خیبرپختونخوا کے واحد برن سینٹر میں عملے کا بحران، نرسوں کا کام سیکورٹی گارڈز کرنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
پشاور:
خیبرپختونخوا کے واحد برن اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر پشاور میں عملے کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا ہے جہاں بھرتیوں میں غیر معمولی تاخیر اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث حالات سنگین صورت حال اختیار کرگئے ہیں اور نرسوں کی 60 فیصد کمی پوری کرنے کے لیے سیکیورٹی گارڈز کام کرنے لگے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق برن اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر پشاور میں عملے کی قلت کا سامنا ہے جہاں صرف 40 فیصد نرسنگ اسٹاف موجود ہے جبکہ 60 فیصد سے زائد نرسیں استعفیٰ دے چکی ہیں، جس کے باعث ایمرجنسی، آئی سی یو اور سرجیکل یونٹس کی خدمات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ صوبے کے سب سے اہم ریفرل سینٹر میں انفیکشن کنٹرول کے تمام معیارات پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں، تربیت یافتہ عملے کی عدم موجودگی میں صفائی اور انفیکشن روکنے کے اہم فرائض سیکیورٹی گارڈز اور نچلے درجے کے عملے کے سپرد کر دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جھلسے ہوئے مریضوں میں پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
ایک سینیئر اسٹاف رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "بنیادی حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث انفیکشن کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جو مریضوں کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے"۔
آئی سی یو صرف کاغذوں میں فعال ہے جبکہ وہاں نہ کوئی مخصوص آئی سی یو میڈیکل افسر ہے اور نہ ہی کوئی ماہر "انٹینسِوسِٹ" ہے، ان آسامیوں کے لیے تحریری امتحانات کئی ماہ قبل ہو چکے ہیں مگر حتمی میرٹ لسٹ تاحال جاری نہیں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ "شدید زخمی مریض روزانہ بنیادی طبی ماہرین کی عدم دستیابی کے باعث تکلیف میں مبتلا ہیں اور یہ تاخیر ناقابل قبول ہے"۔
ایک ذمہ دار افسر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نرسنگ بحران کے باعث طبی عملے پر غیر معمولی بوجھ ہے، دستیاب نرسیں طویل ڈیوٹیوں پر مجبور ہیں جبکہ درجنوں خالی اسامیوں کے لیے بھرتی کا عمل تعطل کا شکار ہے اور بیشتر سابقہ نرسیں خلیجی ممالک میں بہتر مواقع کی تلاش میں جا چکی ہیں اور ان کی جگہ لینے والا عملہ تاحال دستیاب نہیں ہو سکا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی بھی بدترین سطح پر ہے جہاں نصف سے زائد آسامیاں خالی ہیں، اس قلت نے آپریشن تھیٹرز، ڈریسنگ رومز اور پوسٹ آپریٹو کیئر سمیت کئی اہم شعبوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
اسپتال ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے کسی بھی پوسٹ پر مستقل تقرری عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ ہنگامی بنیاد پر بارہا درخواستوں کے باوجود بھرتیوں کا عمل جمود کا شکار ہے۔
ایک سینئر معالج نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "نہ نرسز ہیں، نہ آئی سی یو کے ماہرین، نہ پیرا میڈیکل اسٹاف، ہر روز انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور ذمہ دار ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، یہ صرف انتظامی غفلت نہیں، ایک عوامی ہنگامی صورت حال ہے"۔
انہوں نے کہا کہ برن اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر نہ صرف پشاور بلکہ پورے خیبرپختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے مریضوں کے لیے زندگی کی آخری امید ہے، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ واحد خصوصی ادارہ مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتا ہے، جس سے صوبہ جھلسے ہوئے مریضوں کے علاج کے اپنے واحد مرکز سے بھی محروم ہو جائے گا۔
سول سوسائٹی، ماہرین صحت اور سینٹر کے اسٹاف نے خیبرپختونخوا حکومت، محکمہ صحت اور اسپتال کے بورڈ آف گورنرز سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر بھرتیوں کا عمل مکمل کریں اور ادارے کو تباہی سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جامع اصلاحات متعارف کروائیں۔
ایکپریس نیوز کے رابطے پر مشیر صحت احتشام علی کا مؤقف تھا کہ نگران دور حکومت میں زیادہ تر ٹرینڈ اسٹاف بیرون ممالک چلا گیا، نگران دور میں تقرریوں پر پابندی عائد رہی، جس سے عملہ بھرتی نہیں کیا جاسکا تاہم اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے فوری طور پر برن ٹراما سینٹر کو نئی تقرریوں کا عمل شروع کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے اور بورڈ بننے کے بعد تقرریوں کا عمل شروع کردیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بورڈ نے ڈائریکٹر کے ریٹائرمنٹ سے تین مہینے قبل تقرریوں کا عمل روک دیا تھا کہ ڈائریکٹر ریٹائرمنٹ کے وقت تقرری نہیں کرسکتا، نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کی گئی ہے لیکن بورڈ نے انہیں تقرریوں کا اختیار نہیں دیا۔
مشیر صحت کا کہنا تھا کہ تقرری کا عمل مکمل ہوچکا ہے، آئندہ بورڈ میٹنگ میں تقرریوں کی اجازت لی جائے گی، جس کے بعد عملے کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے بتایا فی الوقت 120 میں سے 75 کے لگ بھگ ایکسپرٹ نرسز برن ٹراما سینٹر میں کام کررہی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تقرریوں کا آئی سی یو بتایا کہ انہوں نے عملے کی کے باعث ہیں اور رہی ہیں کے لیے کا عمل
پڑھیں:
پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) پاکستان میں چینی کی اس قلّت کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو اسی تواتر سے ہر سال ایک سی ہی رہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان لے چلتے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دو سالوں سے چینی کی پنجاب سے بلوچستان آمد اور پھر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل ہونے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہی ہیں۔
