نو، خطے اور دنیا کو بڑھتے ہوئے سرحد پار خطرے سے محفوظ بنانے اور ملیشیاؤں کا باب بند کرنے کے لیے ایک موثر بین الاقوامی اتحاد کے قیام کی اپیل کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے عام مباحثے سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا ہے کہ یمن کو ایرانی حکومت کے توسیع پسندانہ منصوبے اور اس کی ملیشیاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو بھوک کو بطور ہتھیار، مذہب کو بطور آلہ اور سمندری راستوں کو دباؤ کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
اس طرح یمن دنیا کے ان علاقوں میں شمار ہونے لگا ہے جو سرحد پار دہشت گردی کرنے والوں کے گڑھ ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ یمن کو محض داخلی بحران کا سامنا نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی نظام کی ساکھ کا امتحان بن چکا ہے۔ بہت سے فریقین کی جانب سے اس بحران کے اصل پہلو کو نظر انداز کرنے سے حوثی ملیشیاؤں کو علاقائی اور عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے، توانائی کے ذرائع اور جہاز رانی کے راستوں کو نشانہ بنانے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے عملے کو اغوا کرنے اور ان پر ظلم کرنے کی جرات ملی ہے۔
امن کے 'نفاذ' کا مطالبہیمنی صدر نے کہا کہ گزشتہ برسوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تنازع کو محض سنبھالنے کی پالیسی صرف مزید تباہی اور مصیبتیں ہی لائی ہے اور اس سے حوثی ملیشیا کو اپنے ہتھیاروں کے ذخائر کو وسعت دینے کا وقت اور وسائل فراہم ہوئے ہیں۔
جب اقوام متحدہ اپنے اغوا شدہ ملازمین کو صنعا میں تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے یا تیل کی تنصیبات اور بحری جہازوں کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا تو یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مطلوبہ امن مانگا نہیں جا سکتا بلکہ طاقت کے ذریعے نافذ کیا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یمنی حکومت ہمیشہ ایک جامع امن کے لیے ہاتھ بڑھانے کو تیار ہے، بشرطیکہ یہ یمنی عوام کے مفاد میں ہو۔ تاہم، جب قیام امن کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں تو اب ضروری ہے کہ اجتماعی اور فیصلہ کن اقدام کے ذریعے امن نافذ کیا جائے۔
دو ریاستی حل کی حمایتانہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو اپنے ارکان پر یہ ثابت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ بین الاقوامی قانون محض فسانہ نہیں اور اس بات پر زور دیا کہ یمن اور غزہ ایسے بحران ہیں جن پر کامیابی سے قابو پا کر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ حق کی قوت اب بھی طاقت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یمنی صدر نے فلسطینی اتھارٹی اور دو ریاستی حل کے لیے اپنے ملک کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا اور دیگر ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست فلسطین کو تسلیم کریں اور اس کے عوام کے حقوق اور وقار کی حمایت کریں۔ انہوں نے اس بات کو بھی دہرایا کہ یمن بدمعاش ملیشیاؤں کے ہاتھوں اس جائز مقصد کے استحصال کو مسترد کرتا ہے جو فلسطین کے لیے صرف تنہائی اور تباہی ہی لائی ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی انہوں نے کہا نے کہا کہ کہ یمن اور اس کے لیے
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت میں ’چور دروازہ‘ بند کرنے کے لیے یو این متحرک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) مصنوعی ذہانت کے آلات کی تیز رفتار ترقی کے باوجود اس طاقتور ٹیکنالوجی کے موثر اور بین الاقوامی سطح پر متفقہ اصول و ضوابط تاحال وضع نہیں ہو سکے۔ 25 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں رکن ممالک اسی مسئلے کو حل کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کا موثر انتظام یقینی بنانے کے لیے بات چیت کریں گے۔
سرمایہ کاری، امید اور تشویش تین ایسے عوامل ہیں جن کے سبب مصنوعی ذہانت اور اس کے اثرات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
