اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی کے مقدمے میں تحریک انصاف سزا یافتہ 4 کارکنوں کوبری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی کے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سزا یافتہ 4 کارکنوں کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کر دیا نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 4 کارکنان کو 9 مئی کے مقدمے سے بری کرتے ہوئے سزا کالعدم قرار دے دی، جسٹس اعظم خان اور جسٹس خادم سومرو نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا.
(جاری ہے)
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے چاروں ملزمان کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی، ?بری ہونے والے کارکنوں میں سہیل، شاہ زیب، میرا خان، اکرام خان شامل ہیں 30 مئی کو اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ملزمان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا، پی ٹی آئی کے ایم این اے عبد الطیف سمیت 11 مجرمان کو سزا سنائی گئی تھی، 11 میں سے 4 کو آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے بری کر دیا. بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ پراسیکوشن کے 9 گواہان میں سے صرف ایک گواہ محمد شریف اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) نے ملزمان کو شناخت کیا انہوں نے کہا کہ ملزمان پر الزام لگایا گیا کہ فائرنگ کی گئی مگر کوئی زخمی نہیں ہوا، جرم کی سزا ضرور دیں مگر نظام کو مذاق نہ بنایا جائے جسٹس کادم حسین سومرو نے کہا کہ پراسیکوشن کے پاس کوئی شواہد ہیں تو بتائیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ شواہد ہیں عدالت وقت دے دے، تو پیش کر دیں گے. عدالت نے کہا کہ وقت لینا تھا تو کیس کے شروع میں بتا دیتے اب تمام دلائل سن چکے ہیں، کسی کی ایم ایل سی نہیں کوئی زخمی موجود نہیں، پراسیکوشن ملزمان کی موقع پر موجودگی تو ثابت کرے، گواہان نے عدالت میں اپنے بیان میں نہیں کہا کہ ملزمان موقع پر موجود تھے فاضل جج نے کہا کہ اب کیا عدالت شناخت پریڈ کی بنیاد پر سزا دے گی؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس سے بڑی دہشت گردی کیا ہوگی کہ ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا گیا؟ بعد ازاں عدالت عالیہ نے ملزمان کو بری کرتے ہوئے اپیل پر فیصلہ سنا دیا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے نے کہا کہ
پڑھیں:
پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائی
علیمہ خان اور گنڈا پور کی لڑ ائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے۔ ویسے تو اس لڑائی کی بازگشت گزشتہ ایک سال سے سنائی دے رہی تھی۔ یہ لڑائی زبان زد عام تھی۔ سب اس کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن تصدیق نہیں تھی۔ تاہم اب دونوں طرف سے تصدیق ہوگئی ہے۔ گنڈا پور نے بھی ایک وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ انھوں نے بانی تحریک انصاف کو کہا ہے کہ علیمہ خان اسٹبلشمنٹ کے لیے کام کر رہی ہیں، وہ پارٹی کی چیئرمین بننا چاہتی ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اوورسیز سوشل میڈیا کے ذریعے پارٹی رہنماؤں کے خلاف مہم چلا رہی ہیں، وہ سب کو گندا کر رہی ہیں تاکہ وہ اکیلی چوائس رہ جائیں۔ وہ وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں۔
دوسری طرف علیمہ خان کے بھی گنڈاپور سے گلے شکوے نئے نہیں ہیں۔ وہ کہتی رہی ہیں کہ گنڈا پور کی حکومت بانی تحریک انصاف کو مائنس کرنے پر کام کر رہی ہے۔ بالخصوص جب کے پی کی حکومت نے بجٹ پاس کیا تو انھوں نے بر ملا کہا کہ آج کے پی حکومت اور گنڈا پور نے بانی تحریک انصاف کو مائنس کر دیا ہے۔ وہ گنڈا پور پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کا بھی کہتی رہی ہیں۔ لیکن علیمہ خان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ خود کم بات کرتی ہیں لیکن ان کا حامی سوشل میڈیا زیادہ بات کرتا ہے۔ وہ اپنی بات اپنے حامی سوشل میڈیا کے ذریعے کرتی ہیں۔ لیکن اس سے پارٹی میں ان کی مخالفت بڑھی ہے۔
آج تنازعہ کیا ہے۔ تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ پارٹی پر گرفت کی جنگ ہے۔ علیمہ خان ایک خاموش اور موثر حکمت عملی کے تحت پارٹی کے ورکرز اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔ وہ پارٹی کے ورکرز کے ذہن میں ڈال رہی ہیں، وہی اصل متبادل ہیں۔ پارٹی کی قیادت بے شک ان کے خلاف ہے لیکن وہ پارٹی ورکر کو ساتھ ملا رہی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی لیڈر بنتی جا رہی ہیں، سوشل میڈیا ان کی جیب میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے جب وہی سوشل میڈیا باقی لیڈران کے خلاف مہم چلاتا ہے تو سب سمجھتے ہیں کہ یہ علیمہ خان کے اشارے پر ہو رہا ہے۔
گنڈا پور نے یہ ساری صورتحال بانی تحریک انصاف کے سامنے رکھی ہے۔ سب سے پہلے جب علیمہ خان کے بچوں کی فوری ضمانتیں ہو گئی تھیں تو مشال یوسفزئی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ جس طرح علیمہ خان نے اپنے بچوں کی فوری ضمانتیں کروائی ہیں وہ بانی تحریک انصاف اور بشری بی بی کی بھی کروا دیں۔ جس پر علیمہ خان کا حامی سوشل میڈیا مشال یوسفزئی کے خلاف ہو گیا تھاکہ اس کو یہ بات کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔ وہ سوشل میڈیا جو باقی تحریک انصاف کے قائدین سے سوال کرتا تھکتا نہیں ہے، علیمہ خان کی صفائیاں دینے لگ گیا۔ یہ دلیل دی جانے لگی کہ علیمہ خان کے پاس کونسا اختیار ہے۔ وہ پارٹی کی کوئی عہدیدار ہیں، وہ بانی تحریک انصاف کی رہائی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اب علی امین گنڈا پور نے بھی یہی سوال اٹھایا ہے کہ جتنی جلدی اور فوری ضمانتیں علیمہ خان کے دونوں بیٹوں کو ملی ہیں۔ اس کی تحریک انصاف میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے کہا ہے کہ جو لوگ نو مئی کو جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے انھیں بھی سزائیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے مثال دی ہے کہ عمر ایوب اور زرتاج گل فیصل آباد میں نہیں تھے لیکن انھیں سزائیں ہو گئی ہیں، صرف علیمہ خان کے بچوں کو فوری ضمانتیں دی گئی ہیں، ورنہ ضمانت کا کیس تو بانی کا بھی نہیں لگ رہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کے مطابق یہ ضمانتیں علیمہ خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ خصوصی روابط کے ثمرات کے نتیجے میں دی گئی ہیں ورنہ سب کو مل جاتیں۔ یہ خصوصی نوازشات ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ اسٹبلشمنٹ کی سہولت کار ہیں، پارٹی کو تقسیم کر رہی ہیں، لیڈر شپ کو ڈس کریڈٹ کر رہی ہیں ۔
گنڈا پور کے ان الزامات کا شاید کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے علیمہ خان کا حامی سوشل میڈیا اب یہ بیانیہ بنا رہا ہے کہ اس وقت یہ بات کر کے گنڈاپور نے حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی سہولت کاری کی ہے۔ وہ حکومت کی اسرائیل پالیسی سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔ اس وقت جب ساری بحث حکومت کی فلسطین اور اسرائیل پالیسی پر ہونی چاہیے تھی بحث علیمہ خان اور گنڈا پور اختلافات پر ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک کمزور دلیل ہے، دونوں باتیں ساتھ ساتھ بھی چل سکتی ہیں۔ شاید ضمانتوں کا کوئی دفاع نہیں اس لیے ان پر کوئی بات نہیں کی جا رہی۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ گنڈا پور کی نہیں بلکہ بشری بی بی اور علیمہ خان کی لڑائی ہے۔ گنڈا پور گروپ بشریٰ بی بی کے ساتھ ہے اس لیے گنڈا پور کو بشریٰ بی بی کی اس لڑائی میں مکمل حمایت اور سپورٹ حاصل ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بانی تحریک انصاف سے ملنے کے بعد گنڈا پور زیادہ کھل کر کھیل رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کے پی کے دو مضبوط وزراء کے استعفے سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کے بھائی ہیں، دوسرے شہرام ترکئی کے بھائی ہیں۔ گنڈا پور نے اپنے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ میں ان کو بتا دیا تھا کہ ان کو نکالا جا رہا ہے اس لیے انھوں نے استعفے دے دیے ہیں۔ گنڈا پور کو فری ہینڈ مل گیا ہے۔ وہ کے پی کی حکومت اپنی مرضی سے چلائیں گے۔ اب ان کے مخالفین کی کے پی حکومت میں کوئی جگہ نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پشاور جلسہ میں گنڈا پور کی تقریر کے دوران جو بد مزگی ہوئی تھی ‘اسی تناظر میں ان کی چھٹی کروا دی گئی ہے۔ اور بھی تبدیلیاں آئیں گی۔
یہ لڑائی کہاں جا کر رکے گی مجھے نہیں لگتا کہیں جا کر رکے گی۔ بانی تحریک انصاف کی پہلے دن سے پالیسی رہی ہے کہ وہ پارٹی میں تقسیم پیدا رکھتے ہیں تاکہ کوئی ان کے برابر نہ پہنچ سکے۔ شاید اسی پالیسی کے تحت انھوں نے علیمہ خان کو بھی بریک لگوائی ہے۔ ان کا قد بڑھ رہا تھا وہ شاید قابل قبول نہیں تھا۔ اسٹبلشمنٹ کو بھی فائدہ ہے۔ اس لڑائی سے اسٹبلشمنٹ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ کم ہوگا۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی مخالفت تحریک انصاف کے اندر سے ہی سامنے آرہی ہے۔ یہ اسٹبلشمنٹ کے لیے اچھی بات ہے۔