data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
’’آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر میں حکم دوں تو آپ نوکری چھوڑ دیں گے۔ اللہ کا حکم تو آپ مانتے نہیں، میرا حکم کیا مانیں گے؟ اللہ کا حکم ماننا ہے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے مانیں، مجھے خوش کرنے کے لیے نہیں‘‘۔ میاں صاحب نے برہمی سے کہا۔ محفل پر سنّاٹا چھا گیا۔ میری حالت یہ کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں۔ کیا کروں… اگر وہاں کوئی ’’بِل‘‘ ہوتا اور میں اس میں سما سکتا تو ضرور اس میں جا گْھستا۔ جا چْھپتا۔ میاں صاحب پھر مجھ سے گویا ہوئے۔ ’’میں آپ کو حکم نہیں دوں گا۔ آپ کے لیے دعا کروں گا۔ اگر آپ کی طلب سچّی ہے تو اللہ آپ کے لیے ضرور راستہ نکالے گا‘‘۔ تب مجھے پتا چلا کہ صحراؤں میں بادِ نسیم کس طرح چلتی ہے۔ ویرانے میں چپکے سے بہار کس طرح آتی ہے اور بیمار کو بے وجہ قرار کیوں آجاتا ہے۔
یہ میری میاں طفیل محمد سے پہلی رو بہ رو گفتگو تھی۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کی دعا سن لی اور میری طلب کی سچّائی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ میں نے انشورنس کمپنی چھوڑی۔ وکالت اختیار کی۔ وکالت چھوڑی، ٹیکسٹائل سیکٹر میں مینیجر ایڈمن کی ملازمت کی۔ پھر میاں محمد شوکت نے مجھے جماعت اسلامی کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف کر لیا۔ یہاں تک کہ 2001 آگیا اور۔۔۔
میں 1973 کے وسط سے اواخر 1977 تک جمعیت کا رکن رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میاں طفیل محمد پہلی بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی زندگی میں جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنا خود ایک بڑا امتحان تھا لیکن اس سے بڑا امتحان یہ تھا کہ 1970 کے انتخابات کی شکست خوردہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں دفاع پاکستان کے لیے جو بھی اقدامات کیے تھے، 1971 کی فوجی شکست کے نتیجے میں وہ سب الزامات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ مالاکنڈ اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کرنے پر جماعت سے نالاں عناصر اسے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اسی قبیل کے لوگ 1972 میں اچھل اچھل کر البدر اور الشمس کے بارے میں سوال کرتے اور جماعت اسلامی کو بنگالیوں کے قتل کا مجرم ٹھیراتے تھے۔ (یہ روش آج تک جاری ہے) جماعت اسلامی مشرقی پاکستان، قاتلوں کے نرغے میں تھی۔ بنگالی ارکان چھپتے پھر رہے تھے۔ غیر بنگالی ارکان یا تو مارے جا چکے تھے یا ہجرتوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ خرّم مراد جیسا قیمتی آدمی بھارت میں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں دشمنوں کے قبضے میں تھا۔ بچے کھچے پاکستان میں صدمات سے دوچار، طعن و تشنیع کا شکار جماعت اسلامی، بھٹو کی فسطائیت کی زد میں تھی۔ اک حشر بپا تھا۔ ایک طوفان ِ بلا خیز مسلّط تھا اور اس منجدھار میں جماعت اسلامی کی نیّا کا کھویّا، ایک فقیر منش، دیہاتی مزاج کا حامل، سادہ دل لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ 1937 کا لا گریجویٹ تھا، جس نے یہ امتحان پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا تھا جو اگر چاہتا تو متحدہ ہندوستان میں وکالت کا آغاز کر کے قیام پاکستان تک اپنے آپ کو مستحکم رکھتا۔ پھر جی چاہتا تو وکالت کرتا آئین پاکستان سے اٹکھیلیاں کرتا، سیاسی آمریتوں کو مضبوط کرتا، فوجی حکمرانوں کا پیر مغاں بنتا۔ جہاں پیرزادوں کی پانچوں گھی میں ہوتی رہیں، وہاں یہ پیر مغاں چاہتا تو حلوائی کی آدھی دکان اپنے نام کرالیتا۔ جی چاہتا تو عدالت لگا کر انصاف فروخت کرتا۔ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتا پھر نظریہ ضرورت ایجاد کرکے باغباں کو بھی خوش کرتا اور صیاد کو بھی راضی کرلیتا لیکن کپور تھلہ کے اس درویش نے 1941 میں نقد ِ جاں کا جو سودا کیا تھا 1972 میں اس سودے کی سچائی کے میزان میں تلنے کا وقت آیا تو یہ درویش اس میزان پر پورا اترا، الحمد للہ۔
