Jasarat News:
2025-08-16@01:18:26 GMT

لیڈر نہیں، مرشد

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

’’آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر میں حکم دوں تو آپ نوکری چھوڑ دیں گے۔ اللہ کا حکم تو آپ مانتے نہیں، میرا حکم کیا مانیں گے؟ اللہ کا حکم ماننا ہے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے مانیں، مجھے خوش کرنے کے لیے نہیں‘‘۔ میاں صاحب نے برہمی سے کہا۔ محفل پر سنّاٹا چھا گیا۔ میری حالت یہ کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں۔ کیا کروں… اگر وہاں کوئی ’’بِل‘‘ ہوتا اور میں اس میں سما سکتا تو ضرور اس میں جا گْھستا۔ جا چْھپتا۔ میاں صاحب پھر مجھ سے گویا ہوئے۔ ’’میں آپ کو حکم نہیں دوں گا۔ آپ کے لیے دعا کروں گا۔ اگر آپ کی طلب سچّی ہے تو اللہ آپ کے لیے ضرور راستہ نکالے گا‘‘۔ تب مجھے پتا چلا کہ صحراؤں میں بادِ نسیم کس طرح چلتی ہے۔ ویرانے میں چپکے سے بہار کس طرح آتی ہے اور بیمار کو بے وجہ قرار کیوں آجاتا ہے۔
یہ میری میاں طفیل محمد سے پہلی رو بہ رو گفتگو تھی۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب کی دعا سن لی اور میری طلب کی سچّائی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔ میں نے انشورنس کمپنی چھوڑی۔ وکالت اختیار کی۔ وکالت چھوڑی، ٹیکسٹائل سیکٹر میں مینیجر ایڈمن کی ملازمت کی۔ پھر میاں محمد شوکت نے مجھے جماعت اسلامی کے کاموں میں ہمہ وقت مصروف کر لیا۔ یہاں تک کہ 2001 آگیا اور۔۔۔
میں 1973 کے وسط سے اواخر 1977 تک جمعیت کا رکن رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میاں طفیل محمد پہلی بار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی زندگی میں جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنا خود ایک بڑا امتحان تھا لیکن اس سے بڑا امتحان یہ تھا کہ 1970 کے انتخابات کی شکست خوردہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں دفاع پاکستان کے لیے جو بھی اقدامات کیے تھے، 1971 کی فوجی شکست کے نتیجے میں وہ سب الزامات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ مالاکنڈ اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کرنے پر جماعت سے نالاں عناصر اسے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اسی قبیل کے لوگ 1972 میں اچھل اچھل کر البدر اور الشمس کے بارے میں سوال کرتے اور جماعت اسلامی کو بنگالیوں کے قتل کا مجرم ٹھیراتے تھے۔ (یہ روش آج تک جاری ہے) جماعت اسلامی مشرقی پاکستان، قاتلوں کے نرغے میں تھی۔ بنگالی ارکان چھپتے پھر رہے تھے۔ غیر بنگالی ارکان یا تو مارے جا چکے تھے یا ہجرتوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ خرّم مراد جیسا قیمتی آدمی بھارت میں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں دشمنوں کے قبضے میں تھا۔ بچے کھچے پاکستان میں صدمات سے دوچار، طعن و تشنیع کا شکار جماعت اسلامی، بھٹو کی فسطائیت کی زد میں تھی۔ اک حشر بپا تھا۔ ایک طوفان ِ بلا خیز مسلّط تھا اور اس منجدھار میں جماعت اسلامی کی نیّا کا کھویّا، ایک فقیر منش، دیہاتی مزاج کا حامل، سادہ دل لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ 1937 کا لا گریجویٹ تھا، جس نے یہ امتحان پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا تھا جو اگر چاہتا تو متحدہ ہندوستان میں وکالت کا آغاز کر کے قیام پاکستان تک اپنے آپ کو مستحکم رکھتا۔ پھر جی چاہتا تو وکالت کرتا آئین پاکستان سے اٹکھیلیاں کرتا، سیاسی آمریتوں کو مضبوط کرتا، فوجی حکمرانوں کا پیر مغاں بنتا۔ جہاں پیرزادوں کی پانچوں گھی میں ہوتی رہیں، وہاں یہ پیر مغاں چاہتا تو حلوائی کی آدھی دکان اپنے نام کرالیتا۔ جی چاہتا تو عدالت لگا کر انصاف فروخت کرتا۔ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتا پھر نظریہ ضرورت ایجاد کرکے باغباں کو بھی خوش کرتا اور صیاد کو بھی راضی کرلیتا لیکن کپور تھلہ کے اس درویش نے 1941 میں نقد ِ جاں کا جو سودا کیا تھا 1972 میں اس سودے کی سچائی کے میزان میں تلنے کا وقت آیا تو یہ درویش اس میزان پر پورا اترا، الحمد للہ۔
1972 سے 1987 تک میاں صاحب بظاہر امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے لیکن کوئی ان سے پوچھتا تو وہ کہتے کہ وہ عرصہ محشر میں تھے۔ بھٹو شاہی میں ان کے ساتھ جیلوں میں تشدد ہوا۔ تلاشی کے نام پر ان سے بے ہودگی کی گئی۔ ان کی ڈاڑھی کھینچی گئی۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا۔ ان کے روحانی بیٹے، اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان مسلسل پس ِ دیوار زنداں دھکیلے جاتے رہے۔ جماعت اسلامی سے متعلق لوگوں نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا رکھا تھا، ان تعلیمی اداروں کو قومیالیا گیا۔ جماعت کے لوگ اپنے اثاثوں سے محروم ہو گئے، ان تعلیمی اداروں کے ملازمین جو نظریاتی اثاثہ تھے اچانک سرکاری ملازم بن گئے۔ اور اس طرح جماعت ان کی صلاحیتوں سے محروم ہو گئی۔
1977 میں جماعت اسلامی نے میاں صاحب کی قیادت میں پی این اے کی تشکیل اور تنظیم میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1977 میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد پی این اے نے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔ اس فیصلے پر جماعت اسلامی میں شروع سے دو رائے پائی جاتی تھیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ میاں صاحب کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا فیصلہ تھا جس سے اختلاف کا حق استعمال کرنے والوں کو میاں صاحب نے کبھی صف دشمناں میں نہیں گنا، حالانک ہمارے مروجہ سیاسی نظام میں اختلاف رائے کو قائد سے غداری کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہر قائد اپنے طریقے سے ٹھکانے لگاتا ہے۔ کوئی علی الاعلان موت کا حق دار قرار دے کر اور کوئی چپ چپاتے کھڈے لائن لگا کر… تنظیم میں رہتے ہوئے عضو معطل بنا کر…
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی میاں صاحب چاہتا تو کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے، کاشف سعید شیخ

