جماعت اسلامی کراچی کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی: حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی میں بحرانوں کا انبار لگا ہوا ہے، ملک اور صوبے کو چلانے والے شہر کا کوئی پْرسانِ حال نہیں، انفراسٹرکچر تباہ حال اور شہری بجلی، پانی، سیوریج، خستہ حال سڑکوں و ٹرانسپورٹ سمیت صحت و تعلیم کے مسائل کا شکار ہیں، نوجوانوں کے لیے سرکاری نوکریوں کے دروازے بند ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مسلط کر کے کراچی کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ ٹریفک حادثات کی بنیاد پر لسانی فسادات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم یہاں ایک بار پھر لسانی فسادات کروانا چاہتی ہیں، کراچی میں ملک کے ہر علاقے اور زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں، جماعت اسلامی کراچی کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حق نہ دیا گیا اور عوام کے مسائل حل نہیں کیے گئے تو جماعت اسلامی بھر پور تحریک چلائے گی۔ ملک میں عدلیہ کو تباہ اور 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے دانت توڑ دئیے گئے ہیں اور اب 27 ویں آئینی ترمیم کی تیاری کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی نمائندوں کی نااہلی کا فیصلہ سیاسی اور قابل ِ مذمت ہے۔ ملک میں اعتماد کا بحران مزید بڑھ رہا ہے اور نوجوان مایوس ہو رہے ہیں۔ اہل غزہ و فلسطین کو بھی ہر گز تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا، ان کے حق میں احتجاج اور صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم وقت کی ضرورت ہے، یوم ِ آزادی کے فوری بعد فلسطین کے حوالے سے پورے ملک میں از سر نو تحریک چلائیں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان، نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ، سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری، ٹاؤن چیئرمین گلشن اقبال ڈاکٹر فواد، ٹاؤن چیئرمین نارتھ ناظم آباد عاطف علی خان، ٹاؤن چیئرمین لیاقت آباد فراز حسیب، سیکرٹری پبلک ایڈ کمیٹی نجیب ایوبی، نائب صدر عمران شاہد و دیگر بھی موجود تھے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی
پڑھیں:
ائیر انڈیا کا جہاز کیا پائلٹ نے تباہ کیا؟
بھارت کے شہر، احمد آباد میں گزشتہ ماہ ایئر انڈیا کا طیارہ اڑان بھرتے ہی تباہ ہو گیا تھا۔اس حادثے میں 260 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بارے میں نئی تفصیلات وسط جولائی میں سامنے آگئیں۔ان تفصیلات میں طیارہ گرنے سے قبل آخری لمحات کے دوران سینئر پائلٹ کی کارروائیوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ممتاز امریکی اخبار ، وال اسٹریٹ جرنل نے 16جولائی کو ایک رپورٹ شائع کی۔اس رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ، شواہد کے ابتدائی جائزے یعنی دونوں پائلٹوں کے درمیان آخری گفتگو کی بلیک باکس آڈیو ریکارڈنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاز کے کپتان نے ہوائی جہاز کے انجنوں میں ایندھن کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے والے سوئچز کو بند کر دیا تھا۔
