شیو سینا لیڈر نے کہا کہ ہندی کے نفاذ کے خلاف انکے موقف کا مطلب ہے کہ وہ نہ تو ہندی بولیں گے اور نہ ہی کسی کو ہندی بولنے دینگے، لیکن مہاراشٹر میں ہمارا موقف ایسا نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تین زبانوں کی پالیسی کی مخالفت کرنے والے تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے اور مہاراشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایم کے اسٹالن اس پالیسی کو بی جے پی کی "ہندی مسلط کرنے" کی کوشش قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف طویل عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ممبئی میں "وائس آف مراٹھی" کے نام سے ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں تین زبانوں کی پالیسی کو نافذ کرنے کے مہاراشٹر حکومت کے حکم کو واپس لینے کا جشن منایا گیا۔ ادھو اور راج ٹھاکرے دونوں نے اس ریلی میں شرکت کی اور تقریباً 19 سال بعد پہلی بار ایک ساتھ اسٹیج شیئر کیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور کہا کہ اب ان کے درمیان فاصلہ ختم ہوگیا ہے۔

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے سربراہ ایم کے اسٹالن طویل عرصے سے تین زبانوں کی پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت طلبہ کے لئے تین زبانیں سیکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان کی مادری زبان، دوسری ہندوستانی زبان اور ایک غیر ملکی زبان۔ فی الحال تمل ناڈو میں دو زبانوں کی پالیسی (تمل اور انگریزی) نافذ ہے۔ اسٹالن نے الزام لگایا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت اس پالیسی کو بدل کر ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ممبئی میں ٹھاکرے برادران کی "وائس آف مراٹھی" ریلی کے بعد اسٹالن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ زبان کے حقوق کی لڑائی اب ریاستی حدود کو پار کر چکی ہے اور مہاراشٹر میں ایک تحریک کے طور پر پھیل رہی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ڈی ایم کے اور تمل ناڈو کے لوگوں نے نسل در نسل ہندی نافذ کرنے کی مخالفت کی ہے، اب یہ تحریک مہاراشٹر میں بھی ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔

اس دوران رکن پارلیمنٹ اور شیو سینا کے لیڈر سنجے راؤت نے کہا کہ ہفتہ کو منعقد ریلی کے بعد مہایوتی کے لیڈران بوکھلاہٹ کے شکار ہیں، اب انہیں رونا پڑے گا۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہ ریلی کے بعد پورے ملک میں ہندی کو لازمی قرار دینے کے خلاف ماحول بنا ہے۔ راج ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے کی ریلی کے بعد کئی ریاستوں کے لیڈران نے کہا کہ انہیں مرکز کے ہندی کو لازمی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف لڑنے کی طاقت ملی ہے۔ ہندی کے نفاذ کے خلاف ان کے موقف کا مطلب ہے کہ وہ نہ تو ہندی بولیں گے اور نہ ہی کسی کو ہندی بولنے دیں گے، لیکن مہاراشٹر میں ہمارا موقف ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہندی بولتے ہیں، ہمارا موقف ہے کہ پرائمری اسکولوں میں ہندی کے لئے سختی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی صرف پرائمری تعلیم میں ہندی کو مسلط کرنے کے خلاف ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: زبانوں کی پالیسی مہاراشٹر میں ریلی کے بعد نے کہا کہ تمل ناڈو انہوں نے کے خلاف ہندی کو

پڑھیں:

ٹرمپ کا ٹیکس بل کانگریس سے منظور، امریکی مالیاتی پالیسی میں بڑی تبدیلی

امریکی ایوان نمائندگان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کا سب سے اہم اور متنازع مالیاتی بل معمولی اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ جمعرات کے روز ہونے والی ووٹنگ میں بل کے حق میں 218 اور مخالفت میں 214 ووٹ آئے، جن میں 2 ریپبلکن ارکان نے بھی ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا۔

ریپبلکن قیادت نے بل کو منظور کروانے کے لیے پورا دن اور رات متحرک رہ کر محنت کی، جب کہ خود صدر ٹرمپ نے بھی اپنے چند شکی حامیوں کو منانے کے لیے براہ راست دباؤ ڈالا۔ دوسری جانب، ڈیموکریٹک رہنما ہیکیم جیفریز نے ایوان میں بل کی مخالفت میں مسلسل 8 گھنٹے 44 منٹ طویل تقریر کی، جس کی وجہ سے ووٹنگ میں نمایاں تاخیر ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

ٹرمپ نے ریاست آئیووا میں ایک عوامی اجتماع کے دوران بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام ریپبلکن مرد و خواتین کے مشکور ہیں جنہوں نے اس “ناقابلِ یقین کارنامے” کو ممکن بنایا۔ انہوں نے ڈیموکریٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اس لیے بل کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ ٹرمپ سے نفرت کرتے ہیں — اور ٹرمپ نے برملا کہا کہ وہ بھی ان سے نفرت کرتا ہے۔ توقع ہے کہ بل پر دستخط جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں ہوں گے۔

US President Donald Trump on Thursday secured a major political victory when Congress narrowly passed his flagship tax and spending bill, cementing his radical second-term agenda and boosting funds for his anti-immigration drive.https://t.co/uGscdaVO69

