data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی… پاکستان کا وہ شہر جسے ملک کی معیشت کی شہ رگ، مالیاتی مرکز اور صنعتی دل کہا جاتا ہے، آج بدترین زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ شہر جو ملک کی کل آبادی کا دس فی صد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، 54 فی صد قومی ٹیکس دیتا ہے، 70 فی صد برآمدات کا مرکز ہے، وفاق کو انکم ٹیکس کی مد میں 42 فی صد اور سندھ حکومت کو 96 فی صد سے زائد آمدنی مہیا کرتا ہے، اس کا حال یہ ہے کہ شہر کی گلیاں کھنڈرات، سڑکیں گڑھوں، نظام بدعنوانی، اور شہری سہولتیں ایک طویل خواب بن چکی ہیں۔ کسی بھی حکومت کی نیت یا پالیسی میں کراچی کی ترقی نظر نہیں آتی۔ جو بجٹ پیش کیے جاتے ہیں، وہ محض لفظوں کا ہیر پھیر اور اعداد و شمار کی جگالی ہوتے ہیں۔ منعم ظفر خان کی زیرِ قیادت جماعت اسلامی نے حالیہ پریس کانفرنس میں جو حقائق رکھے، وہ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ شہر قائد کے باسیوں کے درد کی زبان ہے۔ 2025-26 کے بجٹ میں وفاق اور سندھ نے کراچی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، وہ اسی استحصال کی ایک تازہ کڑی ہے۔ سندھ حکومت کے 3451 ارب روپے کے بجٹ میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لیے صرف 37 ارب 44 کروڑ روپے رکھنا اس امر کا اعلان ہے کہ شہر کی اصل حیثیت اور اس کے مسائل سے جان بوجھ کر نظریں چرائی جا رہی ہیں۔ کے ایم سی کا موجودہ بجٹ 55 ارب روپے ہے، جو بیس سال قبل 2005 میں 43 ارب روپے تھا، جب ڈالر محض 56 روپے کا تھا، جبکہ آج 280 روپے سے زائد ہے۔ کیا یہ ترقی ہے یا زوال؟ منعم ظفر خان کا یہ مطالبہ کہ کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے مختص کیے جائیں، ہر اعتبار سے جائز اور حقیقت پسندانہ ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ میگا سٹی کے تقاضے محض بلدیاتی کاغذی کارروائیوں اور سیاسی بندر بانٹ سے پورے نہیں ہوتے۔ 9 ٹاؤنز میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کی کارکردگی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اگر نیت صاف ہو اور وژن موجود ہو تو مختصر وسائل سے بھی عوامی خدمت کی جا سکتی ہے۔ ان ٹاؤنز نے تعلیم، صحت، انفرا اسٹرکچر، اور ماحولیات جیسے شعبوں میں جو بجٹ ترتیب دیا، وہ قابل تقلید مثال ہے۔ شہر کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اب کراچی کی پہچان بلند عمارتیں نہیں بلکہ کچی آبادیاں، تجاوزات، پانی کی قلت، ٹریفک جام، گندگی، غیر معیاری رہائشی اسکیمیں، اور ماحولیاتی تباہی بن چکی ہے۔ اسکیم 33 جیسے علاقے مافیاز کے کنٹرول میں ہیں، شہر کے درخت کاٹے جا رہے ہیں، کنکریٹ کے جنگل پھیل رہے ہیں، اور شہری سانس لینے کے لیے صاف ہوا تک کو ترس رہے ہیں۔ تعلیم کا عالم یہ ہے کہ سندھ کے 44 فی صد بچے پرائمری کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ لاکھوں اسکولوں میں چار دیواری، پانی یا بجلی جیسی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جو بجٹ رکھا جاتا ہے، وہ بھی استعمال نہیں ہو پاتا۔ وفاق اور صوبے کی مسلسل بے حسی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انہیں کراچی کے عوام کی مشکلات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مسلم لیگ ن کبھی کراچی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کر سکی اور پیپلز پارٹی و ایم کیو ایم نے شہر کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اسے بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کے دور کی کارکردگی اور موجودہ منتخب جماعت اسلامی کے افراد کا کام اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت درست ہو تو کراچی کو دوبارہ سنوارا جا سکتا ہے۔ منعم ظفر خان نے حق بجانب ہو کر یہ بات کہی کہ کراچی کے لیے نہ وفاق کے پاس وژن ہے اور نہ صوبے کے پاس اخلاص۔ وفاق کی طرف سے کے فور کے منصوبے کے لیے محض 3.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کراچی کے ارب روپے کے لیے