پچھلے ہفتے ہی انڈیا کے ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (اے اے آئی بی) کی ابتدائی رپورٹ میں پتا چلا کہ جہاز کے دونوں انجن ایک سیکنڈ کے اندر بند ہو گئے تھے۔اس وجہ سے جہاز کی اونچائی کو فوری طور پر نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں طیارہ احمد آباد کے ایک گنجان آباد مضافاتی علاقے میں جا گرا ۔ تاہم،اس رپورٹ میں، جس میں کہا گیا تھا کہ ایندھن پر قابو پانے والے سوئچز "کٹ آف" پوزیشن پر چلے گئے تھے،سئینر اور جونئیر، دونوں پائلٹوں کو اس واقعے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔بھارت میں کمرشل پائلٹوں کے دو گروپوں نے بھی ان تجاویز کو مسترد کر دیا ہے کہ ہو سکتا ہے، انسانی غلطی اس تباہی کا سبب بنی ہو۔
ایئر انڈیا کی فلائٹ کا کیا ہوا؟
12 جون کو دوپہر 1بجکر 38 منٹ پر(08:08 GMT) ایئر انڈیا کی پرواز 171 نے احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے لندن گیٹوک ہوائی اڈے جانے کے لیے اڑان بھری ۔اس میں 230 مسافر، 10 کیبن عملہ اور دو پائلٹ سوار تھے۔
ٹیک آف کے تقریباً 40 سیکنڈ بعد ہوائی جہاز، بوئنگ 787 ڈریم لائنر کے دونوں انجن ابتدائی چڑھائی کے دوران بجلی سے محروم ہو گئے۔ اس کے بعد طیارہ رن وے سے 1.85 کلومیٹر (1.15 میل) دور آبادی والے مضافاتی علاقے میں واقع بی جے میڈیکل کالج ہاسٹل سے ٹکرا گیا۔
طیارہ عمارت سے ٹکرانے سے ٹوٹ گیا، جس سے اس میں آگ لگ گئی۔اس آگ سے پانچ عمارتوں کے حصے جل گئے۔ ہوائی جہاز میں سوار تمام مسافروں کی موت ہو گئی سوائے ایک کے ، وشواس کمار رمیش، ایک 40 سالہ برطانوی شہری جو ہندوستانی نژاد ہے۔ زمین پر موجود 19 افراد بھی ہلاک اور 67 زخمی ہوئے۔
اے آئی بی کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
اے اے آئی بی بوئنگ کمپنی، امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین کے ساتھ مل کر حادثے کی تحقیقات کر رہا ہے جو ایک دہائی میں ہوا بازی کا سب سے مہلک واقعہ کہا جاتا ہے۔ جولائی کے دوسرے ہفتے جاری ہونے والی تفتیش کاروں کی ابتدائی رپورٹ میں پتا چلا کہ طیارے کوسفر کے قابل سمجھا گیا تھا، اس کی جدید ترین دیکھ بھال کی گئی تھی اور اس میں کوئی خطرناک سامان نہیں تھا۔
لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018ء کی یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن ایڈوائزری نے ڈریم لائنر سمیت کچھ بوئنگ طیاروں کے فیول کنٹرول سوئچ سسٹم میں ممکنہ خامی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایئر انڈیا نے سسٹم کا معائنہ نہیں کیا اور اس کے لیے ایسا کرنا لازمی نہیںتھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حادثے کے دوران ریکوری سسٹم چالو ہو گیا تھا لیکن ایک انجن میں صرف جزوی ریلیٹ نے جنم لیا یعنی وہ پھر چل پڑا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔
دونوں انجن ٹیک آف کے فوراً بعد بند ہو گئے کیونکہ ایندھن کے سوئچز(Fuel Switches) "رن" سے "کٹ آف" پوزیشن پر منتقل ہو گئے۔ رپورٹ میں ایک بلیک باکس آڈیو ریکارڈنگ کا حوالہ دیا گیا جس میں ایک پائلٹ نے پوچھا، "آپ نے (ایندھن) کیوں کاٹ دیا؟" اور دوسرے نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ رپورٹ کی رو سے مقررین کی شناخت نہیں ہو سکی۔
ہنگامی اقدامات کرنے کے باوجود صرف ایک انجن جزوی طور پر دوبارہ شروع ہوا اور عمارت سے ٹکرانے سے چند لمحے پہلے اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے سے پہلے "مے ڈے" کال جاری کی گئی۔
