سانحہ سوات: غیر قانونی مائننگ، تجاوزات اور ریسکیو میں کوتاہی، کب کیا ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سیلابی ریلے میں 13 سیاحوں کے بہہ جانے کے بعد کوتاہی برتنے پر ڈپٹی کمشنر سمیت 4 افسران کو معطل کرکے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جبکہ واقعے کی ابتدائی رپورٹ میں بے جا تجاوزات مائننگ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی و کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
سوات میں گزشتہ جمعے کی صبح 16 سیاح دریائے سوات میں سیر کر رہے تھے کہ اچانک سیلابی ریلے میں پھنس گئے اور کافی دیر تک مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن بروقت ریسکیو کا عمل شروع نہ ہونے کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 13 سیاح سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ان میں سے 12 کی لاشیں نکال لی گئیں، جبکہ ایک بچے کی تلاش تاحال جاری ہے۔
واقعہ کب پیش آیا، ریسکیو ٹیم کتنی دیر میں پہنچی؟جمعے کے روز سوات میں بارش ہو رہی تھی اور ملک کے مختلف علاقوں سے سیاح سوات پہنچ رہے تھے۔ ان میں ڈسکہ، پنجاب کی ایک فیملی بھی شامل تھی، جبکہ مردان سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: سوات واقعہ افسوسناک قدرتی آفت تھی، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی گئی : بیرسٹر سیف
واقعے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے ایک رپورٹ تیار کی، جس پر چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو بھی بریفنگ دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، ضلعی انتظامیہ کو سیاحوں کے دریائے سوات میں پھنسنے کی اطلاع 10 بج کر 55 منٹ پر اسسٹنٹ کمشنر (یوٹی) کی جانب سے دی گئی، جو معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔ بعد ازاں متعلقہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر موقع پر پہنچے۔
حکام کے مطابق، ڈسکہ سے آئے سیاح جمعے کی صبح 8 سے 9 بجے کے دوران ہوٹل پہنچے۔ ناشتہ کرنے کے بعد 9 بج کر 37 منٹ پر دریائے سوات کے خشک حصے میں گئے۔ رپورٹ کے مطابق، جب سیاح نیچے اترے تو دریا خشک تھا، لیکن اس دوران اچانک پانی کی سطح بلند ہوئی اور 9 بج کر 45 منٹ پر خطرناک حد تک پہنچ چکی تھی۔
ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق، ریسکیو کو مدد کے لیے پہلی کال 9 بج کر 49 منٹ پر موصول ہوئی، اور ریسکیو ایمبولینس ٹیم 9 بج کر 56 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔ ریسکیو حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ابتدائی طور پر صرف میڈیکل ٹیم بھیجنا ایک غلطی تھی، تاہم اس کی انکوائری ہو رہی ہے کہ یہ غلطی کہاں اور کس سے ہوئی۔
مزید پڑھیں: دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن جاری
ریسکیو حکام کے مطابق یہ ایک ریسکیو آپریشن تھا، لیکن ابتدائی طور پر صرف میڈیکل ٹیم بھیجی گئی، جس کی وجہ سے آپریشن میں تاخیر ہوئی۔ 9 بج کر 56 منٹ پر پہنچنے والی ٹیم نے حالات کا جائزہ لے کر بڑی گاڑی کے لیے کال کی، جس میں جنریٹر، کشتیاں اور دیگر سامان موجود تھا، لیکن جب دوسری ٹیم پہنچی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک انکوائری جاری ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ تاخیر کال رسیور کی غلطی سے ہوئی یا کال کرنے والے کی جانب سے ایمرجنسی کی نوعیت صحیح طور پر بیان نہ کرنے کی وجہ سے۔
سیاح کتنی دیر تک مدد کے لیے انتظار کرتے رہے؟ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق، واقعے میں ریسکیو کے لیے وقت بہت کم تھا، اور 10 بج کر 15 منٹ پر ریسکیو کا عمل شروع کیا گیا، جبکہ 10 بج کر 36 منٹ پر پھنسے ہوئے سیاح بہہ گئے۔
تاہم عینی شاہدین کے مطابق، سیاح ایک گھنٹہ 30 منٹ تک پھنسے رہے اور بروقت امدادی سرگرمیاں شروع نہ کی جا سکیں۔ ان کے مطابق، ریسکیو ٹیم کے پاس بچاؤ کے لیے سامان تک موجود نہیں تھا، اور اہلکار بھی بے بس نظر آئے۔
مائننگ اور تجاوزاتدریائے سوات میں بائی پاس روڈ کے ساتھ زور و شور سے مائننگ ہو رہی تھی، جس کے خلاف مقامی افراد آواز بھی اٹھا رہے تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، دریائے سوات سے ریت اور بجری نکال کر جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے بنائے گئے تھے، جبکہ دریا کے کنارے تجاوزات سے بھی دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔
