خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سیلابی ریلے میں 13 سیاحوں کے بہہ جانے کے بعد کوتاہی برتنے پر ڈپٹی کمشنر سمیت 4 افسران کو معطل کرکے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جبکہ واقعے کی ابتدائی رپورٹ میں بے جا تجاوزات مائننگ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی و کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

سوات میں گزشتہ جمعے کی صبح 16 سیاح دریائے سوات میں سیر کر رہے تھے کہ اچانک سیلابی ریلے میں پھنس گئے اور کافی دیر تک مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن بروقت ریسکیو کا عمل شروع نہ ہونے کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 13 سیاح سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ان میں سے 12 کی لاشیں نکال لی گئیں، جبکہ ایک بچے کی تلاش تاحال جاری ہے۔

واقعہ کب پیش آیا، ریسکیو ٹیم کتنی دیر میں پہنچی؟

جمعے کے روز سوات میں بارش ہو رہی تھی اور ملک کے مختلف علاقوں سے سیاح سوات پہنچ رہے تھے۔ ان میں ڈسکہ، پنجاب کی ایک فیملی بھی شامل تھی، جبکہ مردان سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: سوات واقعہ افسوسناک قدرتی آفت تھی، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی گئی : بیرسٹر سیف

واقعے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے ایک رپورٹ تیار کی، جس پر چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو بھی بریفنگ دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، ضلعی انتظامیہ کو سیاحوں کے دریائے سوات میں پھنسنے کی اطلاع 10 بج کر 55 منٹ پر اسسٹنٹ کمشنر (یوٹی) کی جانب سے دی گئی، جو معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔ بعد ازاں متعلقہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر موقع پر پہنچے۔

حکام کے مطابق، ڈسکہ سے آئے سیاح جمعے کی صبح 8 سے 9 بجے کے دوران ہوٹل پہنچے۔ ناشتہ کرنے کے بعد 9 بج کر 37 منٹ پر دریائے سوات کے خشک حصے میں گئے۔ رپورٹ کے مطابق، جب سیاح نیچے اترے تو دریا خشک تھا، لیکن اس دوران اچانک پانی کی سطح بلند ہوئی اور 9 بج کر 45 منٹ پر خطرناک حد تک پہنچ چکی تھی۔

ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق، ریسکیو کو مدد کے لیے پہلی کال 9 بج کر 49 منٹ پر موصول ہوئی، اور ریسکیو ایمبولینس ٹیم 9 بج کر 56 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔ ریسکیو حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ابتدائی طور پر صرف میڈیکل ٹیم بھیجنا ایک غلطی تھی، تاہم اس کی انکوائری ہو رہی ہے کہ یہ غلطی کہاں اور کس سے ہوئی۔

مزید پڑھیں: دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن جاری

ریسکیو حکام کے مطابق یہ ایک ریسکیو آپریشن تھا، لیکن ابتدائی طور پر صرف میڈیکل ٹیم بھیجی گئی، جس کی وجہ سے آپریشن میں تاخیر ہوئی۔ 9 بج کر 56 منٹ پر پہنچنے والی ٹیم نے حالات کا جائزہ لے کر بڑی گاڑی کے لیے کال کی، جس میں جنریٹر، کشتیاں اور دیگر سامان موجود تھا، لیکن جب دوسری ٹیم پہنچی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک انکوائری جاری ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ تاخیر کال رسیور کی غلطی سے ہوئی یا کال کرنے والے کی جانب سے ایمرجنسی کی نوعیت صحیح طور پر بیان نہ کرنے کی وجہ سے۔

سیاح کتنی دیر تک مدد کے لیے انتظار کرتے رہے؟

ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق، واقعے میں ریسکیو کے لیے وقت بہت کم تھا، اور 10 بج کر 15 منٹ پر ریسکیو کا عمل شروع کیا گیا، جبکہ 10 بج کر 36 منٹ پر پھنسے ہوئے سیاح بہہ گئے۔

تاہم عینی شاہدین کے مطابق، سیاح ایک گھنٹہ 30 منٹ تک پھنسے رہے اور بروقت امدادی سرگرمیاں شروع نہ کی جا سکیں۔ ان کے مطابق، ریسکیو ٹیم کے پاس بچاؤ کے لیے سامان تک موجود نہیں تھا، اور اہلکار بھی بے بس نظر آئے۔

