Jasarat News:
2025-10-04@20:31:48 GMT

لیڈر نہیں، مرشد

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

’’آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر میں حکم دوں تو آپ نوکری چھوڑ دیں گے۔ اللہ کا حکم تو آپ مانتے نہیں، میرا حکم کیا مانیں گے؟ اللہ کا حکم ماننا ہے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے مانیں، مجھے خوش کرنے کے لیے نہیں‘‘۔ میاں صاحب نے برہمی سے کہا۔ محفل پر سنّاٹا چھا گیا۔ میری حالت یہ کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں۔ کیا کروں… اگر وہاں کوئی ’’بِل‘‘ ہوتا اور میں اس میں سما سکتا تو ضرور اس میں جا گْھستا۔ جا چْھپتا۔ میاں صاحب پھر مجھ سے گویا ہوئے۔ ’’میں آپ کو حکم نہیں دوں گا۔ آپ کے لیے دعا کروں گا۔ اگر آپ کی طلب سچّی ہے تو اللہ آپ کے لیے ضرور راستہ نکالے گا‘‘۔ تب مجھے پتا چلا کہ صحراؤں میں بادِ نسیم کس طرح چلتی ہے۔ ویرانے میں چپکے سے بہار کس طرح آتی ہے اور بیمار کو بے وجہ قرار کیوں آجاتا ہے۔
یہ میری میاں طفیل محمد سے پہلی رو بہ رو گفتگو تھی۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کی دعا سن لی اور میری طلب کی سچّائی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ میں نے انشورنس کمپنی چھوڑی۔ وکالت اختیار کی۔ وکالت چھوڑی، ٹیکسٹائل سیکٹر میں مینیجر ایڈمن کی ملازمت کی۔ پھر میاں محمد شوکت نے مجھے جماعت اسلامی کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف کر لیا۔ یہاں تک کہ 2001 آگیا اور۔۔۔
میں 1973 کے وسط سے اواخر 1977 تک جمعیت کا رکن رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میاں طفیل محمد پہلی بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی زندگی میں جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنا خود ایک بڑا امتحان تھا لیکن اس سے بڑا امتحان یہ تھا کہ 1970 کے انتخابات کی شکست خوردہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں دفاع پاکستان کے لیے جو بھی اقدامات کیے تھے، 1971 کی فوجی شکست کے نتیجے میں وہ سب الزامات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ مالاکنڈ اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کرنے پر جماعت سے نالاں عناصر اسے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اسی قبیل کے لوگ 1972 میں اچھل اچھل کر البدر اور الشمس کے بارے میں سوال کرتے اور جماعت اسلامی کو بنگالیوں کے قتل کا مجرم ٹھیراتے تھے۔ (یہ روش آج تک جاری ہے) جماعت اسلامی مشرقی پاکستان، قاتلوں کے نرغے میں تھی۔ بنگالی ارکان چھپتے پھر رہے تھے۔ غیر بنگالی ارکان یا تو مارے جا چکے تھے یا ہجرتوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ خرّم مراد جیسا قیمتی آدمی بھارت میں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں دشمنوں کے قبضے میں تھا۔ بچے کھچے پاکستان میں صدمات سے دوچار، طعن و تشنیع کا شکار جماعت اسلامی، بھٹو کی فسطائیت کی زد میں تھی۔ اک حشر بپا تھا۔ ایک طوفان ِ بلا خیز مسلّط تھا اور اس منجدھار میں جماعت اسلامی کی نیّا کا کھویّا، ایک فقیر منش، دیہاتی مزاج کا حامل، سادہ دل لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ 1937 کا لا گریجویٹ تھا، جس نے یہ امتحان پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا تھا جو اگر چاہتا تو متحدہ ہندوستان میں وکالت کا آغاز کر کے قیام پاکستان تک اپنے آپ کو مستحکم رکھتا۔ پھر جی چاہتا تو وکالت کرتا آئین پاکستان سے اٹکھیلیاں کرتا، سیاسی آمریتوں کو مضبوط کرتا، فوجی حکمرانوں کا پیر مغاں بنتا۔ جہاں پیرزادوں کی پانچوں گھی میں ہوتی رہیں، وہاں یہ پیر مغاں چاہتا تو حلوائی کی آدھی دکان اپنے نام کرالیتا۔ جی چاہتا تو عدالت لگا کر انصاف فروخت کرتا۔ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتا پھر نظریہ ضرورت ایجاد کرکے باغباں کو بھی خوش کرتا اور صیاد کو بھی راضی کرلیتا لیکن کپور تھلہ کے اس درویش نے 1941 میں نقد ِ جاں کا جو سودا کیا تھا 1972 میں اس سودے کی سچائی کے میزان میں تلنے کا وقت آیا تو یہ درویش اس میزان پر پورا اترا، الحمد للہ۔
1972 سے 1987 تک میاں صاحب بظاہر امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے لیکن کوئی ان سے پوچھتا تو وہ کہتے کہ وہ عرصہ محشر میں تھے۔ بھٹو شاہی میں ان کے ساتھ جیلوں میں تشدد ہوا۔ تلاشی کے نام پر ان سے بے ہودگی کی گئی۔ ان کی ڈاڑھی کھینچی گئی۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا۔ ان کے روحانی بیٹے، اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان مسلسل پس ِ دیوار زنداں دھکیلے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی سے متعلق لوگوں نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا رکھا تھا، ان تعلیمی اداروں کو قومیالیا گیا۔ جماعت کے لوگ اپنے اثاثوں سے محروم ہو گئے، ان تعلیمی اداروں کے ملازمین جو نظریاتی اثاثہ تھے اچانک سرکاری ملازم بن گئے۔ اور اس طرح جماعت ان کی صلاحیتوں سے محروم ہو گئی۔
1977 میں جماعت اسلامی نے میاں صاحب کی قیادت میں پی این اے کی تشکیل اور تنظیم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1977 میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد پی این اے نے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ اس فیصلے پر جماعت اسلامی میں شروع سے دو رائے پائی جاتی تھیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ میاں صاحب کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا فیصلہ تھا جس سے اختلاف کا حق استعمال کرنے والوں کو میاں صاحب نے کبھی صف دشمناں میں نہیں گنا، حالانک ہمارے مروجہ سیاسی نظام میں اختلاف رائے کو قائد سے غداری کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہر قائد اپنے طریقے سے ٹھکانے لگاتا ہے۔ کوئی علی الاعلان موت کا حق دار قرار دے کر اور کوئی چپ چپاتے کھڈے لائن لگا کر… تنظیم میں رہتے ہوئے عضو معطل بنا کر…
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی میاں صاحب چاہتا تو کے لیے

