UrduPoint:
2025-10-04@23:35:49 GMT

ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیوں کو باضابطہ ختم کر دیا

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیوں کو باضابطہ ختم کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز شام پر امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کے اس ملک کی بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ تھلگ رہنے کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔

امریکہ نے شام کے خلاف پابندیوں کے پروگرام کو سن 2004 میں نافذ کیا، جو اب تک جاری تھا اور اس کے تحت شام پر دور رس پابندیاں عائد کی گئیں، جس سے مرکزی بینک سمیت بیشتر ریاستی ادارے متاثر ہوئے۔

شام: چرچ میں بم کے پیچھے داعش سے الگ ہونے والا گروہ کون ہے؟

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ "یہ ملک کے استحکام اور امن کے راستے کو فروغ دینے اور اس کی حمایت کرنے کی ایک کوشش ہے۔

(جاری ہے)

"

اسد کے خلاف پابندیاں برقرار

لیویٹ نے مزید کہا کہ امریکہ کے اس اقدام کے تحت شام کے سابق صدر بشار الاسد اور ان کے ساتھیوں پر پابندیاں برقرار ہیں جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں، منشیات کے اسمگلروں، کیمیائی ہتھیاروں کی سرگرمیوں میں ملوث افراد، دولت اسلامیہ، داعش سے وابستہ افراد اور ایرانی پراکسیز پر پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جرمنی: شامی ڈاکٹر کو انسانیت کے خلاف جرائم پر عمر قید‍

ٹرمپ کے حکم نامے میں امریکی محکمہ خارجہ کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے وہ اسلامی گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے اپنے پہلے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ واضح رہے کہ شام کی عبوری حکومت بڑی حد تک اسی گروپ پر مشتمل ہے۔

امریکہ نے شام کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے ساتھ ہی ایچ ٹی ایس اور اس گروہ سے وابستہ ملک کے عبوری صدر احمد الشرع کو بھی دہشت گرد قرار دے رکھا تھا اور اب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ان پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے اس کا جائزہ لینے والے ہیں۔

جنوبی شام میں اسرائیلی حملوں سے جانی و مالی نقصان

ٹرمپ کے اقدام کا خیر مقدم

شام کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں امریکی اقدام کو ایک "اہم موڑ" قرار دیا۔

انہوں نے لکھا، "معاشی بحالی کی راہ میں حائل اس بڑی رکاوٹ کے ہٹنے کے ساتھ ہی تعمیر نو اور ترقی کے لیے طویل انتظار کے دروازے کھل رہے ہیں۔

" انہوں نے کہا، "بے گھر ہونے والے شامیوں کی اپنے وطن میں باوقار واپسی کے لیے" یہ سازگار حالات ہیں۔

گزشتہ مئی میں سعودی عرب اور ترکی کی اپیلوں کے رد عمل میں ٹرمپ نے پہلے ہی شام کو زیادہ تر پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔

گزشتہ دسمبر میں موجودہ عبوری صدر احمد الشرع کی کمان میں اسلام پسند باغیوں نے ایک تیز کارروائی کی اور اس طرح اسد کو معزول کر دیا گیا۔ اس کے بعد شام نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کی تعمیر نو کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور اس کے لیے

پڑھیں:

لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے، اعترافی بیان جاری کرنے پر پابندی عائد کردی

لاہور:

لاہور ہائی کورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا اور زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ملزمان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ کسی میڈیا پرسن کو زیر حراست ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دے گا، زیر حراست ملزم کا انٹرویو اس کی عزت نفس اور مستقبل کو داؤ پر لگا دیتا ہے، زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے افسر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہوگی، زیر حراست ملزم کے انٹرویو کی تمام ذمہ داری تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ پر ہوگی۔

عدالت نے بتایا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے کردار کو ریگولیٹ کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکوں اور چیک پوسٹوں پر میڈیا نمائندوں کو ساتھ کھڑا کر کے شہریوں کی تذلیل کرنا افسوس ناک ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا پورا حق ہے، میڈیا میں مقبولیت کے لیے شہریوں کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شہرت کی خواہش بذات خود قابل اعتراض نہیں ہے۔

مذکورہ مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی اور زیر حراست ملزمان کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عزت نفس مجروح کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جبکہ پولیس، ایکسائز، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ زیر حراست ملزمان کے انٹرویو سے نہ صرف ملزم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے  بلکہ پراسیکیوشن کا کیس بھی کمزور ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے نہ صرف قانونی اور اخلاقی سوالات جنم لیتے ہیں بلکہ فوجداری نظام انصاف کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کا وقار ناقابل تسخیرہے جو پولیس کے دروازے پر ختم نہیں ہوسکتا، کسی ملزم کی قانونی گرفتاری اس کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے ہر شہری کو عزت اور قانون کے مطابق دیکھا جائے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ دوران حراست ملزمان کے انٹرویو میڈیا ٹرائل کی ایک شکل ہے، میڈیا ٹرائل کا مطلب ہے کہ کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کو بے گناہ یا قصور وار ڈکلیئر کرنے کے لیے عوامی رائے قائم کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ میڈیا معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لائن کراس نہ کرے، میڈیا کو عدلیہ اور تفتیشی کی ڈومین سے تجاوز کر کے اوپر نہیں جانا چاہیے، میڈیا کے ذریعے ٹرائل سے نہ صرف کام خراب ہوتا ہے بلکہ ملزم کے فئیر ٹرائل پرائیویسی بھی کمپرومائز ہوتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی زیر حراست ملزم کو میڈیا تک رسائی دینے اور انٹرویو کرانے پر تفتیشی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوگا، اس کیس میں ایک طرف  آئین میں دی گئی میڈیا کی آزادی اظہار اور دوسری طرف ملزم کے فئیر ٹرائل اور بنیادی حقوق  کو بیلنس کرنا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کیا کہ میڈیا کو زیر التوا ٹرائل اور تحقیقات کی درست رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہے مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے، میڈیا کو غلط، ہتک آمیز، غیر پیشہ وارنہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مزید کہا گیا ہے کہ زیر حراست کا مطلب کسی بھی فرد کو قانونی طور پر گرفتار کرنا ہے، موجودہ کیس میں زیر حراست کا دائرہ وسیع کرتےہوئے ناکوں اور چیک پوسٹوں پر روکنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور اعترافی بیان میڈیا پر جاری کرنے پرپابندی عائد
  • لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے، اعترافی بیان جاری کرنے پر پابندی عائد کردی
  • لاہورہائیکورٹ ، زیرحراست ملزمان کے اعترافی بیانات نشرکرنے پرپابندی عائد
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • حماس کا جواب، ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ میں فوری حملے روکنے کا مطالبہ
  • ٹرمپ کی حماس کو غزہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کیلئے اتوار تک کی ڈیڈ لائن
  • ٹرمپ کا حماس کو معاہدہ قبول کرنے کے لیے اتوار کی شام 6 بجے تک کا الٹی میٹم
  • کمار سانو نے سابقہ اہلیہ کو الزامات عائد کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیا
  • روس نے ایران پر پابندیاں مسترد کردیں
  • ٹرمپ کے ایجنڈے پر فلسطین کا سودا کرنے والے مسلم حکمران خیانت کار ہیں، علامہ حسن ظفر نقوی