مائننگ اور تجاوزات

دریائے سوات میں بائی پاس روڈ کے ساتھ زور و شور سے مائننگ ہو رہی تھی، جس کے خلاف مقامی افراد آواز بھی اٹھا رہے تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، دریائے سوات سے ریت اور بجری نکال کر جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے بنائے گئے تھے، جبکہ دریا کے کنارے تجاوزات سے بھی دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔

مزید پڑھیں: سوات حادثہ: ریسکیو ٹیم کس وقت پہنچی؟ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں تفصیل سامنے آگئی

اس حوالے سے چیف سیکریٹری کو سوات میں بریفنگ دی گئی، جس کے بعد دریائے سوات میں مائننگ پر فوری پابندی لگا دی گئی، جبکہ تجاوزات کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

ریسکیو کے پاس سامان کی کمی

سرکاری ذرائع کے مطابق، سوات واقعے کی ایک بڑی وجہ ریسکیو کے پاس ایسے آپریشن کے لیے سازوسامان کی کمی بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کے پاس 100 میٹر تک رَسی پھینکنے والی روپ گن موجود ہے، لیکن اسے استعمال نہیں کیا جا سکا کیونکہ دریا کے دوسری طرف کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس پر رسی کو باندھا جا سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر حکام اور متعلقہ اداروں کی کوتاہیوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔ واقعے کے بعد بھی متعلقہ انتظامی افسران جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے، اور ریسکیو آپریشن کی جگہ صرف میڈیکل ٹیم روانہ کی گئی۔ اب اس واقعے کی مکمل انکوائری ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں: دریائے سوات حادثہ، ایک اور بچے کی لاش برآمد، ایک تاحال لاپتا

ہیلی کاپٹر کیوں نہیں بھیجا گیا؟

سوات واقعے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے، اور لوگ ہیلی کاپٹر استعمال نہ کرنے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ تاہم ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومت ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر غور کر رہی تھی، لیکن موسمی خرابی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

انہوں نے واقعے کو قدرتی آفت قرار دیا اور کہا کہ حکومت واقعے کی مکمل انکوائری کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر، 2 ایڈیشنل کمشنر اور ضلعی ایمرجنسی افسر کو معطل کیا جا چکا ہے، جبکہ مزید تفصیلی انکوائری جاری ہے۔ بیرسٹر سیف کے مطابق، تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا گیا ہے، جبکہ مائننگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بیرسٹر سیف خیبر پختونخوا ڈسکہ فیملی ڈوب گئے سانحہ سوات سوات علی امین گنڈا پور.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیرسٹر سیف خیبر پختونخوا ڈسکہ فیملی ڈوب گئے سانحہ سوات سوات علی امین گنڈا پور دریائے سوات میں رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا مزید پڑھیں بیرسٹر سیف واقعے کی انہوں نے کے خلاف رہی تھی ہو رہی کے لیے کے بعد کے پاس

پڑھیں:

کوئٹہ: چینی 230 روپے کلو، کیا چینی کی غیر قانونی اسمگلنگ جاری ہے

کوئٹہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ چینی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جہاں چند ہی دن قبل چینی 195 روپے فی کلو میں دستیاب تھی وہیں یک دم 35 روپے اضافے کے بعد چینی کی فی کلو قیمت 230 روپے تک جا پہنچی ہے۔ قیمتوں میں یہ اچانک اضافہ نہ صرف شہریوں میں بے چینی پیدا کر رہا ہے بلکہ ریٹیلرز بھی شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں چینی کی فی کلو قیمت میں 35 روپے تک کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس نے ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے مضافاتی علاقے ہزارہ ٹاؤن میں ریٹیلر اسامہ یوسف زئی نے بتایا کہ بازار میں چینی کی قیمت میں گزشتہ کئی دنوں سے ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کے مطابق ہول سیل مارکیٹ میں چینی 200 سے 210 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے اور دکانوں تک پہنچتے پہنچتے ٹرانسپورٹ سمیت دیگر اخراجات جوڑ کر ریٹیل سطح پر یہی قیمت 230 روپے تک جا پہنچتی ہے۔

