دنیا بھر کے اہل عقیدت کربلا جا رہے ہیں اور اہل پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشہور امریکی صحافی جکسن ہینکل نے ٹویٹ کیا کہ میں اربعین واک کے لیے عراق جا رہا ہوں، ان کی اس ٹویٹ سے کمنٹس کا ایک طوفان آگیا۔ جکسن امریکہ میں رہتے ہیں مگر یوں سمجھیے ان کی روح فلسطین میں رہتی ہے۔ وہ ہر وقت اہل فلسطین کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور امریکی فیصلہ سازوں کی منافقت اور اسرائیلی مظالم کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف مسلسل مہم چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں مگر جیسے ہی انہوں نے عراق اور مشی پر جانے کا اعلان کیا آل سعود اور استعمار کے گماشتے ان پر حملہ آور ہوگئے کہ وہ آخر کیوں اس واک میں شریک ہو رہے ہیں؟ سب سے قابل رحم حالت ان کوتاہ فکر لوگوں کی تھی جو ایک مذہب سے بھی آزاد خیال جکسن کو یہ سمجھا رہے تھے کہ کربلا جانا شرعی طور پر حرام ہے اس لیے آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیئے۔ یہ خطے پر امریکی اسلام کے اثرات ہیں جو لوگوں کو حریت پسندوں کے امام کی زیارت سے روکتے ہیں۔ جکسن نے عراق پہنچ کر فلسطین کانفرنس میں شرکت کی اور بہت بہترین انداز میں اہل فلسطین کا مقدمہ پیش کیا۔ اب وہ مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں کہ کیسے اربعین واک دنیا بھر کے مظلوموں بالخصوص اہل فلسطین کے لیے آواز بن رہی ہے۔ بچے، جوان اور مزاحمت کار کیسے نسل پرستوں اور نسل کشی کرنے والوں کے خلاف ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
سچی بات ہے آج کل سوشل میڈیا کو اس لیے نہیں دیکھ رہا کہ ہر طرف اربعین کی ویڈیوز اور مشی کے تذکرے ہیں۔ جسم یہاں اور دل اسی راستے پر ہے، یوں لگتا ہے وہیں کہیں ہم بھی عازم کربلا ہیں۔ اللہ کے تکوینی ارادے کی طاقت کا عملی اظہار ہے آج لوگ عراقی صحرا کی پچپن درجہ حرارت گرمی میں سوئے کربلا بڑھ رہے ہیں۔اہل عراق کے جود و سخی اور محبت اہلبیتؑ بلکہ عشق اہلبیتؑ کی ایسی حیرت انگیز مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کل برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ جب سماج اپنے والدین کو گھروں سے باہر نکال رہا ہے تو محبت حسینؑ یہ تربیت کر رہی ہے کہ سنت ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے مہمانوں کو تلاش کرو اور گھر لا کر ان کی بہترین خدمت کرو۔
اس بار اہل پاکستان کی کمی کو ایران و عراق ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ کچھ فلائٹس چلیں اور خوش قسمت عشاق حسینؑ مشی میں کربلا پہنچ گئے مگر ہزاروں کی تعداد میں غریب زائرین اپنی حسرتیں لیے وطن میں ہی منتظر رہ گئے، حکومت نے بلوچستان میں جو مسائل بتائے ہیں وہ یقینا ہوں گے اور پچھلے ایک ہفتے میں بلوچستان میں ایک سو سے زیادہ دہشتگردوں کی ہلاکتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ واقعات کچھ بڑی پلاننگ کی گئی تھی جس کی بھنک ہمارے اداروں کو پڑ گئی۔ اس سب سے زائرین کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ فوری طور پر فلائٹس چلیں گی۔ آج کی تاریخ تک اس میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی غالبا صرف ایک فلائٹ غالبا کوئٹہ سے تفتان ہوئی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بار بار اس پر بحث ہو رہی ہے اور حکومت سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔ یہ بہت بڑی نااہلی ہے بلوچستان کے حالات سب کے سامنے تھے اور ہمارے وزیر داخلہ محترم جناب محسن نقوی صاحب کبھی ایران اور کبھی عراق اربعین کے حوالے سے مسلسل مصروف نظر آئے۔ سچ پوچھیں تو ہم پر امید تھے کہ اس بار ہمیں اربعین میں زیادہ سہولیات مسیر آئیں گی اور بڑی تعداد میں اہل وطن اربعین کے موقع پر شریک مشی ہو سکیں گے۔ ویزے اور چند ابتدائی معاملات کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی سننے کو ملیں۔
