وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ریسکیو وسائل دھرنوں میں جھونک دیے؟ پشاور ہائیکورٹ نے جواب طلب کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ میں سانحہ سوات کے حوالے سے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف دائر رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت نے متعلقہ حکام سے سخت سوالات کرتے ہوئے مکمل انکوائری رپورٹ طلب کر لی۔
سوات میں 17 سیاحوں کے ڈوبنے پر وزیراعلی خیبرپختونخوا کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں اے این پی کے عمر عالم کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی سربراہی میں ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ریسکیو کی غفلت کی وجہ سے 18 سیاح دریا سوات میں بہہ گئے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ریسکیو گاڑیاں دھرنے کے لیے استعمال کیں لیکن ریسکیو آپریشن کے دوران نہیں، ریسکیو اور پی ڈی ایم اے کے وسائل کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا غیر قانونی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
درخواست گزار نے عدالت عالیہ سے سوات واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات کرے کہ وزیراعلیٰ نے اپنی سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریسکیو 1122 کی کتنی گاڑیاں دھرنوں میں استعمال کیں اور یہ گاڑیاں اب کہاں اور کس کے قبضے میں ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کمشنر مالا کنڈ ڈویژن کہاں ہیں، انکوائری آفیسر کون ہے، کیا انکوائری مکمل ہو چکی یا ابھی جاری ہے۔
چیف جسٹس نے چیئرمین انکوائری کمیٹی کو فوری طور پر عدالت میں طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا واقعی انہوں نے انکوائری مکمل کی ہے، جواب میں چیئرمین کمیٹی نے بتایا کہ سانحے کے بعد سوات کا دورہ کیا گیا، رپورٹ کی تیاری جاری ہے، اور یہ 7 دن کے اندر عدالت میں جمع کر دی جائے گی۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے متعدد سنگین کوتاہیاں سامنے آئی ہیں، جو رپورٹ مکمل ہونے پر عدالت کے روبرو پیش کی جائیں گی۔
چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کمشنر ملاکنڈ اور آر پی او مالاکنڈ کو ہدایت کی کہ وہ تحریری رپورٹس عدالت میں جمع کرائیں اور یہ بھی واضح کریں کہ سیاحوں کی سیکیورٹی اور ریسکیو کے کیا اقدامات کیے گئے اور آئندہ ایسے سانحات سے بچنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا گیا۔
علاوہ ازیں، درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سانحے کے وقت دونوں ہیلی کاپٹرز دستیاب تھے، اور ایوی ایشن رپورٹ کے مطابق پرواز ممکن تھی، مگر اس کے باوجود فوری ریسکیو نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں:
اس پر عدالت نے ہیلی کاپٹر کی دستیابی، پرواز کی ممکنات اور دیگر متعلقہ تفصیلات پر مشتمل مکمل رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت سے قبل مکمل دستاویزی شواہد پیش کیے جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انکوائری کمیٹی پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ چیف جسٹس چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ خیبر پختونخوا ریسکیو 1122 سانحہ سوات علی امین گنڈاپور مالا کنڈ ڈویژن ہیلی کاپٹر وزیر اعلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انکوائری کمیٹی پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ چیف جسٹس چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ خیبر پختونخوا ریسکیو 1122 سانحہ سوات علی امین گنڈاپور مالا کنڈ ڈویژن ہیلی کاپٹر وزیر اعلی چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ پشاور ہائیکورٹ کرتے ہوئے کے لیے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا حکومت کا ریسکیو کارروائیوں کیلئے ڈرون استعمال کرنے کا فیصلہ
دریا میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس، رسیاں اور دیگر چیزوں کی تسیل کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ سانحہ سوات کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے دریا میں پھنسے افراد کو حفاظتی سامان بروقت پہنچانے کیلیے ڈرون کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق دریائے سوات میں 13 قیمتی انسانی جانیں جانے کے بعد حکومت کو دریا میں پھنسے افراد کو جیکٹس، رسیاں اور دیگر ضروری سامان پہنچانے کا خیال آہی گیا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے ریسکیو سامان کی ترسیل کے لیے ڈرون سے خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو ڈرون کے ذریعے ریسکیو سامان پہنچانے کی مشقیں بھی دکھائی گئیں۔
دریا میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس، رسیاں اور دیگر چیزوں کی تسیل کی جائے گی۔ واضح رہے کہ پانچ روز قبل دریائے سوات میں سیاحوں سمیت 18 افراد سیلابی پانی میں پھنس گئے تھے، لیکن ریسکیو سامان نہ ہونے کے باعث وہ پانی میں بہہ گئے تھے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایات پر سیلاب و ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی مشقوں کا کامیاب انعقاد کیا گیا، امدادی سرگرمیوں میں تیزی کے لیے ڈرونز کے ذریعے لائف جیکٹس، رسیاں اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل کی مشقیں کی گئیں۔