سانحہ سوات؛ نااہلی کے بعد اقربا پروری، علی امین حکومت باز نہیں آئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
سٹی42: دریائے سوات میں پانی کے ریلے میں پھنس کر پنجاب کے 12 سیاحوں کے مرنے پر تنقید کی زد میں آئی ہوئی علی امین حکومت آج تجاوزات ہٹانے میں اقربا پروری کے الزامات کی زد میں آ گئی۔
دو روز پہلے دریائے سوات میں پنجاب کے 12 سیاح ڈوب کر مر گئے تو خیبر پختونخوا کی علی امین گنداپور حکومت شدید عوامی تنقید کی زد میں، عوام نے ریسکیو نظام کی نااہلی اور دریا کے کناروں پر تجاوزات ہٹانے میں علی امین کی عدم دلچسپی کو حادثات کی بڑی وجہ قرار دیا۔ عوامی تنقید کے بعد علی امین گنڈاپور حکومت نے دریائے سوات کے کنارے "تجاوزات کے خلاف آپریشن" کیا اور اپنے حامیوں کی تجاوزات چھوڑ دیں جبکہ سابق وفاقی وزیر امیر مقام کے ہوٹل کی چار دیواری گرا دی۔
انارکلی : مکان کی چھت گر نے سےملبےتلےدب کر5افراد زخمی
سوات میں تجاوزات کے خلاف دوسرے روز بھی آپریشن جاری ہے، فضاگٹ روڈ پر دریائے سوات کے کنارے کئی دکانیں اور چھپر ریسٹورنٹ گرا مسمار کر دئے گئے ۔
دریا کے کنارے بنے تفریحی پارک کو بھی انتظامیہ نے مسمار کر دیا۔
با اثر شخصیات کے ہوٹل کی باری آئی تو آپریشن بند ہو گیا
مقامی شہریوں نے انکشاف کیا کہ انتظامیہ تجاوزات آپریشن میں تفریق سے کام لے رہی ہیں، بااثر شخصیات کے ہوٹل اور اراضی تک پہنچتے ہی آپریشن بند کر دیا گیا۔
ایڈیشنل آئی جی مرزا فاران بیگ کا تبادلہ، نوٹیفکیشن جاری
مقامی رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر انتظامیہ نے تفریق سے کام لیا تو احتجاجی مظاہرے کریں گے ۔
سابقہ گورنر غلام علی کی مبینہ جائیداد اور ٹاون میں کارروائی
دریا کے کنارے موجود ٹاون میں کھدائی شروع کی گئی۔
انجنئیر امیر مقام کے ہوٹل میں بھی کارروائی کی گئی اور انجینئیر امیر مقام کے ہوٹل کی دیوار گرا دی گئی۔
ہوٹل کے منتظمین نے مزاحمت بھی کی۔ ان کے پاس تمام سرکاری کاغذات پورے تھے۔ اہوں نے اصرار کیا کہ اس ہوٹل میں کچھ بھی غیر قانونی تجاوزات کے زمرہ مین نہیں آتا۔
باٹا پور:خاتون اور اس کے بچوں کو ہراساں کرنیوالا ملزم گرفتار
امیر مقام کے کزن نے کہا، اپنی ناکامی چھپانے کے لئے انتظامیہ تجاوزات ہٹانے کے نام سے ہمارے خلاف یہ ڈرامہ رچا رہی ہے،
امیر مقام کے کزن نے بتایا، ہمارے پاس ہوٹل کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ ہماری کوئی چیز غیر قانونی نہیںْ۔ پہلے سیاحوں کی جانیں بچانے میں شرم ناک نا اہلی سامنے آئی، اب تجاوزات کے خلاف آپریشن میں لوگوں کے کاروبار تباہ کردئے گئے، امیر مقام کزن
فٹبالر لیونل میسی کی ٹیم فیفا کلب ورلڈ کپ سے باہر
آج کیا ہوا
دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کے دوران وفاقی وزیر امیر مقام کے ہوٹل کی باؤنڈری وال گرادی گئی۔
سانحہ سوات کے بعد دریا کے کنارے تجاوزات کےخلاف آپریشن کا آج دوسرا دن تھا۔
علی امین حکومت کی انتظامیہ نے بتایا کہ اب تک 26 ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔
معروف بھارتی اداکارہ کی اچانک موت کی وجہ کیا بنی؟بڑا انکشاف
متاثرہ فیملی (جس کے 12 افراد دریا مین پانی کا ریلا آنے کے دوران مدد نہ ملنے کی وجہ سے ڈوب گئے) ان لوگوں نے دریا کےکنارے جس ہوٹل پر ناشتہ کیا تھا وہ ہوٹل بھی گرادیا ہے۔
تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کے دوران وفاقی وزیر امیر مقام کے ہوٹل کی باؤنڈری وال گرادی گئی۔ ہوٹل ملازمین کی مداخلت کے باعث ہوٹل گرانے کا کام روک دیا گیا۔
امیر مقام کا کہنا ہےکہ ان کے پاس بلڈنگ کا این اوسی موجود ہے، ان کا ہوٹل تجاوزات میں نہیں آتا، صوبائی حکومت کی ایما پر میرے ہوٹل کی چار دیواری گرائی گئی۔
انتظامیہ کا کہنا ہےکہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا مقصد سیاحوں کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
سیاحوں کے مرنے کی وجہ کیا تھی
دریائے سوات سانحہ کے جو حقائق سامنے آئے ان کے مطابق دریا کے کناروں پر پبلک کو خطرات سے آگاہ کرنے کا نظام موجود نہیں تھا۔ سوات دریا میں طغیانی / پانی کا ریلا آنے کی صورت میں قبل از وقت وارننگ دریا کے اوپر کے علاقہ سے نیچے تک ہر جگہ جاتی ہے، سائرن بجانے کا نظام کاغذوں میں موجود ہے۔
