اسرائیل و امریکہ جنگ بندی پر عمل کےحوالے سے قابل بھروسہ نہیں ہیں ،ایران
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
ایران نے اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں گہرے شکوک کا اظہار کیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دنوں پر مشتمل جنگ 23 جون کو جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی۔
یہ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک سب سے خوفناک جنگ تھی جس کا آغاز 13 جون سے اسرائیل نے ایران پر بمباری سے کیا اور ایران کے سنینیئر فوجی حکام بشمول آرمی چیف اور پاسداران انقلاب کور کے سربراہ کو ان حملوں میں ہلاک کر دیا۔
اسرائیل کا دعویٰ یہ تھا کہ اس کے یہ حملے ایرانی جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام اسرائیلی سلامتی کےلیے براہ راست خطرہ ہے۔
دوسری طرف ایران جوہری ہتھیار بنانے کے الزامات سے مسلسل انکاری ہے۔ تاہم اس کا اصرار ہے کہ پر امن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا حصول اس کا حق ہے اور اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل کے اس حملے کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات کا طے شدہ چھٹا دور منسوخ ہو گیا اور مذاکراتی عمل روک دیا گیا۔
ایران کے مسلح افواج کے چیف آف سٹاف عبدالرحیم موسی نے کہا ہے ہم نے جنگ شروع نہیں کی تھی لیکن ہم نے اسرائیلی جارحیت کا پوری طرح جواب دیا اور پوری طاقت سے جواب دیا۔
ان کا یہ بیان ایران کے سرکاری ٹی وی نے اسرائیل کے حوالے سے نشر کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں جنگ بندی معاہدے پر عمل کے حوالے سے امریکہ و اسرائیل دونوں پر شکوک ہیں۔ تاہم اگر انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو ہماری افواج جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
ایرنی آرمی چیف نے یہ بات امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے کرائی گئی جنگ بندی کے چھٹے روز کہی ہے
یاد رہے امریکہ اس جنگ میں براہ راست 21 جون کو کودا تھا اور یہ حملہ جنگ کے زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز ہوجانے کا موقع بنا۔
امریکہ نے اپنی بدترین بمباری کو ایران کی تین اہم ترین جوہری تنصیبات تک محدود رکھا اور تنصیبات اور جوہری مواد کی تباہی کے لیے بنکر بسٹر بم استعمال کیے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ بنکر بسٹر بم چلانے کی صلاحیت صرف امریکہ کے پاس ہے۔
بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے جوہری ادارے ‘آئی اے ای اے کے مطابق ایران نے 2021 میں 60 فیصد یورینیم افزودہ کر لی تھی جو اس سے پہلے کی یورینیم افزودگی کی سطح سے بہت زیادہ بلند ہے۔
اسرائیل نے خود غیر علانیہ طور پر جوہری ہتھیار حاصل کر رکھے ہیں۔ جن کی وہ کبھی تردید کرتا ہے نہ تصدیق۔
البتہ سٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی ادارے ‘پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ‘ کا کہنا ہے اسرائیل کے پاس 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
اسرائیل نے 12 روزہ جنگ کے دوران کئی اہم جوہری سائنسدانوں سمیت کل 627 ایرانیوں کو ہلاک اور 4900 کو زخمی کیا ہے۔ جبکہ ایران جواباً اسرائیل کے صرف 28 لوگوں کو ہلاک کر سکا ہے۔
اگرچہ اب آہستہ آہستہ اسرائیل میں تباہی کو چھپانے کے لیے لگائے گئے سینسرشپ اثرات کم ہونے پر چیزیں سامنے آنا شروع پوگئی ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل میں غیر معمولی طور پر تباہی ہوئی ہے۔
12 روزہ جنگ کے فوری بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو اسرائیل میں اندرونی طور پر کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عدالتوں میں ان کے خلاف کرپشن سے متعلق مقدمات کا چلنا بھی ان کی قومی و عسکری خدمات اور قوم کے لیے قربانیوں سے متصادم ہے۔
اسرائیلی عدالت نے ان کی اس درخواست کو مسترد کیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ فی الحال نہ چلایا جائے۔
فرانس کے وزیر خارجہ جین نوئل بیروٹ نے اس امر کو ناقابل قبول کہا کہ ایران کی ایون جیل میں زیرحراست فرانسیسی شہریوں سیسیل کولہر اور جیک پیرس کو اسرائیلی حملوں میں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ منگل کے روز ایرانی جیل اتھارٹی نے قیدیوں کی تعداد اور شناخت بتائے بغیر انہیں ایون جیل سے کہیں اور منتقل کر دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیل کے ایران کے کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
اگر عدالت ہوتی تو ایران پر نہیں بلکہ اسرائیلی ڈیمونا پر بمباری ہوتی، ترکی الفیصل
سابق سربراہ سعودی انٹیلیجنس نے امریکی پالیسیوں پر بیمثال تنقید کرتے ہوئے کہا ہے اگر حقیقت میں عدالت و انصاف سے کام لیا جاتا تو امریکی بم ایران کے بجائے اسرائیل کی جوہری تنصیبات پر گرتے! اسلام ٹائمز۔ سابق سربراہ سعودی انٹیلیجنس، شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک منصفانہ دنیا میں زندگی گزار رہے ہوتے تو امریکی B-2 بمبار طیاروں کو ایران کے بجائے ڈیمونا کی جوہری تنصیبات اور اسرائیل کے دیگر مقامات پر بمباری کرنی چاہیئے تھی کیونکہ یہ اسرائیل ہی ہے کہ جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں ایران نہیں! نیشنل امارات کے ای مجلے پر شائع ہونے والے اپنے مقالے میں سعودی شہزادے نے کہا کہ بالآخر، یہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے دسیوں جوہری بم بنا رکھے ہیں، مزید برآں یہ کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں بھی کبھی شامل ہوا ہے اور نہ یی اس نے کبھی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے دائرہ اختیار کو قبول کیا ہے، نیز کسی نے تاحال اس کی خفیہ جوہری تنصیبات کا معائنہ تک نہیں کیا!
اپنے مقالے میں ترکی الفیصل نے لکھا کہ جو لوگ اسرائیل کی تباہی کے بارے ایرانی حکام کے بیانات کا حوالہ دے کر ایران پر اسرائیل کے یکطرفہ حملے کا جواز پیش کرتے ہیں، وہ 1996 میں وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد سے ''ایرانی حکومت کے خاتمے'' کے بارے بنجمن نیتن یاہو کے بیانات کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں! سابق سعودی انٹیلیجنس چیف نے مزید کہا کہ ایرانی خطرات نے اس (اسرائیل) کے لئے تباہ کن نتائج برآمد کئے جبکہ مغربی ممالک سے یہی توقع تھی کہ وہ ایران پر اسرائیلی حملے کی منافقانہ حمایت کا مظاہرہ کرتے رہیں گے جس طرح سے کہ وہ اب بھی فلسطین پر اسرائیلی حملے کی حمایت کرتے آ رہے ہیں تاہم کچھ ممالک نے حال ہی میں اس موقف سے بظاہر دستبرداری بھی اختیار کر لی ہے۔