اسرائیل اور امریکی 'جارحیت' کو تسلیم کیا جائے، ایران کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2025ء) ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ 12 روزہ جنگ کے لیے امریکہ اور اسرائیل کو جارح قرار دیا جائے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش اور سلامتی کونسل کے صدر کیرولین روڈریگس برکیٹ کو لکھے گئے ایک خط میں یہ درخواست کی ہے۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل اور اس کے اہم اتحادی امریکہ کو "جارحیت کا آغاز کرنے والوں کے طور پر تسلیم کرے اور ہرجانہ و معاوضے کی ادائیگی سمیت ان کی ذمہ داری بھی مقرر کرے۔"
عراقچی نے مزید کہا کہ جارحیت کی کارروائیوں کو برداشت کرنا "اقوام متحدہ کے نظام کی ساکھ کو سنجیدگی سے مجروح کرتا ہے" اور "ہمارے خطے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے بین الاقوامی تعلقات کے مستقبل میں لاقانونیت کو جنم دیتا ہے۔
(جاری ہے)
"ایوِن جیل پر اسرائیلی حملے میں 71 افراد مارے گئے تھے، ایرانی عدلیہ
واضح رہے کہ اسرائیل اور امریکہ نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اس پر اپنے حملوں کو ضروری قرار دیتے ہوئے اسے درست قرار دیا تھا، جبکہ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
جنگ بندی پر اسرائیلی وعدوں پر شکوک کے بادلایران نے اتوار کے روز کہا کہ وہ اس بات پر قائل نہیں ہے کہ اسرائیل اس جنگ بندی کی پاسداری کرے گا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان 12 روزہ جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔
یہ جنگ بندی سات روز قبل عمل میں آئی تھی۔ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف عبدالرحیم موسوی نے سعودی وزیر دفاع کو بتایا کہ ایران کو "دشمن کی جانب سے جنگ بندی سمیت اپنے وعدوں کی تعمیل پر شدید شکوک و شبہات ہیں۔"
موسوی نے مبینہ طور پر کہا کہ ان شکوک کی بنیاد پر، "اگر اس نے جارحیت کو دہرایا، تو ہم اسے سخت جواب دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔
"اسرائیل اور ایران کے درمیان 13 جون کو اس وقت لڑائی شروع ہوئی، جب اسرائیل نے ایران کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔ اسرائیل نے ان حملوں کے تحت تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام میں ملوث ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔
ایران: اسرائیل تنازع کے تناظر میں گرفتاریوں اور پھانسیوں کا سلسلہ جاری
اسرائیل نے کہا کہ اس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا ہے، جبکہ تہران مسلسل جوہری بم بنانے کی خواہش سے انکار کرتا رہا ہے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کی جوہری تنصیبات شہری مقاصد کے لیے وقف ہیں۔
مذاکرات کے لیے امریکہ کو حملے مسترد کرنے ہوں گےتہران کے نائب وزیر خارجہ مجید تخت روانچی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ اگر امریکہ سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے، تو اسے ایران پر مزید حملے کو مسترد کرنا ہو گا۔
مجید تخت روانچی نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ثالثوں کے ذریعے ایران کو بتایا ہے کہ وہ مذاکرات کی طرف واپس آنا چاہتا ہے، تاہم جب بات چیت کے دوران مزید حملوں کے "انتہائی اہم سوال" پر امریکہ نے "اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔
"واضح رہے کہ امریکہ گزشتہ ہفتے کےاواخر میں اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع میں اس وقت براہ راست ملوث ہوا، جب اس نے تین ایرانی جوہری مقامات کو بمباری سے نشانہ بنایا۔
تخت روانچی نے یہ بھی کہا کہ ایران یورینیم کو پرامن مقاصد کے لیے افزودہ کرنے کے قابل ہونے پر "اصرار" کرے گا۔ انہوں نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری بم بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایران کے ساتھ اگلے ہفتے مذاکرات، امریکی صدر
انہوں نے کہا کہ ایران کو اس کے تحقیقی پروگرام کے لیے "جوہری مواد تک رسائی سے انکار کیا گیا" اس لیے "خود پر انحصار کرنے" کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افزودگی کی، "سطح پر بات کی جا سکتی ہے، صلاحیت پر بات کی جا سکتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ آپ کو افزودگی نہیں کرنی چاہیے، آپ کے پاس صفر افزودگی ہونی چاہیے اور اگر آپ متفق نہیں ہیں تو ہم آپ پر بمباری کریں گے، یہ جنگل کا قانون ہے۔