ریسکیو1122 کے اہلکاروں کے کسی حادثہ کی سورت میں فوراً پہنچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ درجنوں کالیں کرنے کے بعد جب ریسکیو کے اہلکار فضا گٹ کے سب سے برے تفریحی مقام پر دریا میں پھنسے سیاحوں کی مدد کے لئے پہنچے تو ان کے پاس مدد کرنے کا کوئی سامان نہیں تھا، وہ بھی آ کر سیاحوں کی موت کا تماشا دیکھنے والوں میں شامل ہو گئے۔
انتظامیہ نے دفعہ 144 لگا کر دریا میں جانے سے روکنے کا حکم تو دیا لیکن دریا مین جانے والوں کو روکنے والا دریا کے کنارے ایک بھی اہلکار نہیں تھا۔ دریا کے کنارے کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ دریا میں جانا منع ہے۔
ڈی سی او کا عذرِ لنگ
آج ڈی سی او نے انکوائری کمیٹی کو اپنے بیان میں بتایا کہ آٹھ جگہوں پر سیاح دریا میں پانی کے ریلے میں پھنسے وئے تھ۔ دو جون کو دریا میں نہانے اور کشتی چلانے پر پابندی لگائی تھی۔، 23 جون کو دفعہ 144 لگا کر دریا میں نہانے کے لئے پابندی لگائی تھی۔
اس پابندی کی پابندی کروانا ڈی سی او کی ہی ذمہ داری تھی، اس پابندی پر ضلع بھر مین کہیں بھی عمل نہیں کیا جا رہا تھا اور ضلعی انتظامیہ خاموشی سے تماشا دیکھ رہی تھی۔
چیف سیکرٹری نے آج بتایا کہ ریسکیو 1122 کو اب ضروری سامان دینے کے لئے حکم جاری کر دیا ہے۔
علی امین گنڈاپور کے ترجمان بیرسٹر سیف نے آج میڈیا کو بتایا کہ ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے اہلکار اس لئے تاخیر سے پہنچے کہ وہ دوسری جگہوں پر ریسکیو کی کارروائیوں مین مصروف تھے۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
خودکش بمبار نے اسلام آباد کچہری سے قبل ایک اور مقام پر حملے کی کوشش کی‘ تحقیقات میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-08-28
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد کچہری میں خود کش دھماکے کی تحقیقات میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، حملہ آور نے کچہری دھماکے سے قبل بھی خود کو اڑانے کی کوشش کی، دہشت گرد نے اس سے قبل 26 نمبرچونگی پر اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ پولیس ذرائع کے مطابق دہشت گرد نے26 نمبرچونگی پر اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، پہلا حملہ ناکام ہونے پر پلان کو تبدیل کردیا گیا تھا اور ملزمان ڈھوک پراچہ میں ہی کرائے کے گھر میں روپوش ہوگئے تھے۔ پولیس اور انٹیلی جنس ادارے کیمروں کی مدد سے گولڑہ اور پھر 26 نمبر چونگی پہنچے تھے، ڈھوک پراچہ میں منظم انداز سے سرچ اینڈ کومبنگ آپریشن کیا تھا جو کامیاب ہوا تھا۔ یاد رہے کہ 11 نومبر کو اسلام آباد کچہری کے باہر خودکش حملے میں 12 افراد شہید اور 2 درجن سے زاید زخمی ہوگئے تھے، واقعے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا تھا۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ خودکش حملہ آور میں آن لائن موٹرسائیکل رائیڈنگ ایپلی کیشن کے ذریعے 200 روپے میں رائیڈ بک کراکے اسلام آباد کچہری پہنچا تھا، پولیس نے خودکش حملہ آور کو لانے والے رائیڈر کو بھی حراست میں لیا تھا۔ 2 روز قبل وفاقی حکومت کے حساس ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے جوڈیشل کمپلیکس جی 11 اسلام آباد پر حملے میں ملوث فتنہ الخوارج کے دہشت گرد سیل کے 4 ارکان گرفتار کو گرفتار کرلیا تھا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق خودکش حملہ آور کے گرفتار ہینڈلر ساجد اللہ عرف شینا نے دوران تفتیش اعتراف کیا تھا کہ فتنہ الخوارج کے کمانڈر سعیدالرحمن عرف داد اللہ نے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے رابطہ کر کے اسلام آباد میں خودکش حملہ کرنے کی ہدایت کی۔ ملزم ساجد اللہ عرف شینا نے بتایا تھا کہ سعیدالرحمن عرف داد اکبر کا تعلق باجوڑ کے علاقے چرمکنگ سے ہے اور وہ اس وقت افغانستان میں مقیم اور ٹی ٹی پی نواگئی، باجوڑ کا انٹیلی جنس چیف ہے۔ ملزم نے بتایا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کے لیے خودکش حملہ کیا گیا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق داد اکبر نے ساجد اللہ عرف شینا کو خودکش بمبار عثمان عرف قاری کی تصاویر بھیجیں تا کہ وہ اسے پاکستان میں وصول کرے، خودکش بمبار عثمان عرف قاری کا تعلق شینواری قبیلے سے تھا اور وہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے علاقے اچین کا رہائشی تھا۔