میٹنگز اور ساری دوڑ دھوپ کا نتیجہ صفر نکلا کہ زائرین کے سفرِ اربعین پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ حکومت پورا سال سوئی رہتی ہے اور آخری ماہ میں بہت سے ایس او پیز یاد آ جاتے ہیں۔ اللہ کے بندوں لاکھوں اہل وطن کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہو، کسی نے عمر بھر پائی پائی جمع کرکے نواسہ پیغمبرﷺ کے پاس جانے کے وسائل مہیا کیے ہیں، کچھ نے کمیٹیاں ڈالی ہیں، کچھ نے جانور فروخت کیے ہیں اور کچھ تو قرض لے کر عازم کربلا ہونا چاہتے تھے مگر بیروکریسی کی نااہلیوں کی وجہ سے ان جذبات کا خون کیا گیا۔ ہر سال یہ شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ فیری سروس شروع کی جائے گی۔ اب تو یہ لگنے لگا ہے کہ یہ باقاعدہ ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے کہ اس طرح کے بیانات دے کر اہل وطن کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے اور جیسے ہی اربعین گزر جائے پھر سے خواب خرگوش میں مبتلا ہو جائیں۔
یہاں ہر طرح کا مافیا عروج پر ہے ،بائی ائر روٹ والے اور بسوں کے کاروبار سے وابستہ طاقتور گروہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ فیری سروس شروع ہو، اس سے ان کے استحصال کا راستہ بند ہو جائے گا۔ بہت سے اور لوگ بھی ہیں جن کا کاروبار زائرین کے نام پر حکومتی خزانہ لوٹنے سے چلتا ہے ان کا ذریعہ آمدن بھی بند ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے یہ گروہ زائرین کے لیے کسی بھی آسانی کے خلاف ہیں۔ زاہدان سے کوئٹہ دو اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ ہے، ایک بہت موثر آپریشن ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جس سے زائرین بروقت منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ کراچی سے ایرانی بندرہ گاہ چاہ بہار تک فاصلہ 347 ناٹیکل میل ہے اور یہ سفر چودہ گھنٹے میں مکمل ہو سکتا ہے۔ یہ مہنگا بھی ہو تو پندرہ سے بیس ہزار کرایہ لگے گا۔ کراچی سے بصرہ بھی دو دنوں کا سفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت جلد از جلد اہل پاکستان کے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گا جب مختلف آپشنر ہوں گے تو سفری اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مانگنے والی زائرین کے نہیں ہو رہی تھی رہے ہیں تھے کہ رہی ہے ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
اٹلی کی ضد اور فلسطین
یورپ کے کئی ممالک نے حالیہ دنوں میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ محض سفارتی کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑے انسانی ضمیرکی آواز ہے جو برسوں سے دبائی جا رہی تھی۔
فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیم، لکسمبرگ اور مالٹا جیسے ممالک نے یہ تسلیم کر کے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی زمین اور اپنی ریاست کے جائز حق دار ہیں لیکن انھی دنوں اٹلی نے اس کے برعکس موقف اختیارکیا اور فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ اس انکار نے پورے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا۔
گلیاں چوراہے اور بڑے بڑے شہر احتجاج کی آواز سے گونج اُٹھے۔ طلبہ، مزدور، خواتین اور عام شہری ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔
یہ یورپ میں ایک نئی لہر ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے واضح کیا کہ فلسطین کو تسلیم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ برطانیہ اورکینیڈا جیسے ممالک جو ہمیشہ اسرائیل کے اتحادی رہے ہیں، اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے ایک نئے رخ پرکھڑے ہوگئے ہیں۔
یورپی ممالک میں اب رائے عامہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ہے۔ غزہ کی بربادی معصوم بچوں کی لاشیں برباد بستیاں اور ملبے میں دبے خواب یہ سب مناظر دنیا کو مجبورکر رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔
اٹلی کی حکومت مگر اس وقت ہچکچاہٹ میں گرفتار ہے، وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یہ اعلان کیا کہ اٹلی فلسطین کو صرف اس وقت تسلیم کرے گا جب اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جائے اور حماس کو مستقبل کی فلسطینی حکومت سے باہر رکھا جائے۔
یہ شرطیں دراصل فلسطین کے حق کو مزید کمزورکرنے کی کوشش ہیں۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ایک نئی دیوار ہے جو فلسطینی عوام کے سامنے کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ موقف دراصل امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ہے۔
اٹلی نے ماضی میں بھی فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں سے یا توکنارہ کشی اختیار کی یا ان کی مخالفت کی۔مگر سڑکوں پر عوام کا ردعمل حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ پچھلے ہفتے اٹلی میں ایک دن کی عام ہڑتال کی گئی جس کا نعرہ تھا ’’ سب کچھ بند کرو‘‘ اسکول بند، فیکٹریاں بند، ٹرانسپورٹ معطل اور مزدوروں نے بڑی بندرگاہوں پر جہازوں کو لنگر انداز ہونے سے روک دیا۔