— News24 ???????? (@News24) July 3, 2025

تقریباً 900 صفحات پر مشتمل اس بل کو ٹرمپ اور ان کی جماعت نے “ایک بڑا خوبصورت بل” قرار دیا ہے۔ یہ بل 2017 میں دی گئی 4.5 ٹریلین ڈالر کی ٹیکس چھوٹ کو مستقل کرنے کے ساتھ ساتھ چند نئی مراعات بھی فراہم کرتا ہے۔ ان میں محنت کشوں کے لیے ٹپس اور اوور ٹائم تنخواہ پر ٹیکس کٹوتی کی اجازت شامل ہے۔ علاوہ ازیں، ایسے معمر افراد جن کی سالانہ آمدنی 75 ہزار ڈالر سے کم ہے، انہیں 6 ہزار ڈالر کی اضافی کٹوتی دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:

بل میں قومی سلامتی، امیگریشن سے متعلق ٹرمپ کے سخت گیر اقدامات، اور ’گولڈن ڈوم‘ نامی دفاعی نظام کی تعمیر کے لیے 350 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس مالی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت نے میڈیکیڈ (غریبوں کے لیے صحت کی سہولت) اور فوڈ اسٹامپ (خوراک امداد) پروگرامز میں 1.2 ٹریلین ڈالر کی کٹوتیوں کا اعلان کیا ہے۔

ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے والوں کے لیے سخت کام کرنے کی شرائط رکھی گئی ہیں، جن میں بعض معمر افراد اور والدین بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ماحول دوست توانائی کے لیے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ بھی محدود کر دی گئی ہے۔

کانگریس کی غیر جانب دار بجٹ کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ پیکیج اگلے 10 برسوں میں 3.3 ٹریلین ڈالر کا مالی خسارہ پیدا کرے گا، جب کہ 1 کروڑ 18 لاکھ امریکی شہری صحت کی سہولتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

ڈیموکریٹس نے اس بل پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے امیر طبقے کے لیے تحفہ اور ورکنگ کلاس کے خلاف ایک سنگین ظلم قرار دیا۔ ہیکیم جیفریز نے کہا کہ یہ ایوان اب ایک ’جرم کا منظر‘ بن چکا ہے جہاں امریکی عوام کی صحت، سلامتی اور بہبود کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس بل کو ’بڑا بدصورت بل‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مجوزہ کٹوتیوں سے 80 ملین افراد کی صحت متاثر ہوگی، 40 ملین سے زائد افراد خوراک کی امداد سے محروم ہو جائیں گے، اور یہ براہ راست بچوں، سابق فوجیوں اور بزرگوں کے لیے خطرہ بنے گا۔

بل کی منظوری کے لیے ریپبلکن قیادت کو سخت سیاسی چیلنجز کا سامنا رہا۔ سینیٹ میں بل محض ایک ووٹ سے منظور ہوا، جہاں نائب صدر جے ڈی وینس نے ٹائی توڑنے کے لیے فیصلہ کن ووٹ ڈالا۔

ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ارکان تھامس میسی اور برائن فٹزپیٹرک نے بل کی مخالفت کی، جس پر ٹرمپ کے حامی سیاسی نیٹ ورک نے ان پر دباؤ بڑھا دیا۔ نتیجتاً، سینیٹر تھام ٹلس نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔

مزید پڑھیں:

یہ بل ایک لحاظ سے سابق صدور باراک اوباما اور جو بائیڈن کی پالیسیوں کی واپسی بھی ہے۔ اس میں ’افورڈ ایبل کیئر ایکٹ‘ کے تحت میڈیکیڈ میں توسیع اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو جزوی طور پر ختم کیا گیا ہے۔

ٹیکس پالیسی سینٹر کے مطابق، اس بل کے نتیجے میں غریب ترین طبقے کو اوسطاً 150 ڈالر، درمیانے طبقے کو 1,750 ڈالر، اور امیر ترین طبقے کو 10,950 ڈالر کی ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی، جو 2017 کی ٹیکس اصلاحات کے ختم ہونے کی صورت میں ممکن نہیں تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی صدر ٹیکس پالیسی سینٹر ڈونلڈ ٹرمپ مالیاتی بل ووٹنگ

متعلقہ مضامین

  • پاک انڈیا جنگ کے بعد چین فرانس کے رافیل طیاروں کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے، فرانس کا دعویٰ
  • ملکی معیشت کے لئے اچھی خبر
  • ہندی زبان کو لازم قرار دینے کی مخالفت میں راج اور ادھو ٹھاکرے کا ’مراٹھی شناخت‘ کا مطالبہ
  • حکومت نے زوال پذیر صنعتی شعبے کی بحالی کیلئے نئی صنعتی پالیسی کو حتمی شکل دیدی
  • عالمی برادری کشمیرمیں بھارتی مظالم کا نوٹس لے، پرویز احمد شاہ
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا 8 جولائی کو کراچی میں جموں کشمیر بنیان مرصوص ریلی نکالنے کا اعلان
  • بھارت کا پاکستان پر حملہ خطے کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش تھی، وزیراعظم کا ای سی او اجلاس سے خطاب
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نظریہ پاکستان سے غداری ہے، ڈاکٹر صابر ابومریم
  • ٹرمپ کا ٹیکس بل کانگریس سے منظور، امریکی مالیاتی پالیسی میں بڑی تبدیلی