مزید پڑھیں: سوات حادثہ: ریسکیو ٹیم کس وقت پہنچی؟ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں تفصیل سامنے آگئی
اس حوالے سے چیف سیکریٹری کو سوات میں بریفنگ دی گئی، جس کے بعد دریائے سوات میں مائننگ پر فوری پابندی لگا دی گئی، جبکہ تجاوزات کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ریسکیو کے پاس سامان کی کمیسرکاری ذرائع کے مطابق، سوات واقعے کی ایک بڑی وجہ ریسکیو کے پاس ایسے آپریشن کے لیے سازوسامان کی کمی بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کے پاس 100 میٹر تک رَسی پھینکنے والی روپ گن موجود ہے، لیکن اسے استعمال نہیں کیا جا سکا کیونکہ دریا کے دوسری طرف کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس پر رسی کو باندھا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر حکام اور متعلقہ اداروں کی کوتاہیوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔ واقعے کے بعد بھی متعلقہ انتظامی افسران جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے، اور ریسکیو آپریشن کی جگہ صرف میڈیکل ٹیم روانہ کی گئی۔ اب اس واقعے کی مکمل انکوائری ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: دریائے سوات حادثہ، ایک اور بچے کی لاش برآمد، ایک تاحال لاپتا
ہیلی کاپٹر کیوں نہیں بھیجا گیا؟سوات واقعے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے، اور لوگ ہیلی کاپٹر استعمال نہ کرنے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ تاہم ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومت ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر غور کر رہی تھی، لیکن موسمی خرابی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
انہوں نے واقعے کو قدرتی آفت قرار دیا اور کہا کہ حکومت واقعے کی مکمل انکوائری کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر، 2 ایڈیشنل کمشنر اور ضلعی ایمرجنسی افسر کو معطل کیا جا چکا ہے، جبکہ مزید تفصیلی انکوائری جاری ہے۔ بیرسٹر سیف کے مطابق، تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا گیا ہے، جبکہ مائننگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیرسٹر سیف خیبر پختونخوا ڈسکہ فیملی ڈوب گئے سانحہ سوات سوات علی امین گنڈا پور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرسٹر سیف خیبر پختونخوا ڈسکہ فیملی ڈوب گئے سانحہ سوات سوات علی امین گنڈا پور دریائے سوات میں رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا مزید پڑھیں بیرسٹر سیف واقعے کی انہوں نے کے خلاف رہی تھی ہو رہی کے لیے کے بعد کے پاس
پڑھیں:
ڈکی بھائی جوا ایپ کیس میں اہم پیشرفت
یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کیخلاف جوئے کی ایپ کی تشہیر کے کیس کی سماعت میں یوٹیوبر کے وکیل نے دلائل پیش کردیئے۔
رپورٹ کے مطابق لاہور کی سیشن کورٹ میں یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کی جوئے کی ایپ کی تشہیر کے کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ڈکی بھائی کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں کوئی ایک بھی گواہ موجود نہیں ہے، نہ ہی ان کے مؤکل کو کسی قسم کا نوٹس جاری کیا گیا اور نہ ہی ان سے کوئی ایپ ریکور کی گئی ہے۔
وکیل نے مزید بتایا کہ انکوائری کا آغاز 30 جون کو ہوا، جبکہ ڈکی بھائی کو 13 اگست کو گرفتار کیا گیا اور مقدمہ 17 اگست کو درج کیا گیا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے پیکا 37 لگائی اسکا مطلب یہ کہ کیا یہ غیر قانونی ایکٹویٹی ہے تو پہلے اسکو بلاک کیا جاتا ہے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
وکیل کے مطابق اگر یہ ایپس غیر قانونی تھیں تو سب سے پہلے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) یا متعلقہ ادارے کو انہیں بلاک کرنا چاہیے تھا، 2020 کر رول بھی انکو کہتے ہیں کہ اگر اسطرح غیر قانونی ایپس چل رہی ہیں تو انہیں بند کروائیں۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب تک مقدمہ درج ہوا، اس وقت تک پی ٹی اے نے ان ایپس کو نہ تو بین کیا تھا اور نہ ہی غیر قانونی قرار دیا تھا۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مقدمے میں کوئی متاثرہ شخص بھی سامنے نہیں آیا، اس لیے کیس کو کمزور قرار دیا جائے۔