ڈاکٹر شاہد ایم شاہد؛ مخلص طیب اور منفرد ادیب
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
ادب جب تک ادیب کی رُوح میں سرایت نہ کر جائے قارئین کے دِل و دماغ کو متاثر نہیں کر سکتا۔ بہت کم ایسے ادیب ہوتے ہیں جنہیں قدرت نے لکھنے کے فن کے ساتھ ساتھ شخصیت کا بھی ویسا ہی تحفہ عطا کیا ہوتا ہے جو نہ صرف ان کے فن بلکہ ان کی ذات کو بھی انسانیت کی عظمت اور خدمت کے چار چاند لگا دیتا ہے۔ ایسے ہی ایک منفرد لب و لہجے کے ادیب سے میری واقفیت گذشتہ کئی سالوں پہلے ان کی تحریروں کے ذریعے ہوئی اور چند سال قبل راولپنڈی میں ان سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ تاحال اب تک ان کے ساتھ خلوص، محبت، علم، احترام اور قلم کا رشتہ قائم ہے۔
جہاں ان کی تحریروں میں نفاست اور سحرانگیزی پائی جاتی ہے۔ وہیں ان کی شخصیت بھی ان کی تحریروں کا پرتو ہے۔ وہ جس طرح اپنے علم و تجربے کی روشنی میں تحریر کو عام فہم بنا کر قارئین کی معاونت کرتے ہیں، اسی طرح اپنی عملی زندگی میں بھی اپنے اندازِ گفتگو اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوکر لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کر رہے ہیں۔ آج کے اس مضمون میں ہم ڈاکٹر شاہد ایم شاہد کی ادبی اور تخلیقی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد معروف مصنف، فلسفیانہ سوچ کے حامل، قومی سطح پر نمایاں کالم نگار، مبصر، مضمون نگار اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفیس انسان جیسی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان کی تحریروں میں انسانیت، سماجی بھلائی اور فلاح و بہبود کے گہرے نقوش کی جھلک پائی جاتی ہے۔ شعبۂ طب کے حوالے سے بھی ان کی تحریریں قارئین کی توجہ کا مرکز بنی ہیں۔ ادب صرف الفاظ کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ رُوح کی آواز، مشاہدے کی شدت اور خدمتِ خلق کی مخفی قوت کا ارتقاء بھی ہے۔ ایسے ادیب بہت کم پیدا ہوتے ہیں جو قلم کے ساتھ کردار کی بلندی پرواز بھی رکھتے ہوں۔ ڈاکٹرشاہد ایسی ہی ایک منفرد اور ہمہ جہت شخصیت ہیں جو نہ صرف اُردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں بلکہ درس و تدریس، انسان دوستی اور سماجی شعور میں بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد مسیح کا تعلق فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک دیہی علاقے چک نمبر 77 رب لوہکے دیوی والا سے ہے۔ وہ 25 مارچ 1979ء کو سموئیل مسیح اور نذیراں سموئیل کے ہاں پیدا ہوئے۔ آٹھ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں، جنہوں نے زندگی کے ابتدائی چیلینجز کے باوجود تعلیمی اور ادبی دُنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول 77 رب سے حاصل کی جب کہ میٹرک گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کھرڑیانوالہ فیصل آباد بورڈ سے پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اُردو میں ماسٹرز اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ تعلیم کے ساتھ ان کی وابستگی وقت کے ساتھ ایک عظیم مشن میں ڈھل گئی ہے۔
درس و تدریس سے وابستگی: ڈاکٹر شاہد کا تدریسی سفر 2015ء میں سینٹ پال ہائی اسکول واہ کینٹ سے شروع ہوا، جہاں وہ بچوں کو صرف نصاب نہیں پڑھاتے بلکہ ان کی کردارسازی، شعور اور انسانیت سے جڑت کا سبق بھی دیتے ہیں۔ ان کا اندازِتدریس ایسا ہے جو طالب علم کے دِل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔
ادبی خدمات اور تحریری سفر: ڈاکٹر شاہد نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 2008ء میں ’’روزنامہ آفتاب‘‘ (کوئٹہ/اسلام آباد) سے کیا۔ پھر رفتہ رفتہ دیگر جرائد و رسائل سے جڑ گئے۔ ماہ نامہ معالج کراچی، ستون حق لاہور اور اُردو ادب کی کئی ویب سائٹس پر ان کی تحریریں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ’’مکالمہ‘‘ اور ’’ہم سب‘‘ پر ان کے بلاگز خاص توجہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں کا مرکزی محور انسانیت، فلاح عامہ، سماجی اصلاح اور شعور کی بیداری ہے۔ لیکن خصوصاً شعبہ طب سے متعلق ان کی تحریریں ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ وہ طبی موضوعات، پھلوں کی افادیت اور عالمی طبی ایام کو عام فہم انداز میں پیش کر کے قاری کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔
شائع شدہ کتب: موصوف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی اب تک پانچ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان شائع شدہ کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
:1 بکھرے خواب، اجلے موتی (2019ء)
2: آؤ زندگی بچائیں (2020ء)
3: گوہرافشاں (2022ء)
4: الفاظ و افکار (2023ء)
:5 ابرگوہر (2024ء)
زیراشاعت کتب: پھلوں کی افادیت، پس پردہ، صحرا میں پھول اور نقوشِ زرنگار ہیں۔ ان کتابوں میں مختلف موضوعات پر مبنی مضامین، تجزیے، اور تحریریں شامل ہیں جو قاری کو نہ صرف علم فراہم کرتی ہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سوچ پر بھی متحرک کرتی ہیں۔
ادبی اعزازات و اعترافات: ڈاکٹر شاہد کو مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد تعریفی خطوط، سرٹیفکیٹس اور ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ’’آئزک ٹیلی ویژن لاہور‘‘ نے انہیں ’’بیسٹ رائٹر اینڈ کالمسٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ مزید برآں، ’’فروغِ سخن‘‘ واہ کینٹ برانچ کی جانب سے ’’اعترافِ برملا‘‘ جیسا معزز اعزاز بھی ان کے حصے میں آیا ہے۔
راہ نمائی و متاثر کن شخصیات: ڈاکٹر شاہد کی فکری نشوونما میں کئی علمی و روحانی شخصیات کا اثر شامل ہے۔ ان مشاہیر میں پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا، آصف عمران، پروفیسر جیکب پال، منظور راہی، آرتھر برکی آرتھر، پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم، ڈاکٹر شفقت حیات، نذیر قیصر، ڈاکٹر اعجاز رازق، ڈاکٹر جاوید مہر اور دیگر کئی اہم شخصیات کے نام شامل ہیں۔ ان شخصیات کی صحبت نے ان کی تحریروں میں فکری گہرائی اور وسعت خیال پیدا کیا ہے۔
نثرنگاری کے تقاضے: ڈاکٹر شاہد کے مطابق نثرنگاری ایک باقاعدہ فن ہے جس میں مسلسل مطالعہ، مشاہدہ، تحقیق اور تربیت کی ضرورت ہے۔ مضمون، فیچر، افسانہ، اور کالم نگاری جیسے نثری فنون کا مطالعہ، تاریخی کتب سے واقفیت اور موجودہ صحافت سے رابطہ ایک نثر نگار کو بہتر بناتے ہیں۔
مسیحی نثرنگار اور قومی سطح پر پذیرائی کی کمی: ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ مسیحی نثر نگار قومی سطح پر اس لیے نمایاں نہیں ہوپارہے کیوںکہ مطالعے میں دل چسپی کی کمی، اخبارات و جرائد سے عدم وابستگی، عملی تربیت کا فقدان، احساسِ کم تری، قومی فورمز پر شرکت سے گریز، تخلیقی تربیت کا فقدان اور نمائندہ شخصیات کی طرف سے راہ نمائی کی کمی اہم پہلوؤں کی نشان دہی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ تمام پہلو ایک سنجیدہ فکری بحث کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ مذہبی اقلیتی نثر نگاروں کی صلاحیتوں کو قومی دھارے میں جگہ مل سکے۔
ازدواجی سفر: ڈاکٹر شاہد کی ازدواجی زندگی کا آغاز 11 اگست 2007ء کو ہوا۔ ان کی شریک حیات صبا شاہد بھی درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ خُدا نے انہیں تین بچے عطا کیے ہیں۔ رائن میتھیو، یشوع شاہد اورجمائمہ شاہد۔ ڈاکٹر شاہد ایم شاہد علم، ادب، خدمت اور انسانیت کے ہم آہنگ امتزاج کا نام ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف قاری بلکہ سماج کو بھی بہتر بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش ہیں۔ آنے والے وقتوں میں وہ نہ صرف اُردو ادب بلکہ فکری اور سماجی بیداری کے میدان میں مزید قیمتی خدمات انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
نوجوانی نسل کو کامیابی کے لیے تلقین: نوجوان نسل کی کام یابی کے لیے بنیادی مفروضہ محنت ہے، جو شخص محنت اور جذبہ سے بھرپور ہے۔ وہ پہاڑوں کا سینہ چیر سکتا ہے۔ فلک کی پرواز کرسکتا ہے۔ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر نام پیدا کرسکتا ہے۔ زندگی کو خوشیوں کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔ قلم کے ذریعے محبت، امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔ وطن کا نام روشن کر سکتا ہے۔ بات صرف کام اور محنت سے عبارت ہے۔ نئی نسل جب تک محنت، ایمان داری، لگن اور شوق کا مظاہرہ نہیں کرے گی اس وقت تک اس کے لیے عظمت کا دروازہ نہیں کھولے گا۔