چونکہ اس ٹیکنالوجی سے لاحق مسائل اور مواقع عالمگیر ہیں اس لیے متعلقہ اقدامات کو بھی منتشر اور محدود ہونے کے بجائے جامع ہونا چاہیے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 118 ممالک مصنوعی ذہانت کے انتظام سے متعلق حالیہ برسوں میں شروع کردہ کسی بھی اقدام کا حصہ نہیں تھے جبکہ ایسے تمام اقدامات میں صرف سات ممالک شامل تھے جن کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔(جاری ہے)
یہ اجلاس پہلا موقع ہوگا جب اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو مصنوعی ذہانت کے بین الاقوامی انتظام کی تشکیل میں اپنی رائے دینے کا موقع ملے گا۔ اس میں دنیا بھر سے سفارت کاروں کے علاوہ سائنسدان، ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماہرین، نجی شعبے کے نمائندے اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شریک ہوں گے۔
اجلاس میں دو نئے اور اہم عالمی اداروں کے کام پر بات چیت کی جائے گی جنہیں بین الاقوامی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کے جامع اور مشمولہ انتظام، اس طاقتور ٹیکنالوجی سے جڑے مسائل کے حل اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے فوائد تمام انسانوں تک پہنچ سکیں۔
ان اداروں میں 'مصنوعی ذہانت کے انتظام پر عالمگیر مکالمہ' اور 'مصنوعی ذہانت پر غیرجانبدار بین الاقوامی سائنسی پینل' شامل ہیں۔یہ دونوں ادارے ان سفارشات کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں جو ماہرین اور قانون سازوں پر مشتمل 'اعلیٰ سطحی مشاورتی ادارہ برائے مصنوعی ذہانت' نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی رپورٹ بعنوان 'انسانیت کی خاطر مصنوعی ذہانت کا انتظام' میں پیش کی تھیں۔
ان اداروں کا باضابطہ قیام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے اگست 2025 میں عمل میں آیا جسے تمام رکن ممالک نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مصنوعی ذہانت کے فوائد سمیٹنے اور اس کے خطرات سے نمٹنے کے لیے عالمی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
آزادانہ اور سائنسی بنیاد پر پالیسی سازی25 ستمبر کو ہونے والے اجلاس کا مقصد اس معاملے میں بہترین طریقہ ہائے کار اور تجربات کا تبادلہ کرنا اور مصنوعی ذہانت کے انتظام پر بین الاقوامی تعامل کو فروغ دینا ہے۔ یہ بات چیت حکومتوں، صنعت، سول سوسائٹی اور سائنسدانوں کے لیے اصولوں کی بنیاد پر تجربات اور خیالات کے تبادلے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینے کا پلیٹ فارم ہو گی۔
اقوام متحدہ کے تعاون سے بین الاقوامی سائنسی پینل مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرات، مواقع اور اثرات کے بارے مں غیر جانبدارانہ اور شواہد پر مبنی رہنمائی فراہم کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ متعلقہ پالیسی سازی آزاد اور سائنسی بنیاد پر ہو۔ یہ پینل ہر سال ایک رپورٹ تیار کرے گا جو اس موضوع پر سالانہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
ڈیجیٹل اور نئی ٹیکنالوجی پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے امندیپ سنگھ گل نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں عالمی طریقہ کار صرف نئے ادارے ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے انتظام سے متعلق ایک نئے ڈھانچے کی بنیاد ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں لیکن اس کے انتظام پر سبھی کا اختیار نہیں ہے۔ عالمگیر مکالمے کے ذریعے پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو مصنوعی ذہانت کے انتظام پر بین الاقوامی تعاون کی تشکیل میں برابر کی شراکت ملے گی۔
سائنسی پینل دنیا بھر سے ممتاز سائنسدانوں کو اکٹھا کرے گا تاکہ مصنوعی ذہانت سے متعلق خطرات، مواقع اور اثرات کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کیا جا سکے۔
یہ پینل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق پالیسی غیر جانبدارانہ اور سائنسی شواہد پر مبنی ہو۔اس اجلاس میں جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی صدر اینالینا بیئربوک، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش، سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز اور کوسٹاریکا کے وزیر خارجہ آرنولڈو آندرے بھی خطاب کریں گے۔
ان تقاریر کے بعد رکن ممالک اور مبصرین، اقوام متحدہ کے نظام سے وابستہ ادارے اور دیگر متعلقہ فریقین اپنی بات کریں گے۔ اس موقع پر سوسائٹی اور دیگر اداروں کے نمائندوں کے بیانات بھی لیے جائیں گے تاکہ مختلف نقطہ ہائے نظر کو یکساں طور پر سنا جا سکے۔