یہ احتجاج محض جذباتی نہیں بلکہ سیاسی اعلان تھا کہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا، اب ایک اخلاقی ذمے داری ہے۔ مزدور، طلبہ، خواتین سب ایک ہی پیغام دے رہے تھے کہ یہ مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔
یورپ اس وقت ایک بار پھر تقسیم کے دہانے پر ہے۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جنھوں نے فلسطین کو تسلیم کر لیا۔ دوسری طرف وہ حکومتیں ہیں جو امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے کھڑی ہیں۔ اٹلی اس دوسری صف میں ہے، مگر اس کے عوام اپنی حکومت کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب عوامی رائے مسلسل اور مضبوط ہو جائے تو کوئی حکومت زیادہ دیر تک اپنی ضد برقرار نہیں رکھ سکتی۔ آج اٹلی کے نوجوان اور مزدور جب فلسطین کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تو وہ صرف ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ان کی یہ آواز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں سب کے لیے انصاف ہو۔
یہ مسئلہ صرف سفارتی تسلیم کا نہیں بلکہ ایک بڑے اخلاقی سوال کا ہے۔ دنیا مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا طاقتور کے ظلم کے سامنے جھک جائے گی؟ بایاں بازو ہمیشہ اس سوال کا جواب یکجہتی میں دیتا رہا ہے۔ ویتنام جنوبی افریقہ اور اب فلسطین مظلوموں کی جدوجہد نے ہمیشہ عالمی حمایت حاصل کی ہے۔ اٹلی کے احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یورپ کے دل میں انصاف کی چنگاری ابھی زندہ ہے۔
اٹلی کی حکومت نے وقتی طور پر اسرائیل اور امریکا کو خوش کر لیا ہے مگر اپنی عوام کو ناراض کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھی جھکنا پڑے گا کیونکہ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ مظلوموں کی جدوجہد کے ساتھ گھومتا ہے۔
فلسطین کو تسلیم کرنا کوئی احسان نہیں بلکہ ایک دیرینہ ناانصافی کی تصحیح ہے۔ چاہے اٹلی جتنی بھی دیر کرے عوامی احتجاج اور عالمی یکجہتی یہ یقینی بنائے گی کہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو دنیا بھول نہ پائے۔
آج دنیا ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کی بات کرتی ہیں لیکن جب مظلوم فلسطینی عوام کی آواز سننے کا وقت آتا ہے تو وہ یا تو خاموش رہتی ہیں یا شرائط اور مفادات کی سیاست میں الجھ جاتی ہیں۔
دوسری طرف وہ عوام ہیں جو بغیر کسی سیاسی مفاد کے صرف انسانیت کے نام پر ظلم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اٹلی کے عوام کا احتجاج اسی دوسری صف کی نمایندگی کرتا ہے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ریاستی پالیسیاں خواہ کچھ بھی ہوں عوام کا ضمیر اگر جاگ جائے تو وہ دیواروں کو بھی ہلا سکتا ہے۔
یہ مظاہرے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ یہ عالمی اخلاق اور انسانیت کا امتحان ہے، اگر آج دنیا فلسطینی عوام کی نسل کشی اور ان کے حقِ خود ارادیت کی پامالی پر خاموش رہی تو کل یہ خاموشی کسی اور مظلوم قوم کی بربادی کا سبب بنے گی۔ یہ صرف جغرافیائی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ وہی بنیادی سوال ہے جو ہر دور میں ظالم اور مظلوم کے بیچ اٹھتا آیا ہے، کیا دنیا طاقت کے ساتھ کھڑی ہوگی یا سچائی کے ساتھ؟
اٹلی کی حکومت وقتی طور پر اسرائیل اور اس کے حامیوں کو خوش کر رہی ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی خوشنودی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ جو ریاستیں عوامی رائے کو نظراندازکرتی ہیں وہ ایک دن خود عوامی ردعمل کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔
اٹلی کے شہریوں نے جو مثال قائم کی ہے وہ باقی یورپ اور دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔وقت آ چکا ہے کہ باقی دنیا بھی اسی راہ پر چلے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا صرف ایک ریاستی فیصلہ نہیں بلکہ یہ انصاف امن اور انسانی وقارکے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو جتنا دبایا جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتا ہے اور یہی سچ ایک دن فلسطین کو آزادی دلوائے گا۔