ایئر ٹریفک کنٹرول کو اس ایمرجنسی کال کے بعد کوئی جواب نہیں ملا لیکن اس نے طیارے کو ہوائی اڈے کی حدود سے باہر گرتے دیکھا۔ ہوائی اڈے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں فلائٹ ریکوری سسٹم میں سے ایک دکھایا گیا جسے رام ایئر ٹربائن (Ram Air Turbine) کے نام سے جانا جاتا ہے۔وہ سسٹم لفٹ آف کے فوراً بعد تعینات ہوتا ہے جس کے بعد تیزی سے نیچے اترتا دکھائی دیتا ہے۔
پائلٹ کون تھے؟
56 سالہ کیپٹن سومیت سبھروال نے پرواز میں پائلٹ ان کمانڈ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ ایک نرم گو تجربہ کار پائلٹ تھا جس نے 15,600 سے زیادہ پرواز کے اوقات لاگ ان کیے تھے، جن میں سے 8,500 بوئنگ 787 پر تھے۔ سبھروال اپنی مخصوص طبیعت، محتاط عادات اور جونیئر پائلٹوں کی رہنمائی کے لیے جانا جاتا تھا۔
اس نے ہندوستان کے پریمیئر ایوی ایشن اسکول، اندرا گاندھی راشٹریہ یوران اکیڈمی میں تربیت حاصل کی اور وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرنے والے دوستوں نے انہیں اچھا پائلٹ قرار دیا جواپنے کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانا چاہتا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ اپنے بوڑھے والد کی دیکھ بھال بھی تندہی سے کر رہاتھا۔انھوں نے اچھے لفظوں میں اپنے ساتھی اور سول ایوی ایشن کے سابق اہلکار کو بھی یاد کیا۔
32 سالہ فرسٹ آفیسر کلائیو کنڈر حادثے کے وقت طیارے کو اڑانے والا پائلٹ تھا جبکہ سبھروال اس کی نگرانی کر رہا تھا۔کنڈر نے 3,400 سے زیادہ پرواز کے گھنٹے جمع کیے تھے جن میں ڈریم لائنر پر 1,128 گھنٹے شامل تھے۔ اڑان اس کا بچپن کا خواب تھا کہ کلائیو کنڈر کی والدہ کے بطور ایئر انڈیا فلائٹ اٹینڈنٹ کے تیس سالہ کیریئر سے ازحد متاثر تھا۔
انیس سال کی عمر میں اس نے امریکہ میں تربیت حاصل کی اور 2017 میں ایئر انڈیا میں شامل ہونے کے لیے بھارت واپس آنے سے پہلے کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق کلائیو کنڈر کو خاندان اور دوستوں کی طرف سے خوش کن، متجسّس اور ٹیک سیوی کے طور پر بیان کیا گیا۔ کنڈر کو ہوا بازی کا شوق تھا اور وہ بوئنگ 787 اڑانے کے لیے پُرجوش بتایا گیا۔
رپورٹ میں کیا سامنے آیا ہے؟
امریکی حکام جنہوں نے حادثے کے شواہد کی جانچ کی ،ان کے قریبی ذرائع نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا، کاک پٹ کی آواز کی ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ یہ سبھروال ہی تھا جس نے ٹیک آف کے بعد فیول کنٹرول سوئچز کو "کٹ آف" پر منتقل کیا تھا، ایسا عمل جس سے دونوں انجنوں کی پاور کٹ گئی۔
سوئچز کو چند سیکنڈ بعد دوبارہ آن کر دیا گیا، لیکن بھاری بھرکم ہوائی جہاز کے لیے مکمل زور دوبارہ حاصل کرنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔وال سٹریٹ جرنل رپورٹ میں نامعلوم امریکی پائلٹوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فلائنگ پائلٹ کے طور پر کنڈر کی ساری توجہ جہاز اڑانے پر مرکوز تھی اور اس دوران جہاز اڑانے والے پائلٹ کے لیے بالکل یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سوئچز میں ہیرا پھیری کر سکتا۔ سبھروال اس وقت نگرانی کے پائلٹ کے طور پر کردار نبھا رہا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔
ایندھن کو کنٹرول کرنے والے سوئچز
پائلٹوں کی دو سیٹوں کے درمیان ،تھروٹل لیورز کے بالکل پیچھے، ایک کلیدی کاک پٹ پینل پر واقع یہ سوئچز ہوائی جہاز کے دو انجنوں میں سے ہر ایک میں ایندھن کے بہاؤ کا انتظام کرتے ہیں۔
