پاکستان میں عالمی معیار کی سیاحت کے فروغ کیلیے وزیراعظم کے احکامات
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان میں سیاحت کو قومی معیشت کا متحرک شعبہ بنانے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک جامع اور دُور رس منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو عالمی سیاحتی برانڈ میں تبدیل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نہ صرف ملک کے سیاحتی وسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا بلکہ ان کے بھرپور استعمال کے لیے عملی اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے قدرتی مناظر، موسمی تنوع اور ثقافتی ورثہ دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ملک کے شمالی علاقوں کے برف پوش پہاڑ، سرسبز وادیوں، جھیلوں، دریاؤں اور صحراؤں کی خوبصورتی عالمی سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے، مگر بدقسمتی سے ان مواقع کو ابھی تک مکمل طور پر بروئے کار نہیں لایا جا سکا۔
انہوں نے پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (PTDC) کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز کرے تاکہ پاکستان کو دنیا کے صفِ اول کے سیاحتی ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت صرف تفریح تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مکمل اقتصادی صنعت ہے جو زرمبادلہ کمانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بین الاقوامی ساکھ بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
اجلاس میں مختلف وزارتوں اور اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی، جنہوں نے سیاحتی شعبے کو فروغ دینے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ ان تجاویز میں بین الاقوامی سطح پر شمالی علاقہ جات کی تشہیر، میڈیکل ٹورزم کا آغاز، جدید سہولیات کی فراہمی، اور سیاحتی انفرا اسٹرکچر کی بہتری جیسے اقدامات شامل تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے سیاحتی شعبے میں سرمایہ کاری کو پائیدار اور مستحکم بنانے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وزارتوں کو ہدایت دی کہ ملک میں خصوصی ٹورزم زونز قائم کیے جائیں جہاں جدید سہولیات، ہوٹلز، ٹرانسپورٹ اور سیکورٹی کا معیاری انتظام موجود ہو۔ ان زونز کے قیام سے نہ صرف غیر ملکی سیاحوں کو سہولت ملے گی بلکہ مقامی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔
وزیراعظم نے خاص طور پر صوبوں کے تعاون کو اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام صوبے، وفاقی ادارے اور نجی شعبہ مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ کام کریں تاکہ پاکستان کو سیاحوں کے لیے محفوظ، پرکشش اور آسان رسائی والا ملک بنایا جا سکے۔
اس موقع پر اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اندرونِ ملک سیاحت کو بڑھاوا دینے کے لیے خصوصی مہمات کا آغاز کیا جائے گا تاکہ مقامی افراد کو بھی اپنے ہی ملک کے حسین گوشے دیکھنے کی ترغیب دی جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی اپنے وطن کے سیاحتی مقامات کی طرف راغب کرنے کے لیے اشتہاری مہمات چلانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
اجلاس میں وفاقی وزرا عطا تارڑ، حنیف عباسی، امیر مقام، اورنگزیب کھچی، رانا ثنا اللہ، معاون خصوصی حذیفہ رحمان اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ تمام شرکا نے سیاحت کے فروغ کو قومی ترقی کا اہم ذریعہ قرار دیا اور وزیراعظم کی ہدایت پر فوری عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ پاکستان اجلاس میں کے سیاحتی کے لیے
پڑھیں:
نمبروں سے حقیقت تک؛ کراچی کے تعلیمی معیار کا تجزیہ
تعلیم کسی بھی مہذب اور ترقی پذیر قوم کی بنیاد ہے۔ یہ نہ صرف فرد کو شعور، مہارت اور اخلاقیات دیتی ہے بلکہ قومی معیشت، سماجی ترقی اور عالمی شناخت کا تعین بھی کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں جس قوم نے تعلیم کو اولین ترجیح دی، وہ معاشی خوشحالی اور فکری قیادت کے منصب پر فائز ہوئی۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تعلیمی مرکز کراچی میں یہ ذمے داری کراچی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (BSEK) اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن (BIEK) پر عائد ہوتی ہے، جو ہر سال لاکھوں طلبا کے تعلیمی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نتائج اور معیار واقعی اس وژن کی عکاسی کرتے ہیں جو ہم نے اپنی نسلِ نو کےلیے سوچا تھا؟
کراچی بورڈ کا پس منظر اور ذمے داریاں
کراچی بورڈ کی بنیاد اس مقصد کے ساتھ رکھی گئی کہ شہر کے طلبا کو ایک ایسا امتحانی نظام فراہم کیا جائے جو شفاف، منظم اور عالمی معیار سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں:
نصاب کے مطابق معیاری سوالیہ پرچوں کی تیاری امتحانات کا منصفانہ اور شفاف انعقاد ممتحنین کی پیشہ ورانہ تربیت اور نگرانی مقررہ وقت پر درست نتائج کا اعلان اسناد اور سرٹیفکیٹس کی فراہمییہ تمام امور کاغذ پر نہایت متاثر کن دکھائی دیتے ہیں، مگر زمینی حقائق ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں، جہاں چیلنجز اور عملی رکاوٹیں معیار کو کمزور کر دیتی ہیں۔
موجودہ صورتِ حال اور چیلنجز
گزشتہ چند برسوں میں کراچی بورڈ کو ایسے مسائل کا سامنا رہا ہے جنہوں نے طلبا، والدین اور تعلیمی ماہرین کے اعتماد کو متزلزل کردیا، مثلاً:
پرچے لیک ہونا، جس سے میرٹ کا اصول متاثر ہوتا ہے نتائج میں تاخیر، جس سے طلبا کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ منصوبے رک جاتے ہیں مارکنگ میں غیر یکسانیت، تربیت یافتہ ممتحنین کی کمی کے باعث سائنس، ریاضی اور انگریزی میں کمزور کارکردگی امتحانی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان
دہم جماعت سائنس گروپ 2025 ؛ نتائج کی جھلک
اس سال میٹرک سائنس گروپ کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان چیئرمین میٹرک بورڈ غلام حسین سوہو نے کیا۔ کامیابی کا تناسب 83.93 فیصد رہا۔
اعداد و شمار کچھ یوں ہیں:
کل رجسٹرڈ امیدوار: 173,738 امتحان میں شریک: 172,391 غیر حاضر: 1,347 ناکام: 27,244
کامیاب امیدواروں میں:
پوزیشن ہولڈرز میں:
1. عینا فاروقی (مونٹیسوری کمپلیکس ہائی اسکول، گلشن اقبال) — 94.73%
2. وانیہ نور (پائنیر گرامر اسکول، اورنگی ٹاؤن) — 94.09%
3. سید اذکار حسین رضوی (سول ایوی ایشن ماڈل اسکول، ایئرپورٹ) اور عمائمہ ظفر (دی اسمارٹ اسکول، ملیر ہالٹ) — 94%
یہ نتائج جہاں طلبا کی محنت اور قابلیت کی نشانی ہیں، وہیں یہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ اوسط نمبر اور گریڈز میں غیر معمولی بہتری کے باوجود، عملی اور تحقیقی صلاحیت کا فقدان برقرار ہے۔
تعلیمی معیار پر اثر انداز ہونے والے عوامل
اصلاحات اور تجاویز
سوالیہ پرچوں کی تیاری Bloom’s Taxonomy کے مطابق اساتذہ کی سالانہ تربیت لازمی قرار دینا ڈیجیٹل مارکنگ سسٹم کا نفاذ نتائج بر وقت جاری کرنے کی پابندی پروجیکٹ بیسڈ لرننگ اور عملی تجربات کا فروغ کیرئیر کاؤنسلنگ پروگرامز آن لائن امتحانی نگرانی سسٹم
کراچی بورڈ کے نتائج محض نمبروں کا کھیل نہیں، بلکہ یہ ہمارے تعلیمی ڈھانچے کا عکس ہیں۔ اگر ہم نے تدریسی معیار، امتحانی شفافیت، نصابی اصلاحات اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر فوری توجہ نہ دی تو ہم اپنی آنے والی نسل کو عالمی مسابقت کےلیے تیار نہیں کرسکیں گے۔ آج کا قدم ہی کل کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے، ورنہ ہم صرف سند یافتہ مگر مہارت سے خالی نوجوان پیدا کرتے رہیں گے اور یہ کسی بھی قوم کےلیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