مزید پڑھیں: چینی کی قیمتوں میں اضافہ: کس شوگر مل کے پاس کتنی چینی اسٹاک ہے؟

اسامہ یوسفزئی نے بتایا کہ پہلے لوگ ہفتے میں دو سے تین کلو چینی خریدتے تھے لیکن اب قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ زیادہ تر خریدار ایک کلو چینی لے کر واپس جا رہے ہیں۔ بازار میں چینی کی دستیابی بھی کم ہو گئی ہے اور کچھ عناصر مبینہ طور پر اسے غیر قانونی طور پر افغانستان سمگل کر رہے ہیں، جس سے مقامی مارکیٹ میں قلت مزید بڑھ گئی ہے۔

اسی حوالے سے ایک اور ریٹیلر حاجی امداد نے وی نیوز کو بتایا کہ شہر میں اعلیٰ معیار کی چینی 230 روپےجبکہ کم درجے کی چینی 220 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق اگلے چند دنوں میں قیمت میں مزید 5 سے 10 روپے کا اضافہ بھی متوقع ہے۔

حاجی امداد نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں چینی کی قلت ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے اور کچھ کے مطابق چینی سرحد پار اسمگل ہو رہی ہے، لیکن حقیقت کیا ہے اسکی کوئی تصدیق نہیں کر پارہا۔

مزید پڑھیں: چینی کی زائد قیمت فروخت پر صوبوں میں جرمانے اور گرفتاریاں، وزارت فوڈ سیکورٹی کی سینیٹ میں رپورٹ

شہری بھی اس صورتحال پر شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں مکمل طور پر غائب نظر آ رہی ہیں، جبکہ گراں فروشوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ایک شہری نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے چینی 195 روپے میں خریدی تھی، اور آج اچانک 230 روپے مانگ رہے ہیں۔ نہ کوئی چھاپہ، نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس عام آدمی کہاں جائے؟

دوسری جانب بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ایک مخصوص پلاننگ کے تحت بڑھائی جاتی ہیں، اور جب مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا ہو جائے تو گراں فروش من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔

کوئٹہ میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ کسی نئی بات نہیں لیکن اس بار معاملہ زیادہ سنگین دکھائی دے رہا ہے کیونکہ صرف ایک ہفتے میں قیمتوں نے ریکارڈ سطح کو چھو لیا ہے۔

مزید پڑھیں: چینی اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ نے ریاض میں علاقائی دفتر کھول لیا

مارکیٹ ذرائع کے مطابق اگر ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس نے فوری ایکشن نہ لیا تو چینی کی قیمت 240 سے 250 روپے فی کلو تک بھی جا سکتی ہے۔

پریشان حال شہریوں نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور چینی کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ میں لائی جائیں۔

شہر کی مارکیٹوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور انتظامیہ کی عدم موجودگی نے شہریوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کوئٹہ میں قیمتیں کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس بڑھتے ہوئے بحران پر کب اور کیسے قابو پاتی ہے یا پھر عوام کو مہنگائی کی اس نئی لہر کا بوجھ مزید برداشت کرنا پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسامہ یوسفزئی چینی غالب نہاد کوئٹہ

متعلقہ مضامین

  • سوات قومی جرگہ کا دسمبر میں لویہ جرگہ بلانے کا عندیہ
  • حیدرآباد،ڈپٹی کمشنر غیر قانونی سرگرمیوں کیخلاف سرگرم
  • میرپورخاص، ٹریفک جام کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا
  • حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث 2 ملزمان گرفتار
  • سعودی عرب ‘ 22 ہزار سے زائد غیر قانونی مقیم گرفتار
  • سی ڈی اے نے مل پور کی آبادی کو غیر قانونی قرار دے کر خالی کرنے کا نوٹس جاری کر دیا
  • سعودی عرب: 22 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکین گرفتار
  • کوئٹہ: چینی 230 روپے کلو، کیا چینی کی غیر قانونی اسمگلنگ جاری ہے
  • کانگو میں تانبے کی کان دھنسنے سے 32 افراد ہلاک
  • امریکی فوج کا ایک اور مشتبہ منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک