لاہور (نیوز ڈیسک) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور معروف آل راؤنڈر شاہد آفریدی ایک بار پھر کرکٹ کے میدان میں دکھائی دیں گے۔ انہیں ورلڈ چیمپئنز لیگ 2025ء کے لیے پاکستان چیمپئنز ٹیم کا کپتان مقرر کر دیا گیا۔

یہ ٹورنامنٹ ستمبر کے مہینے میں کھیلا جائے گا جس میں دنیا بھر سے ریٹائرڈ شائن اسٹار کرکٹرز شرکت کریں گے۔ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور دیگر ملکوں کی ٹیمیں بھی میدان میں اتریں گی۔

شاہد آفریدی، جنہیں ان کے بہترین کھیل اور تیز رفتار بیٹنگ کی وجہ سے “بوم بوم” کہا جاتا ہے، اب ایک بار پھر شائقین کو اپنی کارکردگی دکھائیں گے۔ ان کی قیادت میں کئی دیگر سابق پاکستانی کھلاڑی بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق اس ٹورنامنٹ کا مقصد سابق کھلاڑیوں کو کرکٹ سے جوڑے رکھنا اور شائقین کو کرکٹ کے سابقہ ہیروز کو ایک بار پھر ایکشن میں دیکھنے کا موقع ملے گا ۔

پاکستان چیمپئنز ٹیم کا مکمل اسکواڈ کا آنے والے دنوں میں اعلان کیا جائے گا۔

راولپنڈی میں سلنڈر پھٹنے سے زوردار دھماکا، 4 بچوں سمیت 7 افراد زخمی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایک بار پھر

پڑھیں:

کرکٹ اور شاعری

ادیبوں و شاعروں میں کرکٹ کے بڑے بڑے دیوانے گزرے ہیں اور اب بھی ہیں لیکن اس کھیل سے نوبیل انعام یافتہ ادیب ہیرلڈ پنٹر جیسی شیفتگی کم ہی کسی کو رہی ہوگی جن کا کہنا تھا کہ خدا نے زمین پر جو عظیم ترین چیز پیدا کی ہے وہ کرکٹ ہے۔ پنٹر اس کھیل سے حاصل ہونے والی تسکین کو انسانی وجود کی انتہائی لذت سے بھی فزوں تر قرار دیتے تھے۔

ہیرلڈ پنٹر بچپن میں سویرے سویرے اپنے دوست کے ساتھ دریائے لی کے کنارے کرکٹ کھیلنے نکل جاتے تھے جہاں درخت ان کے لیے وکٹ کا کام دیتا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ان کا خاندان یارک شائر اٹھ آیا تھا جہاں ان کے کرکٹ کے شوق کو پر لگ گئے، وہاں انہوں نے عظیم بلے باز لین ہٹن کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو پہلی نظر میں ان کے کھیل اور شخصیت کے سحر میں قید ہوگئے۔ پنٹر چاہتے تو اپنے محبوب کھلاڑی سے مل سکتے تھے لیکن اپنے طبعی شرمیلے پن کی وجہ وہ ان سے ملاقات کا حوصلہ نہیں کرسکے جس کا انہیں پھر ساری زندگی قلق رہا۔

ایک دفعہ وہ لارڈز میں بڑے شوق سے میچ دیکھنے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک اسکول کے طالب علم نے ان کو لین ہٹن کے آؤٹ ہونے کا بتایا تو وہ بجھ کر رہ گئے اور انہیں اس لڑکے پر بڑا تاؤ آیا۔

ہیرلڈ پنٹر نے لین ہٹن کےنظم و نثر میں گن گائے، انٹرویوز میں چرچا کیا، کرکٹ اور لین ہٹن سے پنٹر کا تعلق خاطر پینگوئن کے لیے شاعر اور کرکٹ رائٹر ایلن روز کے مرتب کردہ انتخاب میں شامل مضمون ’ہٹن اینڈ دی پاسٹ‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

ہیرلڈ پنٹر کی ادبی شناخت کا بنیادی حوالہ ان کی ڈراما نگاری ہے لیکن وہ شاعر کے طور پر بھی معروف ہیں، ان کی ہٹن پر گیارہ لفظی نظم ہے جسے میں نے معروف فکشن نگار اور شاعر سید کاشف رضا کے ساتھ سانجھا کیا تو انہوں نے جھٹ سے اس کا ترجمہ برقی ڈاک کے ذریعے مجھے ارسال کردیا۔

I saw Len Hutton in his prime. Another time, Another time.