" ایران مہینوں میں دوبارہ یورینیم کی افزودگی شروع کر سکتا ہےاقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ تہران امریکی اور اسرائیلی حملوں سے متعدد جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کے باوجود مہینوں کے اندر ہی یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
ایران پر امریکی حملوں سے چین کو کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟
اتوار کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، "ان کے پاس جو صلاحیتیں تھی، وہ موجود ہیں۔ میں کہوں گا کہ ان کے پاس جو سینٹری فیوجز ہیں انہیں وہ چند ماہ میں ہی چالو کر سکتے ہیں اور افزودہ یورینیم تیار کر سکتے ہیں۔"
گروسی کے یہ بیانات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعووں کے عین برعکس ہیں کہ ایران کے اندر تین جوہری مقامات پر امریکہ کے حالیہ حملوں نے ملک کے جوہری پروگرام کو برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں سے نقصان کی حد ابھی تک واضح نہیں ہے، حالانکہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے حال ہی میں کہا تھا کہ یہ "سنگین" ہے۔
قطر میں امریکی ایئر بیس پر ایران کا حملہ ’علامتی‘، دفاعی ماہر
گروسی نے کہا کہ ان کی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اس 400 کلوگرام یورینیم کے ٹھکانے کے بارے میں فکر مند ہے، جو کہ ایجنسی کے مطابق پہلے ہی 60 فیصد تک افزودہ کی جا چکی ہے، جبکہ جوہری بم بنانے کے لیے اسے 90 فیصد سے افزدہ کرنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "ہم نہیں جانتے کہ یہ مواد کہاں ہو سکتا ہے۔ کچھ حملے کے طور پر تباہ بھی ہو سکتی ہے، لیکن کچھ کو منتقل بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے اس کی کسی نہ کسی وقت وضاحت ہونی چاہیے۔"
ایرانی پارلیمان نے حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے تناظر میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ تاہم حکومت نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا ہے۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل اور اقوام متحدہ کہ ایران انہوں نے ایران کو کو بتایا ایران کے ہے کہ اس سکتا ہے نے کہا کہا کہ کے لیے اور اس
پڑھیں:
ناٹو پر حملوں کی خبر بے بنیاد‘ شوق ہو تو طالع آزمائی کرلی جائے‘ پیوٹن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک) روسی صدر نے ناٹو پر روس کے حملوں کی تیاری کو افواہ قرار دے دیا۔ یورپ کی فوجی تیاریوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا کہ وہ اس رجحان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ روسی صدر نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جوابی اقدامات فوری اور تیز ہوں گے۔ روسی شہر سوچی میں خارجہ پالیسی فورم سے خطاب میں پیوٹن کا کہنا تھا کہ یورپی ملک جو کہہ رہے ہیں وہ خود بھی اس پر یقین نہیں رکھتے کہ روس حملہ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی روس کے ساتھ فوجی میدان میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو آگے بڑھ کردیکھ لے۔ مغربی ممالک صرف یوکرین کا استعمال کر رہے ہیں۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ دنیامیں کوئی ایسی طاقت نہیں جوسب کو حکم دے کہ کیاکرناہے، دنیا کو کوئی طاقت اکیلے نہیں چلا سکتی، عالمی برادری ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ نیاکثیرقطبی نظام متحرک اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس ناٹو پر حملہ کرنے جارہاہے؟ایسی باتیں قابل یقین نہیں، یورپی لیڈر پر سکون ہوجائیں، اپنے مسائل پر قابو پائیں، کوئی روس کے ساتھ فوجی میدان میں مقابلہ کرناچاہتاہے تو آگے بڑھ کردیکھ لے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مخالفین ہمیں عالمی نظام سے باہر نکالنے میں ناکام رہے۔ روس نے مغرب کی پابندیوں کے باوجود ثابت قدمی دکھائی، عالمی توازن روس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ٹرمپ صدر ہوتے تو یوکرین میں جنگ سے بچا جا سکتا تھا ، مغربی ممالک کو یوکرین میں تباہی پر کوئی افسوس نہیں، مغربی ممالک صرف یوکرین استعمال کر رہے ہیں، تمام ناٹو ممالک ہمارے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ، تربیت دینے والے دراصل لڑائی میں براہِ راست شریک ہیں۔ روسی فوجی دستییوکرین کے پورے محاذ پر آگے بڑھ رہے ہیں، یوکرین کیلیے بہتر ہے وہ سمجھوتے پر غور کرے۔