1972 سے 1987 تک میاں صاحب بظاہر امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے لیکن کوئی ان سے پوچھتا تو وہ کہتے کہ وہ عرصہ محشر میں تھے۔ بھٹو شاہی میں ان کے ساتھ جیلوں میں تشدد ہوا۔ تلاشی کے نام پر ان سے بے ہودگی کی گئی۔ ان کی ڈاڑھی کھینچی گئی۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا۔ ان کے روحانی بیٹے، اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان مسلسل پس ِ دیوار زنداں دھکیلے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی سے متعلق لوگوں نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا رکھا تھا، ان تعلیمی اداروں کو قومیالیا گیا۔ جماعت کے لوگ اپنے اثاثوں سے محروم ہو گئے، ان تعلیمی اداروں کے ملازمین جو نظریاتی اثاثہ تھے اچانک سرکاری ملازم بن گئے۔ اور اس طرح جماعت ان کی صلاحیتوں سے محروم ہو گئی۔
1977 میں جماعت اسلامی نے میاں صاحب کی قیادت میں پی این اے کی تشکیل اور تنظیم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1977 میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد پی این اے نے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ اس فیصلے پر جماعت اسلامی میں شروع سے دو رائے پائی جاتی تھیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ میاں صاحب کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا فیصلہ تھا جس سے اختلاف کا حق استعمال کرنے والوں کو میاں صاحب نے کبھی صف دشمناں میں نہیں گنا، حالانک ہمارے مروجہ سیاسی نظام میں اختلاف رائے کو قائد سے غداری کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہر قائد اپنے طریقے سے ٹھکانے لگاتا ہے۔ کوئی علی الاعلان موت کا حق دار قرار دے کر اور کوئی چپ چپاتے کھڈے لائن لگا کر… تنظیم میں رہتے ہوئے عضو معطل بنا کر…
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی میاں صاحب چاہتا تو کے لیے
پڑھیں:
حافظ نعیم پنجاب میں بیٹھ کر سندھ بلدیاتی نظام کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، شرجیل میمن
کراچی:سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ سیاسی منافقت کی انتہا ہے، پنجاب میں بیٹھ کر حافظ نعیم سندھ بلدیاتی نظام کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، حالانکہ بلدیاتی انتخابات پنجاب میں نہیں ہوئے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم کے بیان پر سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے حافظ نعیم اب تک میئر نہ بن سکنے کے صدمے سے نہیں نکلے ہیں۔ سندھ میں بلدیاتی نظام اپنی آئینی حدود کے اندر کام کر رہا ہے، جماعت اسلامی کا کام عوام کو گمراہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حافظ نعیم کو سندھ کے بلدیاتی نظام سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی اسی شد و مد سے آواز کیوں نہیں اٹھاتے، حافظ نعیم کی جانب سے اپنی سیاسی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے حکومت سندھ پر الزامات لگانا مناسب نہیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ حافظ نعیم شاید بھول رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے جن ممبران پر انہوں نے مقدمے قائم کiے تھے، انہوں نے حافظ نعیم کو ووٹ دینا پسند نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کو کبھی عوام کے ووٹ سے کراچی کی میئرشپ نہیں ملی، ان کے دو میئر آمریت کے مرہون منت تھے۔
سندھ کے سینیئر وزیر نے کہا کہ جماعت والوں کو بھی اب تعمیری سیاست کرنی چاہیے، نفرت پر مبنی بیانات کے ذریعے عوام کو گمراہ نہ کریں۔