’میں نے لین ہٹن کو جب دیکھا تو وہ اس کے عروج کا زمانہ تھا، کوئی اور ہی وقت تھا وہ، کوئی اور ہی زمانہ تھا۔‘

پنٹر نے نظم مکمل کرنے کے بعد فیکس کے ذریعے اسے کرکٹ سے محبت کرنے والے دوستوں کو بھیجا تھا، ان میں سے بیشتر نے فون کرکے نظم کو سراہا، ایک دوست نے نظم پر فیڈ بیک دینے میں کوتاہی کی تو پنٹر نے فون کرکے اس کی رائے جاننی چاہی تو موصوف نے معذرت کرتے ہوئے جواب دیا کہ میں نے تو ابھی اسے ختم نہیں کیا۔ اس سے خوبصورت تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا تھا، ایک نظم شروع چاہے کہیں سے بھی ہو سکتی ہو لیکن قاری کے ذہن میں اس کے ختم ہونے کا عرصہ متعین نہیں ہو سکتا۔

پنٹر کی نظم سے میرا دھیان قرۃ العین حیدر کے افسانے ’قلندر‘ کی طرف منتقل ہوا جس کے مرکزی کردار اقبال بھائی کو کرکٹ سے بھی علاقہ ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا اور ایم سی سی میں ٹاکرے کے دنوں میں انہوں نے نظم لکھی تھی جس میں ہٹن کا ذکر موجود ہے:

ہر تازہ وکٹ پر ہمہ تن کانپ رہا ہے

بولر ہے بڑا سخت ہٹن کانپ رہا ہے

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

ایک کرکٹر سے متاثر ہو کر نظم کہی جاسکتی ہے جس کی ایک بڑی مثال اردو میں مجید امجد کی فضل محمود کے بارے میں نظم ’آٹو گراف‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے لیکن کسی بلے باز کا دلکش اسٹائل کسی کے من میں شاعری کی جوت جگا دے، یہ غیر معمولی چیز ہے، اس کی ایک مثال سید کاشف رضا ہیں جن کا کہنا ہے:

’مجھے کرکٹ کا شوق ظہیر عباس کو دیکھ کر پیدا ہوا اور اب سوچتا ہوں کہ شاعری سے دلچسپی بھی ظہیر عباس کی وجہ سے پیدا ہوئی۔

ہمارے گھر 1983 میں ٹی وی آیا تو پاک بھارت سیریز جم کر دیکھی، رنز تو اور بھی بہت سے بناتے تھے لیکن یہ ظہیر تھے کہ گیند جب ان کے بلے سے ٹکراتی تو وہ لطف آتا جو کسی برمحل قافیے پر شعر کا آتا ہے، میں ایک دن ظہیر عباس کی بیٹنگ دیکھتا اور سارا سارا دن ان کے اسٹروکس کو ذہن میں دُہراتا رہتا۔

’وہ ٹانگ ڈھیلی کرکے گیند کو جیسے ہلکی سی چپت لگاتے تھے وہ شاعری تھی، ان کے اسٹروکس مجھے سرشار کر دیتے تھے۔‘

کاشف رضا کی شاعرانہ طبیعت کو وہ بلے باز پسند ہیں جو اسٹائلش ہوں اور وکٹ پر پہنچ کر بے جوش و خروش رنز بٹورنے لگیں، ان کی اس فہرست میں ڈیوڈ گاور بھی شامل ہیں جن کی بیٹنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے: ’پوئٹری ان موشن‘۔

ایشین بریڈمین کے تذکرے کے بعد اصلی اور وڈے بریڈمین کے بارے میں تھوڑی بات ہو جائے جن کا کہنا تھا کہ شاعری کا مطالعہ اور کرکٹ دیکھنا، عمر بھر کا خلاصہ ہے اور ان دونوں میں زیادہ فرق بھی نہیں جیسا کہ بہت سے ذوق جمال رکھنے والے حضرات کا خیال ہے۔

نامور شاعر حارث خلیق نے شاعری اور کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والے اپنے ماموں کے انتقال پر ’ڈان‘ میں گزشتہ برس جو کالم لکھا تھا اس کا اختتام ڈان بریڈمین کے مذکورہ قول پر کیا تھا۔

