سوات میں وفاقی وزیر امیر مقام کے ہوٹل کی باؤنڈری وال گرادی گئی
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کے دوران وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام کے ہوٹل کی باؤنڈری وال گرا دی گئی۔
ہوٹل ملازمین کی مداخلت کے باعث ہوٹل گرانے کا کام روک دیا گیا۔
امیر مقام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بلڈنگ کا این او سی موجود ہے۔ ان کا ہوٹل تجاوزات کی ضمن میں نہیں آتا۔
دریائے سوات کے پانی میں ریلے میں بہہ جانے والی متاثرہ فیملی نے دریا کے کنارے جس ہوٹل پر ناشتہ کیا تھا انتظامیہ نے اسے گرا دیا ہے۔
سانحہ دریائے سوات کی انکوائری میں سابق ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ریسکیو نے کمیٹی کو بیان ریکارڈ کروا دیا،
سوات میں تجاوزات کے خلاف ضلعی انتظامیہ کا گرینڈ آپریشن جاری ہے، بائی پاس اور فضا گھٹ پر 26 ہوٹل اور ریسٹورنٹس کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق سنگوٹہ تک 49 ہوٹلز اور ریستوران کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن بلا تفریق جاری رہےگا، کسی دباؤ کے بغیر آپریشن کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
12 روزہ جنگ پر عبرانی ڈاکومنٹری پر ردعمل، اسرائیلی ناظرین “متبادل بیانیے” کے پیاسے نکلے
ایک ایرانی اعلیٰ فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزی فلم بالکل ایک کامیاب میزائل آپریشن کی طرح تھی، جس طرح اسرائیل کسی فوجی حملے پر ردعمل دیتا ہے، بالکل ویسی ہی حرکت اس میڈیا آپریشن پر بھی دکھائی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی نیوز ایجنسی تسنیم کے عبرانی سروس کے سربراہ سهیل کثیری نژاد نے کہا ہے کہ اسرائیلی معاشرے کے لیے ایران کی جانب سے عبرانی زبان میں دستاویزی فلم تیار کرنا ایک غیر متوقع اقدام تھا، اور اس سے ثابت ہوا کہ اسرائیلی عوام متبادل بیانیہ سننے کے شدید متمنی ہیں۔ عبرانی زبان میں تیار ہونے والے پہلی دستاویزی فلم "بازان پر میزائل" کے فارسی نسخے کی نمائش میں کثیرینژاد نے کہا کہ گزشتہ تقریباً ایک سال میں، خصوصاً اس دستاویزی فلم کی اشاعت کے بعد، ہمیں بالکل واضح طور پر دیکھنے کو ملا کہ اسرائیلی معاشرہ ‘متبادل روایت’ کا پیاسا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل میں بظاہر میڈیا آزادی موجود ہے، وہاں ایک عام ناظر کے پاس تقریباً 230 ٹی وی چینلز دستیاب ہیں اور ظاہری طور پر اسے مواد کے انتخاب کی مکمل آزادی دکھائی دیتی ہے، لیکن پچھلے ایک سال میں ہماری معمولی سی میڈیا سرگرمی خصوصاً یہ دستاویزی فلم جس ردعمل کا سبب بنی، اس نے دکھا دیا کہ اسرائیلی عوام اپنے سرکاری اور صہیونی میڈیا اداروں سے ہٹ کر ایک مختلف بیانیہ سننے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ثابت ہوا کہ اگر کوئی فوجی کارروائی میڈیا کے ہمراہ نہ ہو، تو وہ زیادہ سے زیادہ اثر نہیں ڈال سکتی، بہترین فوجی آپریشن بھی اگر میڈیا آپریشن کے بغیر ہو تو اسے عوامی سطح پر ناکام دکھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس، ایک کمزور آپریشن کو میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے مکمل فتح کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، یہی بات میڈیا وار کی اصل اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے ایک ایرانی اعلیٰ فوجی کمانڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کمانڈر کے مطابق یہ دستاویزی فلم بالکل ایک کامیاب میزائل آپریشن کی طرح تھی، جس طرح اسرائیل کسی فوجی حملے پر ردعمل دیتا ہے، بالکل ویسی ہی حرکت اس میڈیا آپریشن پر بھی دکھائی گئی۔ کمانڈر کے مطابق اس دستاویزی فلم میں چند خصوصیات تھیں جو اسے ایک کامیاب فوجی کارروائی سے مشابہ بناتی ہیں:
1۔ اچانک پن۔ اسرائیل اس اقدام کی توقع نہیں کر رہا تھا، اور ان کے میڈیا کا جارحانہ ردعمل اس بات کی گواہی ہے۔
2۔ محاصرہ شکنی۔ ایران جس میڈیا محاصرے میں برسوں سے پھنسا ہوا تھا، اس دستاویزی فلم نے اسے توڑ ڈالا اور اسرائیل کے خلاف ایک فعال میڈیا یلغار شروع کر دی۔
3۔ اسٹریٹجک اثر۔ یہ دستاویزی فلم روزمرّہ خبروں سے آگے بڑھ کر اسٹریٹجک سطح پر دکھاتی ہے کہ ایران کے فوجی حملے دشمن کی روک تھام میں کتنے مؤثر رہے۔
4۔ ابتکارِ عمل۔ اس کارروائی نے میڈیا میدان میں ابتکار اور پیش قدمی ایران کے پلڑے میں ڈال دی۔
کثیری نژاد نے کہا کہ یہ نہ صرف ایران بلکہ پورے محورِ مقاومت کی عبرانی زبان میں تیار کردہ پہلی دستاویزی فلم ہے۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل نے آج تک فارسی بولنے والوں کے لیے ایک بھی ایسی دستاویزی فلم نہیں بنائی، اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا وار کے میدان میں ابتکارِ عمل اب ایران کے ہاتھ میں ہے۔