نئی نسل کے ادیب: عصرحاضر میں نئی نسل کے ادباء اور شعراء کو معاشرے کی زہرناکیوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارا معاشرہ جو بے راہ روی کی ڈگر پر گام زن ہے وہ اپنی اصل رُوح کی طرف واپس آسکے۔ ایک مرتبہ پھر سے اخلاقی اقدار پروان چڑھ سکیں۔ آداب زندگی مسائل سے بچا سکیں۔ کھوئی ہوئی ثقافت واپس آسکے۔ یقیناً ایک ادیب اس ضمن میں طبیب جیسا کردار ادا کر سکتا ہے، کیوںکہ جو اخلاقی امراض ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ انہیں ختم کرنے کے لیے جب تک رُوح پرور ادب پیش نہ کیا جائے۔ اس وقت تک اذہان و قلوب میں مثبت خیالات کے پھول نہیں کھل سکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت قوموں کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ اگر مناسب وقت اور ماحول میں تبدیلی کی بانسری بجائی جائے تو لوگوں کو مسحور ہونے کا موقع ملے گا۔
اُردو زبان کی افادیت: اُردو زبان ہمارے معاشرے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی شرینی، تروتازگی، برتاؤ، آثاروکفیات اس قدر دل کش ہے کہ دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ یہ زبان اپنے اندر نت نئے مکاشفے اور وسعت کے خزانے رکھتی ہے۔ اگر رُوح و قلب میں اسے پنپنے کا موقع دیا جائے اور قومی سطح پر لاگو کردی جائے۔ سارا نصاب قومی زبان میں مرتب کیا جائے تو دُنیا میں اس سے بہتر اظہار کی کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔ انسان اپنے احساسات و جذبات کو بہتر انداز سے عوام الناس تک پہنچا سکتا ہے۔ تقریباً 6 ہزار سے زائد زبانوں میں اسے منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہ پیشہ ورانہ زندگی کو کس حد تک مثالی بنا سکتی ہے۔ اس سے وابستگی کا ثبوت دے کر اقوام عالم تک اسے عام کیا جا سکتا ہے۔
ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کام یابی: حالات ہمیشہ سے مشکل رہے ہیں۔ فقط ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ کام یابی کے لیے سر توڑ کوششیں کی جائیں۔ بھوک اور پیاس سہہ کر پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت حاصل کی جائے۔ ایسا اعزاز ایک منفرد سوچ رکھ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کے اس شعر سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
زندگی میں جب تک خواب نہیں دیکھے جاتے ہیں اس وقت تک تعبیر کا موسم نہیں آتا ہے۔ بڑا انسان بننے کے لیے بڑے خواب دیکھنا پڑتے ہیں۔ جب تک زندگی میں مشکلات سے لڑا نہ جائے، اس وقت تک اُمید کی کرن نظر نہیں آتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل زمانہ ہے۔ جب تک اس دُور کی وہ تمام سکلز کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے۔ اس وقت تک کام یابی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ دُنیا کے ساتھ لڑا نہیں جا سکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا نہیں جاسکتا ہے۔ دُنیا میں وہی شخص کام یاب ہے جو وقت کے ساتھ ہاتھ ملا لیتا ہے۔ وہ کسی بھی مقام پر ناکام نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ جدید تقاضوں کی روشنی میں آگے بڑھنے کا فن سیکھ لیتا ہے۔
ادیب کا بنیادی کردار: ایک ادیب معاشرے کی مجموعی صورت حال پر قلم فرسائی کر سکتا ہے۔ ان نکات کو زیربحث لاسکتا ہے جو معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ ایک مثبت اور تعمیری سوچ کے ذریعے لوگوں کے اندر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ انہیں ان تمام حقائق سے آگاہ کیا جاسکتا ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں لاقانونیت ہے، بے راہ روی ہے، شرم ناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اخلاقی اقدار کی کمی ہے۔ اپنی کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یقیناً ایک ادیب کی کوشش سے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسکولز سے لے کر کالجز تک، کالجز سے لے کر یونیورسٹیز تک ایک ضابطہ اخلاق بنا دیا جائے، تاکہ طلبہ و طالبات اس ضابطہ اخلاق پر عمل پیرا ہوکر زندگی کو بہتر سے بہتر بناتے جائیں، کیوںکہ وقت زندگی کا سب سے بہترین خزانہ ہے۔ اگر ا سے ضائع کردیا جائے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد ان کی تحریروں ان کی تحریریں کر سکتا ہے جا سکتا ہے زندگی میں اس وقت تک کام یابی کرتے ہیں کے ساتھ کیا جا کی کمی نہیں ا کے لیے بھی ان
پڑھیں:
ہڈیوں سے بنے منفرد شہکار، فنکار کا انوکھا فن
ہڈیوں سے بنے منفرد شہکار، فنکار کا انوکھا فن ، تفصیلات کے لیے ویڈیو دیکھیں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انوکھا فن ہڈی ہڈی سے بنے شہکار