یہ ایک عظیم کرکٹر کی طرف سے کرکٹ اور شاعری کا ٹانکا ملانے کی بات ہے، اب کرکٹ اور شاعری کے سمبندھ پر معروف شاعر ڈوم موریس کا نقطہ نظر جانتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ شاعری کے مجموعوں کے چرچے سے کہیں پہلے 13 برس کی عمر میں وہ کرکٹ پر ’گراس از گرینر‘ کے عنوان سے کتاب لکھ چکے تھے۔

1983 میں ’السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘ کے ایک شمارے میں ڈوم موریس کا مضمون ’مائی ٹو لوز‘ (میری دو محبتیں) شائع ہوا تھا جس سے ان کی مراد کرکٹ اور شاعری سے تھی۔ اس میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے کرکٹ کی طرف ملتفت ہونے اور کرکٹروں سے اپنی دوستی کے باب میں لکھا ہے۔

کرکٹ سے ان کے رشتے ناطے کا آغاز بمبئی کے مشہور برابورن کرکٹ اسٹیڈیم میں معروف بلے باز سید مشتاق علی کی ہک شاٹ دیکھ کر ہوا تھا۔ ویسٹ انڈین باؤلر کے باؤنسر پر کھیلی گئی شاٹ پر نئی لال گیند کے سبزے سے گزر کر باؤنڈری لائن کی طرف جانے کا منظر ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ 30 برس بعد ان کی اندور میں مشتاق علی سے ملاقات ہوئی تو انہیں اپنا وہ اسٹروک یاد تھا جس نے موریس کا دل موہ لیا تھا۔ اس طرح سے یہ ہک شاٹ دونوں کی مشترکہ یاد بن گئی اور موریس کو اپنے فیورٹ کرکٹر کی زندگی میں تھوڑی بہت شمولیت کا احساس ہوا۔

ڈوم موریس کرکٹ کھیلنے میں اچھے نہیں تھے، اس کھیل سے ان کی گہری دلچسپی کا اظہار اسے دیکھنے اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی صورت میں ہوا۔

مشتاق علی اور اندور کے اس حوالے سے ممتاز نقاد شمیم حنفی کا مضمون ’ایک شخص جو کہانی بن گیا تھا‘ یاد آتا ہے۔ 1965 میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد شمیم صاحب کو پہلی نوکری اندور، مدھیہ پردیش کے ایک کالج میں ملی تھی۔ ان کے بقول ’اس زمانے میں اندور کو اپنی چہل پہل، رونق اور کاروباری مزاج والے شہر کی وجہ سے چھوٹا بمبئی کہا جاتا تھا۔‘

اندور میں شمیم صاحب کا قیام اوشا گنج میں تھا، اس محلے میں مشتاق علی رہتے تھے، ان کی گلی شمیم صاحب کے راستے میں پڑتی تھی۔ اس بستی کی شان دیکھیے کہ لتا منگیشکر اور معروف مصور ایم ایف حسین کے گھرانے بھی مدتوں یہاں آباد رہے۔

شمیم حنفی صاحب کو اندور میں اپنے قیام کے دوران مشتاق علی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور وہ ان کی شخصیت کے گرویدہ ہو گئے۔ کرکٹ میں کارناموں سے پہلے سے واقف تھے، ان کے بارے میں مضمون کا آغاز وہ کچھ یوں کرتے ہیں :

’کیسے انوکھے دکھائی دیتے ہیں وہ لوگ جو جیتے جی افسانہ بن جائیں، ایک لیونگ لیجنڈ تو سید مشتاق علی بھی بہتوں کی طرح میرے لیے ایک افسانہ یا لیجنڈ ہی تھے جب پہلی بار انہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا، کرکٹ کی دنیا میں اپنی کشش انگیز شخصیت اور اپنے کھیل کے بے مثال اور بے تحاشا منفرد انداز کے لیے مشہور سید مشتاق علی کسی بھی محفل یا مجمع میں ممتاز اور مختلف دکھائی دیتے تھے۔‘