اپنے پیغام میں جماعت اسلامی سندھ کے امیر نے کہا کہ آج قوم بے انتہا مشکلات سے دوچار اور ملک اغیار کی غلامی میں جکڑ چکا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان محض ایک ملک کا نہیں بلکہ ایک نظریے، فکر و فلسفہ کا نام ہے، عوام نظریہ پاکستان اور ملک کے اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ پاکستان کا ایک مقصد تھا، پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست نہیں بن سکا، یہاں کے لوگوں کو عدل و انصاف نہیں ملا، یہاں کے بچوں کو تعلیم نہیں ملی اور نہ ہی نوجوانوں کو ان کی قابلیت پر میرٹ کی بنیاد پر روزگار ملا، کیونکہ 78 برس سے اس ملک پر انگریزوں کے ایجنٹوں نے حکومت کی، سیاسی و معاشی دہشتگردوں نے اس ملک کو جغرافیائی و نظریہ کے لحاظ سے تباہ کیا، اپنے ہی ملک میں لوگ مہاجر بنا دیئے گئے ہیں، حمودالرحمان کمیشن کے مطابق ملک کو تقسیم کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتیں تو آج وطن عزیز کے یہ حالات نہ ہوتے۔

78ویں یوم آزادی کے موقع پر اپنے پیغام کاشف سعید شیخ نے کہا کہ آج ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دھرانا ہے کہ پاکستان کو اسلامی، خوشحال اور مدینہ منورہ کی طرز پر ایک اسلامی ریاست بنا کر بانی پاکستان قائداعظمؒ کا خواب شرمندہ تعبیر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ منورہ کے بعد پاکستان دنیا کی پہلی ریاست تھی جو کہ اسلام و کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آئی، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ملک پر برسراقتدار آنے والے حکمران ٹولے و مفاد پرست جرنیلوں نے اس ملک پر حکومت کی، جبکہ ظالم جاگیرداروں اور کرپٹ سرمایہ داروں نے مل کر اس ملک کو لوٹا، ان لوگوں نے ہمیشہ اپنے اقتدار کو طول اور مفادات کی تکمیل کیلئے قرارداد مقاصد کو فراموش کر دیا، جس کی وجہ سے آج قوم بے انتہا مشکلات سے دوچار اور ملک اغیار کی غلامی میں جکڑ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں نہ عدل ہے، نہ انصاف، نہ تعلیم، نہ صاف پانی ہے، یہاں رزق حلال اور انصاف کے دروازے بند ہیں۔

کاشف سعید شیخ نے کہا کہ کلمہ طیبہ کے نام سے حاصل ہونے والے ملک میں اللہ کے گھروں مساجد کو شہید، سودی نظام معیشت کے ذریعے اللہ کے عذاب کو دعوت دی جا رہی ہے، اللہ نے اس ملک میں سب کو موقع دیا، سب نے حکومتیں کیں، مگر ہر بار ان لوگوں نے قوم کو مایوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اس ملک میں کرپشن فری پاکستان مہم اور شریعت کے نفاذ کیلئے جدوجہد کر رہی ہے، تاکہ پاکستان حقیقی معنی میں ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بن سکے، اس لیے اب قوم سے درخواست کرتے ہیں کہ اس ملک کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کیلئے جماعت اسلامی کو موقع دیں۔

متعلقہ مضامین

  • خواجہ آصف ، پرتگال اور زیر الزام بیوروکریٹس
  • 14 اگست کا مبارک دن اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے، کاشف سعید شیخ
  • پاکستان صرف امت نہیں بلکہ دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کا ترجمان ہوگا، حافظ نعیم
  • 78 برس گزرنے کے باوجود پاکستان پر کرپٹ ٹولہ قابض ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • حکومت اور اپوزیشن مل بانٹ کر کھانے کے ماہر:حافظ نعیم
  • کراچی کے نوجوانوں کیلئے سرکاری نوکریوں کے دروازے بند ہیں( حافظ نعیم)
  • قومی اہمیت کے دنوں پر پی ٹی آئی کا احتجاج معمول بن گیا ہے، خواجہ آصف
  • میاں شہباز شریف کی تمام جماعتوں کو میثاق پاکستان کا حصہ بننے کی دعوت
  • پاکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے، کاشف سعید شیخ
  • جماعت اسلامی کراچی کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی: حافظ نعیم