پائلٹ زمین پر رہتے ہوئے انجن کو شروع کرنے یا بند کرنے کے لیے ایندھن کے کٹ آف سوئچ کا استعمال کرتے ہیں۔ پرواز میں پائلٹ ناکامی کی صورت میں انجن کو دستی طور پر بند یا دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔
سوئچ کیسے کام کرتے ہیں؟
سوئچ دستی آپریشن کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے رہنے کے لیے اسپرنگ سے لدے ہوتے ہیں اور فلائٹ آپریشن کے دوران حادثاتی طور پر یا ہلکے دباؤ کے ساتھ منتقل نہیں ہو سکتے۔
سوئچ کی دو سیٹنگیں ہیں: "کٹ آف" اور "رن"۔ "کٹ آف" موڈ ایندھن کو انجن تک پہنچنے سے روکتا ہے جبکہ "رن" ایندھن کے معمول کے بہاؤ کی اجازت دیتا ہے۔ پوزیشن تبدیل کرنے کے لیے پائلٹ کو سب سے پہلے سوئچ کو "رن" اور "کٹ آف" کے درمیان منتقل کرنے سے پہلے اوپر کی طرف کھینچنا ہوتا ہے۔
کیا حادثہ انسانی غلطی کی وجہ ؟
ماہرین اس بارے میں محتاط ہیں۔ امریکی ایوی ایشن تجزیہ کار ، میری شیاوو نے بھارت کے اخبار، فنانشل ایکسپریس کو بتایا کہ لوگوں کو وقت سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ابھی تک پائلٹ کی غلطی کا کوئی قطعی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔اس نے اسی طرح کے ایک واقعے پر روشنی ڈالی ۔اس واقعے میں 2019 میں اوساکا، جاپان جاتے ہوئے دوران پرواز آل نپون ایئر ویز بوئنگ 787 کے ایک انجن نے اچانک کام کرنا بند کر دیا تھا۔ یہ پرواز مگر پائلٹوں کی دانشمندی اور تجربے کاری کی بدولت اترنے میں کامیاب رہی۔
تفتیش کاروں کو بعد میں پتا چلا کہ طیارے کے سافٹ ویئر نے غلطی سے طیارے کے مرکزی نظام کو یہ باور کرا دیا کہ وہ زمین پر کھڑا ہوا ہے ۔اس عمل نے طیارے میں ایک سسٹم، تھرسٹ کنٹرول میں خرابی رہائش کے نظام کو متحرک کر دیا ۔اس سسٹم نے پائلٹس کی طرف سے کسی کارروائی کے بغیر خود بخود فیول سوئچ کو "رن" سے "کٹ آف" میں منتقل کرڈالا۔شیاوو خبردار کرتے ہوئے کہتی ہے، ایئر انڈیا کے حادثے میں بھی اسی طرح کی خرابی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔اس نے گمراہ کن تشریحات سے بچنے کے لیے مکمل کاک پٹ وائس ریکارڈر (CVR) ٹرانسکرپٹ جاری کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔وہ کہتی ہے’’کاک پٹ وائس ریکارڈر کی اب تک جو گفتگو سامنے آئی ہے، وہ یہ نہیں بتاتی کہ وہ کوئی پائلٹ خودکشی کرنا چاہتا تھا۔یا وہ اپنے ساتھ سبھی مسافروں کو بھی ہلاک کرنا چاہتا تھا۔میں سمجھتی ہوں کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر پر آوازوں، الفاظ اور آوازوں کا احتیاط سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔"
امریکی اخبار میں شائع شدہ رپورٹ پر انڈیا کی فیڈریشن آف انڈین پائلٹس نے تنقید کی۔ ایک عوامی بیان میں فیڈریشن نے نوٹ کیا کہ رپورٹ سی وی آر کے اقتباسات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس میں جامع ڈیٹا کا فقدان ہے۔
"شفاف ڈیٹا سے چلنے والی تحقیقات سے پہلے کسی ایک پائلٹ پر الزام لگانا قبل از وقت اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ عملے کی پیشہ ورانہ مہارت کو مجروح کرتا اور ان کے اہل خانہ کو بے جا تکلیف پہنچاتا ہے۔
ایئر انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو، کیمبل ولسن نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ آنے کے بعد عملے پر زور دیا کہ وہ حادثے کی وجوہ کے بارے میں قبل از وقت کوئی نتیجہ نہ نکالیں، اور کہا کہ تحقیقات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