حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ملن پہلی بار؟؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے صدر آصف زرداری کو منصب صدارت سے ہٹانے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اکٹھی ہے تو کچھ لوگوں کو تکلیف ہے، سوشل میڈیا کی خبروں پر دھیان نہ دیں، سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ پہلی بار اکھٹی ہے یہ کیا کہہ دیا وزیر داخلہ نے، کیا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ تھی موجودہ حکومت میں شامل دونوں جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب تھے اور بہت غلط انتخاب تھے، 2018 کے الیکشن میں فوج نے انہیں دھاندلی کے ذریعے جتوایا تھا، اب محسن نقوی صاحب کا یہ کہنا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ملن پہلی مرتبہ ہوا ہے کئی پہلوؤں سے محل نظر ہے، پہلی بات تو یہ کہ وزیر داخلہ کو ’’حکومت‘‘ کے بجائے لفظ ’’سیاست‘‘ دان استعمال کرنا چاہیے تھا حکومت تو پاکستان میں سدا سے اسٹیبلشمنٹ کی ہی تھی اور جانے کب تک رہے گی، کبھی کبھار حکومت میں سیاست دانوں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے اس دفعہ البتہ ایک جوہری فرق واقع ہوا ہے اور وہ یہ کہ پہلے وزرائے اعظم صرف ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے، موجودہ وزیراعظم باقاعدہ ڈنڈوت کیے ہوئے ہیں اور مسلسل اسی حالت میں رہتے ہیں، جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں ان تمام کاموں کا کریڈٹ جنہیں وہ اچھا سمجھتے ہیں خود کو بعد میں پہلے آرمی چیف کو دیتے ہیں، ان کے بیانات اور تقریروں کا ریکارڈ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، معلوم ہوتا ہے علامہ اقبال کا یہ شعر صرف وہی ٹھیک طرح سمجھ پائے ہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
حتیٰ کہ اب ان کے وزیر بھی ان کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں بلکہ شاید ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایران – اسرائیل جنگ بندی کے حوالے سے کہا کہ اس کے پیچھے بھی ’’وردی‘‘ ہے، سیز فائر پر ہر پاکستانی کو فخر کرنا چاہیے، لیجیے شہباز شریف تو ملکی امور کا سہرا فوج کے سر باندھتے ہیں ان کے وزیر با تدبیر نے بین الاقوامی امور کا کریڈٹ بھی پاک فوج کو دے دیا، ظاہر ہے پاکستانیوں کو سیز فائر کرانے پر فخر ہوگا تو پاک فوج پر ہی ہوگا، امریکی فوج کی تو ویسے بھی جنگ شروع یا بند کرانے کی ہمت نہیں ہو سکتی البتہ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشکل کھڑی ہو گئی ہے کیونکہ وہ اس جنگ بندی کا مکمل کریڈٹ خود لیتے ہیں کسی اور خصوصاً امریکی فوج کا تو نام بھی نہیں لیتے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف پرانے سیاستدان ہیں انہیں پتا ہے وزارت پکی رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں، انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار ہوتا ہے، جو اب باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ہے، اس کی سب سے بڑی مثال تو امریکا خود ہے، اندرونی حالات، معیشت سمیت تمام شعبوں میں ان کا کردار ہے، دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کب اور کہاں باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے ہمیں تو اس کا پتا نہیں ہاں پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں اس کی مداخلت سے سب آشنا ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی تنخواہوں میں بہت بھاری اضافے پر ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کی جا رہی تھی، حیران کن طور پر اس میں سب سے بلند آواز وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی تھی، صرف اپوزیشن کی جانب سے احتجاج ہوتا تو حسب معمول اس پر کان نہ دھرے جاتے لیکن جب اس صریح نا انصافی پر حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی شور اٹھا تو مجبوراً وزیراعظم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی ہے، ممکن ہے خواجہ آصف کو سردار ایاز صادق سے کوئی پرانا حساب چکتا کرنا ہو اس لیے وہ پھر بھی چپ نہ ہوئے، ان کے چپ نہ ہونے پر اسپیکر نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط لکھ دیا، خط میں تنخواہ میں اضافے سے متعلق وزیر دفاع کی تنقید کو بلا جواز قرار دیا اور اضافے کو وزیراعظم کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور کہا کہ شہباز شریف چاہیں گے تو وہ اضافی تنخواہ لیں گے ورنہ پرانی تنخواہ ہی لیتے رہیں گے، پاکستان کے شدید ترین مالی بحران کے باوجود انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ اس اضافہ شدہ تنخواہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے، بس اتنی علاج رکھی کہ وزیراعظم شہباز شریف کی صوابدید کا ذکر کر دیا، حالانکہ تنخواہ کو ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے 21 لاکھ روپے تک