سرکاری افسران اور بس میں سفر کرنے والوں نے بتایا کہ یہ چینی بسوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہے۔ کسٹمز حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ 2023 میں ہر دوسرے روز کوئٹہ سے 100 ٹن چینی اور ہفتے میں 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی گئی۔
جہاں اس اسمگلنگ میں پچھلے تین سالوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا وہیں اس سال اسمگلنگ سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
(جاری ہے)
اس کی وجہ حکام یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی چینی مہنگی ہے جس سے اس کی غیر قانونی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت قدرے کم قیمت پر بھارتی چینی بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت اسمگلنگ میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان سے چینی افغانستان اور دیگر ممالک باقاعدہ طور پر برآمد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب یہی چینی قانونی راستوں سے افغانستان پہنچتی ہے۔
بلوچستان میں ایک صوبائی افسر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر چینی لانے اور لے جانے والوں کے لیے پرمِٹ رکھنا اور چیک پوسٹوں پر دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بے شک آپ کی گاڑی یا ٹرک کئی بار اسی چیک پوسٹ سے گزرے ہوں، آپ سے پرمِٹ مانگا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ پرمِٹ پہلے بھی دکھائے جاتے تھے لیکن ایک صوبائی افسر نے بتایا کہ ''کچھ گاڑیوں کا پرمِٹ چیک نہیں کیا جاتا،‘‘ جس کے نتیجے میں چینی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اسمگل ہوتی رہی۔
تاجروں کے مطابق قانونی راستوں سے چینی یا خورد و نوش کی کوئی بھی اشیا بھیجنے میں منافع کم ملتا ہے۔مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اب ''پنجاب سے چینی اس مقدار میں نہیں آرہی جتنی پہلے آتی تھی۔ تو اسمگلنگ کا مارجن پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے۔‘
‘
حالیہ 'بحران‘ کیسے اور کیوں بنی؟سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے ہر سال مِل مالکان کو فائدہ دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
اور پھر گنّے کی کرشنگ کا موسم آتے ہی (جس دوران مِل مالکان خسارے میں ہوتے ہیں) ختم کردیا جاتا ہے تاکہ سب برابر کما سکیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے 757,597 میٹرک ٹن چینی 2024-2025 میں برآمد کی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں ایسا کیا گیا تھا جب بغیر کسی پلان اور حکمتِ عملی کے 900000 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔
آپ کو اگر چینی برآمد کرنی ہی ہے تو آپ پہلے 100000 میٹرک ٹن برآمد کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ اور حقائق کا پتا چل سکے۔ مارکیٹ اور برآمد کے نتائج جانے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘مفتاح نے کہا کہ ''ان کا مقصد چینی کی قیمت بڑھانے سے ہے نا کہ معاملات سنبھالنے سے۔ یہ مِل مالکان اور ان کے دوستوں پر مشتمل طبقہ ہے جو اس بحران سے منافع کماتا ہے۔
‘‘واضح رہے کہ چینی کی قیمت جولائی کے مہینے میں 210 روپے فی کلو ہوئی جس کے بعد اب حکومت نے اسے 163 روپے فی کلو پر روک دیا ہے۔
اس کے بارے میں معاشی تجزیہ کار شمس الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "2024-2025 کے دوران پاکستان نے تقریباً 84 ملین ٹن گنے اور 70 لاکھ چینی کی پیداوار کی، اس کے باوجود اس بڑے پیمانے پر پیداوار کے فوائد عام کاشت کاروں تک نہیں پہنچتے۔
اس کے ساتھ ہی ایک شوگر کارٹیل قیمتوں اور پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بنائے گئے بحران کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔‘‘شمس الاسلام نے کہا کہ یہ ایک 'منصوبہ بند بحران‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال شوگر کارٹیل ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکومت کو برآمدات کی منظوری دینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے مِلوں کو مقامی قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے کم فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
شمس الاسلام نے کہا کہ برآمدات مکمل ہونے کے بعد، کارٹیل خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کرتا ہے، سپلائی کے بحران کا دعویٰ کرتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز اور 'سستی چینی بازار' کے ذریعے چینی کی فروخت پر بھاری سبسڈی خرچ کرتی ہے۔ شوگر ملز کو صنعت کی مدد کے بھیس میں اربوں کی سرکاری سبسڈی ملتی ہے۔
‘‘جب چینی کی عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل برآمدی سبسڈی کا مطالبہ کرتا ہے، ٹیکس دہندگان کو اپنے منافع کو فنڈ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل مقامی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کو روکتا ہے۔
اس بحران سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟شمس الاسلام نے کہا کہ ''اس کا فائدہ انہیں خاندانوں کو ہوتا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔
‘‘انہوں نے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری مارکیٹ فورسز کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس پر سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ سب سے بڑے مل مالکان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ بااثر بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات جو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کے لیے لابنگ کرتے ہیں، اور بڑی شوگر ملوں میں براہ راست حصص رکھنے والے ریٹائرڈ فوجی اہلکار سب شامل ہیں۔‘‘
سحر بلوچ
ادارت: جاوید اختر