پڑھیں:
حکمران ٹرمپ کی چاپلوسی اور خوشامد میں مصروف ہیں،حافظ نعیم
عوام حکمرانوں سے سوال کریں وہ اسرائیل امریکاکی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ امیر جماعت اسلامی
ہم دوریاستی حل کی تجویز کومسترد کرتے ہیں، صمود فلوٹیلا کے گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے، خطاب
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے نائب وزیراعظم اسحق ڈار کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کو پاکستان کی ریاستی پالیسی قرار دیے جانے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ حکمران بتائیں یہ پالیسی کس فورم پر یا پارلیمنٹ میں طے کی گئی ہے۔ حکمران ٹرمپ کی چاپلوسی اور خوشامد میں مصروف ہیں، دوریاستی حل کی تجاویز اسی ضمن میں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے پاکستان اور اس کے عوام صرف اور صرف ریاست فلسطین کے قیام کے حامی ہیں۔فلسطین پر قابض اسرائیل کو تسلیم کرنے بارے کوئی حکمران نہ سوچے اور نہ ہی قوم ایسا اقدام کرنے کی اجازت دے گی۔ جمعہ کو مانسہرہ میں الخدمت کی بنو قابل تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ فرسودہ نظام کو بدلنے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔پاکستان سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں، نوجوان فرسوہ نظام اور وسائل پر قابض مٹھی بھر حکمران اشرافیہ کے خلاف پرامن مزاحمت کریں۔الخدمت فاؤنڈیشن کے زیراہتمام بنوقابل انٹری ٹیسٹ میں بچوں اور بچیوں کی بڑی تعداد نے مفت آئی ٹی کورسز میں داخلہ کے لیے امتحان دیا۔ امیر جماعت اسلامی نے پروگرام کے دائرہ کار کو ملک بھر میں توسیع دینے، دس لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی تربیت فراہم کرنے اور مختصر کورسز کے علاوہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے اعلانات کیے۔ حافظ نعیم نے کامیاب ٹیسٹ کے انعقاد پر جماعت اسلامی کی مقامی ٹیم اور الخدمت کی تحسین کی اورمبارکباد دی۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آج جماعت اسلامی کی اپیل پر ملک بھر میں اسرائیل کے خلاف احتجاج ہورہا ہے،ٹرمپ کا نام نہاد غزہ امن معاہدہ دہشت گرد اسرائیل کی سرپرستی اور حماس کے خاتمے کا منصوبہ ہے، صہیونی قابض ریاست امریکی سرپرستی میں غزہ میں بچوں کا قتل عام کررہی ہے، اس نے صمود فلوٹیلا پر حملہ کیا اور امدادی کارکنوں کو یرغمال بنایا، گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکمران ٹرمپ کی چاپلوسی اور خوشامد میں مصروف ہیں، دوریاستی حل کی تجاویز اسی ضمن میں دی جارہی ہیں۔جماعت اسلامی، پاکستان کے عوام حکومت کی تجاویز کو مسترد کرتے ہیں، حکمران جان لیں وہ امریکہ کے غلام ہوسکتے ہیں، غیور پاکستانی نہیں۔ قوم حماس اور اہل فلسطین کے ساتھ ہے۔ ملک میں اس وقت صرف جماعت اسلامی امریکہ کے خلاف مزاحمت کررہی ہے، عوام حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کے راہنماؤں سے سوال کریں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ تعلیم ہر شہری کا حق اور ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ عوام کو تعلیم و صحت کے ساتھ تمام دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائیں، یہ خیرات نہیں، قوم کا حق ہے اور لوگ اس کے لیے ٹیکس دیتے ہیں۔ملک میں یکساں نظام تعلیم چاہتے ہیں، آئی ٹی برآمدات میں اضافہ ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی اپنے تئیں عوام کی خدمت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، بنو قابل خدمت کے سفر کا ایک جز ہے۔