بڑھانے میں وزیراعظم اور کابینہ کا کوئی کردار ہی نہیں، قومی اسمبلی کی بزنس ہاؤس فنانس کمیٹی کے اجلاس میں جس کی صدارت خود اسپیکر ایاز صادق کر رہے تھے یہ غیر منصفانہ، ظالمانہ بھاری اضافہ منظور کیا گیا تھا، کچھ عرصے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا وزیر دفاع خواجہ آصف سے بھی معاملات طے ہو جائیں گے اور یہ بھاری اضافہ کبھی واپس نہیں لیا جائے گا، واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے جس کے اسپیکر سردار ایاز صادق ہیں نئے بجٹ میں پاکستانی عوام کے لیے کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ تو کم از کم تنخواہ ہے ستم ظریفی تو یہی ہے کہ حکومت کی مقرر کردہ ماہانہ تنخواہ بھی لوگوں کو ادا نہیں کی جا رہی، پاکستان کے لاکھوں نوجوان 20 ہزار ، 25 ہزار اور 30 ہزار روپے ماہانہ تنخواہوں پر کام کرنے کے لیے مجبور ہیں اور یہ ان پڑھ افراد نہیں، پڑھے لکھے لوگوں کی بات ہو رہی ہے، یہ اسمبلی، اس کے ارکان اور اسپیکر عوام کو کم از کم ماہانہ تنخواہ دلانے کے لیے کچھ نہیں کرتے اور اپنی تنخواہ ظالمانہ حد تک بڑھانے میں انہیں شرم نہیں آتی، انہوں نے 37 ہزار روپے تنخواہ منظور کی ہے کیا ان میں سے کوئی اس رقم سے ایک چھوٹے گھرانے کا ایک ماہ کا بجٹ بناکر دکھا سکتا ہے۔
مالی بحران کا یہ حال ہے کہ آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑنی پڑ رہی ہے لیکن اخراجات کم کرنے کے بجائے فراخ دلی کے ساتھ داد و دہش کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ نے وزارت کے افسران و ملازمین کو مالی سال -25 2024 کے اختتام تک 29 کروڑ 30 لاکھ 29 ہزار روپے اعزازی تنخواہوں کی مد میں ادا کیے دستاویزات کے مطابق گریڈ 17 تا 22 کے 450 سے زائد افسران کو گزشتہ مالی سال میں بنیادی تنخواہ کے 150 فی صد ایگزیکٹو الاؤنس کی مد میں 26 کروڑ 18 لاکھ 17 ہزار روپے، گریڈ 20 تا 22 کے 20 سے زائد افسران کو ٹرانسپورٹ مونا ٹائزیشن الائونس کی مد میں تین چار بنیادی تنخواہوں کے مساوی 29 کروڑ 30 لاکھ 29 ہزار روپے دیے گئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اسٹیبلشمنٹ اسٹیبلشمنٹ کا وزیر داخلہ شہباز شریف وزیر دفاع ایاز صادق ہزار روپے انہوں نے کرنے کے کے لیے سے بھی
پڑھیں:
نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے کسی وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے، اور یہ منفرد تجربہ جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں سامنے آیا ہے۔
دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈال کر یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نیپال میں سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو چیٹنگ ایپ ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے عوامی ووٹنگ سے عبوری وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ عوامی احتجاج اور حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جب اقتدار کا بحران پیدا ہوا تو نوجوان مظاہرین نے فیصلہ کیا کہ قیادت خود چنی جائے اور اس مقصد کے لیے ڈسکارڈ کو انتخابی پلیٹ فارم بنایا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، نیپال میں نوجوانوں نے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ڈسکارڈ سرور بنایا جس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ سرور احتجاجی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا، جہاں اعلانات، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور خبریں شیئر کی جاتی رہیں۔ جب وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا تو نوجوانوں نے 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی۔ اس میں 7713 افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے 3833 ووٹ سشیلا کارکی کے حق میں پڑے، یوں وہ تقریباً 50 فیصد ووٹ کے ساتھ سب سے آگے نکلیں۔
ووٹنگ کے نتائج کے بعد سشیلا کارکی نے صدر رام چندر پاوڈیل اور آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدی سے ملاقات کی اور بعد ازاں عبوری وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2026 میں عام انتخابات کرائے جائیں گے اور 6 ماہ میں اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اولین ترجیح شفاف الیکشن اور عوامی اعتماد کی بحالی ہوگی۔
خیال رہے کہ ڈسکارڈ 2015 میں گیمرز کے لیے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا، مگر آج یہ ایک بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر جنریشن زیڈ میں مقبول ہے کیونکہ یہ اشتہارات سے پاک فیڈ، ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو چیٹ کے فیچرز فراہم کرتا ہے۔ نیپال میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب جمہوری تاریخ میں ایک نیا اور حیران کن باب ہے جو مستقبل میں عالمی سیاست کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