شمیم حنفی صاحب کی زبانی مشتاق علی کا تذکرہ سننے کے بعد میں نے ان سے ایک دفعہ عرض کیا کہ یہ سب قیمتی یادیں سپرد قلم کر دیجیے۔ کیوں کہ کوئی اور اس زمانے کو اب تحریری صورت میں بیان نہیں کر سکے گا۔ ان کی محبت اور مہربانی تھی کہ انہوں نے میرا مان رکھا، مشتاق علی کے بارے میں ان کا مضمون ممتاز ادبی جریدے ’سویرا‘ کے سوویں شمارے میں شائع ہوا تو اس کے آخر میں انہوں نے لکھا تھا:

’مشتاق صاحب کی کچھ یادوں کا یہ بیان شہر لاہور کے باسی اور اپنے عزیز دوست محمودالحسن کی فرمائش پر ان کی خوشنودی طبع کے لیے مقصود تھا۔‘

‘سویرا’ کے سینچری نمبر میں مشتاق علی پر مضمون سے مشتاق احمد یوسفی کے کرکٹ پر شگفتہ مضمون کا خیال آتا ہے جو 65 برس پہلے ’سویرا‘ میں شائع ہوا تھا اور بعد میں ’چراغ تلے‘ کا حصہ بنا۔

اب ہم ’سویرا‘ کے ایڈیٹر، منفرد شاعر اور ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمان کی کرکٹ سے لگاوٹ پر بات کرتے ہیں۔ کرکٹ سے ان کی دلچسپی علی گڑھ میں اسکول کے زمانے میں قائم ہوئی۔ اسی شہر میں وہ کرکٹ کی بائبل ’وزڈن‘ سے متعارف ہوئے جس کی کہانی انہوں نے مجھے کچھ یوں سنائی تھی:

’1947 میں مارچ میں معلوم ہوا کہ وزڈن نے 1946 کے سیزن کے جو پانچ کرکٹر چنے ہیں ان میں ونومنکڈ شامل ہیں۔ یہ بھی علم میں آیا کہ وزڈن کرکٹ کا ایک سال نامہ ہے اور ہر سال بہترین کارکردگی دکھانے والے پانچ کرکٹرز کو چنتا ہے، وزڈن حاصل کرنے کا اشتیاق بڑھ گیا، سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے کیسے دیکھا یا کہاں سے خریدا جائے۔ آخر 1949 میں بمبئی کے ایک کتاب فروش کا پتا چلا جس سے وزڈن خریدا جا سکتا تھا۔ میں نے اسے لکھا کہ مجھے 1949 کا وزڈن وی پی کر دیا جائے۔ قیمت غالباً پانچ یا چھ روپے تھی۔ جو خوشی وزڈن ہاتھ آنے پر ہوئی اس کا کیا بیان کیا جائے۔ اس کتاب فروش نے مجھے ان کتابوں کی فہرست بھی بھجوائی جو اس کے اسٹاک میں تھیں۔ فہرست دیکھ کر پتا چلا کہ 1948 کا وزڈن بھی دستیاب ہے۔ وہ بھی خرید لیا۔ پاکستان آنے کے بعد سوجھا کہ وزڈن سے رابط کیوں نہ کیا جائے۔ پاکستان میں جو فرسٹ کلاس میچز ہوتے ہیں، ان کا اسکور فراہم کرنے کی تجویز پیش کروں۔ ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی تھی، میری تجویز کو وزڈن کے مدیر نے پسند کیا۔ 1954 سے 1958 تک میں نے انہیں ریکارڈ فراہم کیے۔‘

سلیم صاحب نے انگریزی اور اردو میں کرکٹ کے بارے میں مضامین بھی لکھے اور اس کھیل سے ان کی دلچسپی آج بھی پہلے کی طرح برقرار ہے۔

ہیرلڈ پینٹر کی لین ہٹن پر نظم کے بارے میں آپ جان چکے ہیں اب ذرا ان کی ایک اور نظم ’کرکٹ ایٹ نائٹ‘ پر بات کرتے ہیں جس میں کرکٹ کی لفظیات کا سہارا لے کر انہوں نے جبر کے نفاذ کی ایک کوشش کو بڑے مؤثر طریقے سے بیان کیا ہے۔

