عوام کو بڑا ریلیف ملنے کا امکان، وفاقی حکومت کا ملک بھر میں یکساں بجلی ٹیرف نفاذ کیلئے نیپرا سے باضابطہ رجوع
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
وفاقی حکومت نے بشمول کراچی ملک بھر میں یکساں بجلی ٹیرف نافذ کرنے کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے باضابطہ طور پر رجوع کر لیا ہے۔ مجوزہ نیا ٹیرف یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوگا، جس میں مالی سال 2025-26 کے لیے مختص سبسڈی بھی شامل کی گئی ہے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق، وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے پاور سیکٹر کی سبسڈی 13 فیصد کمی کے بعد 1.
پاور ڈویژن کی طرف سے جمع کرائی گئی درخواست میں نیپرا کی 23 جون 2025 کو جاری کردہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے ٹیرف کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس نئے تعین کے مطابق، قومی اوسط ٹیرف کو کم کر کے 34 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال 35.50 روپے فی یونٹ تھا۔
درخواست میں قومی بجلی پالیسی 2021 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاور سیکٹر کی مالی پائیداری کا انحصار مؤثر ٹیرف اسٹرکچر کے ذریعے سروس کی مکمل لاگت کی وصولی پر ہے، جبکہ مخصوص صارفین (لائف لائن، صنعتی و زرعی) کے لیے ہدفی سبسڈی جاری رکھی جا سکتی ہے۔
پاور ڈویژن نے وضاحت کی کہ سماجی و اقتصادی اہداف، بجٹ کی حدود اور نیپرا کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت تمام صارفین اور علاقوں کے لیے یکساں ٹیرف اسٹرکچر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے نیپرا سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ تمام سرکاری ڈسکوز کے لیے یکساں ٹیرف (بشمول سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس) جاری کرے۔
نیپرا ایکٹ کی شِق 31(4) کے تحت نیپرا کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سرکاری لائسنس یافتہ کمپنیوں کے لیے یکساں ٹیرف کا تعین کرے، اور ماضی میں بھی اسی شق کے تحت ہدفی سبسڈی اور کراس سبسڈی شامل کی جاتی رہی ہے۔ نیپرا نے آخری مرتبہ 13 جولائی 2024 کو یکساں ٹیرف کا تعین کیا تھا۔
پاور ڈویژن کے مطابق یہ نیا مجوزہ ٹیرف وفاقی حکومت کی ملکیتی ڈسکوز کے کنسولیڈیٹڈ مالیاتی تقاضوں پر مبنی ہے، جس کی منظوری کے لیے یہ معاملہ 28 جون 2025 کو کابینہ کو پیش کیا گیا، اور اس منظوری کی روشنی میں یہ تجویز نیپرا کو بھیجی گئی ہے۔
حکام نے واضح کیا کہ ٹیرف میں یہ تبدیلی اضافی آمدن کا ذریعہ نہیں بلکہ آئینی و پالیسی تقاضوں کے مطابق مالی توازن کے لیے کی گئی ہے۔ اس منظوری کے بعد نیپرا شِق 31(7) کے تحت حتمی یکساں ٹیرف کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا، جو 14 جولائی 2024 سے نافذ موجودہ ٹیرف کی جگہ لے گا۔
مزید یہ کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ کراچی الیکٹرک (کے-الیکٹرک) کے صارفین کے لیے بھی یکساں صارف ٹیرف برقرار رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت براہِ راست اور بالواسطہ سبسڈی فراہم کرے گی، اور کے-الیکٹرک کے متغیر چارجز کو بھی نیپرا کے تعین کردہ مالی تقاضوں کے مطابق ترمیم کر کے یکساں ساخت میں شامل کیا جائے گا۔
نیپرا کو جمع کرائی گئی ایک علیحدہ درخواست کے ذریعے کے-الیکٹرک کے لیے ترمیم شدہ متغیر چارجز اور یکساں ٹیرف اسٹرکچر کی توثیق بھی طلب کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ نیپرا نے اس مجوزہ ٹیرف پر عوامی سماعت کے لیے یکم جولائی 2025 کی تاریخ مقرر کی ہے، جس میں تمام علاقائی اور صارفین کی سطح پر ٹیرف میں یکسانیت لانے کے حکومتی فیصلے پر مہر ثبت کی جائے گی۔
Post Views: 4ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وفاقی حکومت یکساں ٹیرف کی گئی ہے کے مطابق ٹیرف کا کے لیے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کابینہ میں ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ ختم کرنے کی منظوری ، کیا اب آپریشنز ختم ہوں گے؟
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ ریگولیشنز کو ختم کرنے اور صوبائی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لینے کی منظوری دی ہے۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت شفیع اللہ جان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس قانون پر شدید تحفظات تھے اور کابینہ اجلاس میں اس کے خاتمے کی منظوری دی گئی۔ اُن کے مطابق ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ کا خاتمہ بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈینس کیا ہے، پی ٹی آئی کی قانون سازی پر علی امین گنڈاپور کو تحفظات کیوں؟
تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اس سے صوبے میں جاری فوجی جاری آپریشنز پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور ہے کیا اور کب نافذ ہوا؟’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ ایک وفاقی آرڈیننس تھا جو فاٹا میں نافذ تھا۔ اس کے تحت سول حکومت سیکیورٹی فورسز کو معاونت کے لیے طلب کر سکتی تھی اور انہیں خصوصی اختیارات دیے جاتے تھے۔ یہ قانون پہلی مرتبہ 2011 میں سابقہ فاٹا اور پاٹا میں جاری دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کے دوران نافذ ہوا، جبکہ اس کا اطلاق 2008 سے مؤثر سمجھا گیا۔
اس قانون کے ذریعے وفاق اور صوبائی حکومتیں سیکیورٹی فورسز کو قانونی تحفظ فراہم کرتی تھیں، جس کے تحت وہ مشتبہ افراد کو بغیر عدالتی اجازت کے گرفتار، زیرِ حراست رکھ سکتی تھیں، چھاپے مار سکتی تھیں اور حراستی مراکز قائم کر سکتی تھیں۔ ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر حراست میں رکھنا بھی اسی قانون کا حصہ تھا۔
خیبر پختونخوا میں اس قانون کا نفاذ کیسے ہوا؟2018 میں فاٹا اور پاٹا کو آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔ 2019 میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ کو پورے خیبر پختونخوا تک توسیع دے دی۔ اس وقت کے گورنر شاہ فرمان نے آرڈیننس جاری کرکے اسے پورے صوبے میں نافذ کیا، جو پہلے صرف قبائلی اضلاع تک محدود تھا۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ریڈیو پاکستان پر 9 مئی حملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کا اعلان
اس فیصلے کو وکیل شبیر حسین گگیانی نے پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ ہائیکورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا، تاہم پی ٹی آئی حکومت سپریم کورٹ گئی جہاں ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا گیا۔ یوں یہ معاملہ بدستور سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
کیا کابینہ کی منظوری کے بعد قانون ختم ہو گیا ہے؟سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی اس قانون کے خاتمے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ بنتے ہی کابینہ کے پہلے اجلاس میں سپریم کورٹ میں دائر اسٹے واپس لینے کی منظوری دی، تاکہ ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور‘ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف کابینہ منظوری سے قانون ختم نہیں ہوتا۔ سابق ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل احمد بٹ کے مطابق اسٹے آرڈر ختم کرانے کے لیے الگ پیٹیشن دائر کرنا ضروری ہے اور یہ معاملہ وفاقی آئینی عدالت کے دائرے میں آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس، اعلیٰ عسکری و سول قیادت وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئی
آئینی عدالت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ قانون کا خاتمہ کس بنیاد پر ہونا چاہیے اور صوبائی حکومت کی درخواست کے بارے میں کیا حکم دیا جائے گا۔
اصل قانونی پیچیدگی کیا ہے؟شمائل بٹ کے مطابق آرڈیننس کی مدت تو 90 دن ہوتی ہے، لیکن اصل مسئلہ پشاور ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں اس قانون کو غیر آئینی قرار دے کر تمام حراستی مراکز اور زیرِ حراست افراد کو 3 دن میں عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اگر آئینی عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کو بحال کرتی ہے تو یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت 2008 سے دیے گئے قانونی تحفظات اور کی جانے والی کارروائیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ تمام قانونی پہلو عدالت کے سامنے رکھے جائیں گے اور فیصلہ وفاقی آئینی عدالت ہی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے: تحریک لبیک پاکستان جیسی متشدد جماعتوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
سیئینر قانون دان علی گوہر درانی کے مطابق اس آرڈیننس کے خاتمے سے آپریشنز بند نہیں ہوں گے۔ ‘صوبے میں آپریشنز وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے۔ اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اس دوران کچھ خصوصی اختیارات ختم ہوں گے۔ اس میں حراستی مراکز، گرفتاری اور دیگر اختیار شامل تھے جو ختم ہوں گے۔’
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور خیبرپختونخوا کابینہ صوبائی حکومت فوجی آپریشن