پڑھیں:

  وزیر اعظم شہبازشریف کا امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو فون

سٹی42:  وزیر اعظم شہبازشریف نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو فون کیا اور  صمود فلوٹیلا سے حراست میں لیے گئے پاکستانیوں  کی بحفاظت وطن واپسی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

وزیر اعظم آفس کے مطابق وزیراعظم نے حافظ نعیم الرحمان سے ٹیلی فون پر مختصر بات چیت میں فلسطین میں جنگ بندی،فلسطینیوں کے قتل عام کی فوری روک تھام کی اہمیت پر زور دیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے۔  پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے ہر فورم پر اپنے نہتے فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے آواز اٹھائی ہے اور پاکستان نہتے فلسطینیوں کے لیے آئندہ بھی آواز اٹھاتا رہے گا۔

کشمیریوں کا کشمیر سے تعلق کسی تحریک سے ختم نہیں ہونا چاہئے، اعظم نذیر تارڑ

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے 1967 سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطین کے القدس الشریف کے بطور دارالحکومت کے پاکستان کے مؤقف کو بھی دہرایا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 8  اسلامی ممالک فلسطین میں جنگ بندی کیلئے اپنی فعال، بھرپور کوششیں کر رہے ہیں،  پر امید ہیں کہ بہت جلد یہ کوششیں رنگ لائیں گی، امن کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا۔

 وزیر  اعظم نے  امیر جماعت اسلامی کو بتایا کہ صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں موجود پاکستانیوں کی واپسی کیلئے فعال کردار ادا کر رہے ہیں.  دوست ممالک سے مسلسل رابطے میں ہیں۔بہت جلد صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کو بحفاظت وطن واپس لائیں گے۔

آزاد کشمیر کی ایکشن کمیٹی اور حکومت کا معاہدہ ہو گیا

وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا نہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • حماس نے غزہ امن پلان پر ذمہ دارانہ اور باوقار ردعمل دیا، حافظ نعیم الرحمٰن
  • حکمران ٹرمپ کی چاپلوسی اور خوشامد میں مصروف ہیں،حافظ نعیم
  •   وزیر اعظم شہبازشریف کا امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو فون
  • جماعت اسلامی کی اپیل پر نوابشاہ میں یوم احتجاج
  • ڈہرکی،جماعت اسلامی کے تحت اسرائیل کیخلاف احتجاج
  • پشاور، گلوبل صمود فلوٹیلا پر صیہونی کارروائی کیخلاف جماعت اسلامی کی ریلی
  • لاہور، اسرائیلی جارحیت کیخلاف جماعت اسلامی کا احتجاجی مظاہرہ
  • پنجاب سے خیبرپختونخوا کو آٹے پر پابندی غیر آئینی اقدام ہے ،میاں افتخارحسین
  • گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ:جماعت اسلامی کا مظاہرہ احتجاجی مارچ میں تبدیل
  • میں خان صاحب کو بہت پرانے زمانے سے جانتا ہوں، جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تب سے! سنیے ڈمی مبشر لقمان سے