یہ نظم پڑھنے کے بعد میں اسے سلیم صاحب کے پاس لے کر گیا اور ان سے اس کا ترجمہ سبقاً سبقاً پڑھا، سلیم صاحب بڑے تخلیق کار تو ہیں لیکن اس کے ساتھ نظم و نثر کے مشاق مترجم بھی ہیں، اس لیے میں نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس کا ترجمہ کردیں تو کمال ہو جائے، انہوں نے اس کی حامی بھر کر جی خوش کردیا، چند دن بعد ان کے ہاں جانا ہوا تو انہوں نے پنٹر کی نظم کا ترجمہ میرے حوالے کیا جس کے بعد کچھ دیر نظم کی شرح بیان کی جسے میں نے نوٹ کر لیا:

’رات کے وقت کرکٹ‘

وہ اب بھی رات کے وقت کرکٹ کھیلنے میں مشغول ہیں۔

وہ اندھیرے میں کرکٹ کھیل رہے ہیں۔

پوری طرح چوکس کہ روشنی پلٹ کر وار نہ کردے۔

ان سے لانگ لیگ پر گیند گم ہو جاتی ہے۔

وہ یہ سیکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یارکر کس طرح

آف سٹمپ اڑا دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

وہ کوئی نیا ہتھکنڈا تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں

جہاں گیند اندھیرے سے روشنی کی طرف آئے

انہوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ منظر پر سیاہی پھیر دیں گے

لیکن ایسا اندھیرا جس میں سفیدی کی آمیزش ہو۔

وہ ایک نیا قانون منظور کرنے کے لیے مرے جارہے ہیں

جس کی رُو سے اندھے پن کو بصیرت قرار دیا جاسکے۔

وہ اب بھی رات کے وقت کرکٹ کھیلنے میں مشغول ہیں۔

سلیم صاحب کا کہنا ہے کہ یہ نظم 1995 میں لکھی گئی جب رات کے وقت کرکٹ عام ہو چکی تھی لہٰذا اس کے ظاہری معنی اہم نہیں۔ ان کی دانست میں ’اگر انگریزی کے اس محاورے کو مدِنظر رکھا جائے کہ It is not cricket( کھرا کھیل نہیں یا صریحاً بے ایمانی ہے) تو کچھ معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں یعنی جو کچھ کیا جارہا ہے یا کھیل اندھیرے میں کھیلا جا رہا ہے وہ گھپلا ہے یا بے ایمانی پر مبنی ہے۔ لیکن ساتھ میں یہ خوف بھی ہے کہ کہیں روشنی کے پھیلنے سے ان کی دھاندلی بے نقاب نہ ہو جائے۔ گیند روشنی سے اندھیرے کی طرف یا اندھیرے سے روشنی کی طرف آئے، دونوں صورتوں میں اس سے نمٹنا مشکل ہوگا۔ انہیں ایسی بے ایمانی درکار ہے جس پر ایمان داری کا گمان بھی ہو سکے۔ اور وہ ایسا قانون منظور کرانے کے لیے بے تاب ہیں جس کی رُو سے اندھے پن کو بصیرت قرار دیا جاسکے یعنی بے ایمانی کو عین انصاف متصور کیا جائے۔ کھیل کو استعمار پسند ملکوں کی ایسی روش سمجھنا ہوگا جس میں وہ ہر طرح سے انصاف کا خون کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اب بھی پرانے رویوں پر کاربند رہنا چاہتے ہیں، گیند شاید حکمتِ عملی کی نمائندگی کرتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews شاعری عظیم بلے باز کرکٹ کرکٹ کے دیوانے لارڈز محمودالحسن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • تفصیلی فیصلے کا انتظار، الیکشن کمیشن کا اجلاس بے نتیجہ اختتام پذیر
  • بس آؤٹ نہ دینا، سابق بھارتی کرکٹر کا امپائرز کو رشوت دینے کا انکشاف
  • ایشیا کپ 2025 کب اور کہاں کھیلا جائے گا؟
  • 98 سالہ خاتون کی لیونل میسی کو شادی کی پیشکش؛ فٹبالر کا ری ایکشن وائرل
  • شاہین نے حارث رؤف کیلئے ’وارننگ‘ جاری کردی
  • ن لیگ ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے بیانیے پر قائم ہو جائے تو ساتھ چلنے کو تیار ہوں : شاہد خاقان عباسی
  • ڈیرن سیمی کی امپائر پر تنقید مہنگی پڑ گئی، آئی سی سی کا سخت ایکشن
  • ڈیرن سیمی کی امپائر پر تنقید مہنگی پڑ گئی، آئی سی سی کا سخت ایکشن
  • کرکٹ اور شاعری