سندھ میں محنت کشوں کی کم از کم تنخواہ 40 ہزار مقرر کرنے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سندھ میں محنت کش طبقے کے لیے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت کم از کم ماہانہ اجرت کو نمایاں طور پر بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
مجوزہ فیصلے کے مطابق صوبے بھر کے مزدوروں کو اب 40 ہزار روپے یا اس سے زائد تنخواہ دیے جانے کا امکان ہے۔ اس ضمن میں سندھ کم از کم اجرت بورڈ کے سیکریٹری کی جانب سے ایک سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جس میں مختلف مہارت کے حامل محنت کشوں کے لیے نئی اجرتوں کا تعین کیا گیا ہے۔
مجوزہ اعداد و شمار کے مطابق نیم ہنر مند افراد کے لیے ماہانہ 41,280 روپے، ہنر مند مزدوروں کے لیے 48,910 روپے جبکہ اعلیٰ مہارت رکھنے والے محنت کشوں کے لیے 50,868 روپے کی کم از کم ماہانہ اجرت تجویز کی گئی ہے۔
یہ اقدام سندھ منیمم ویجز ایکٹ 2015ء کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے، جس کا مقصد مزدوروں کے معاشی حقوق کا تحفظ اور ان کی زندگی کے معیار میں بہتری لانا ہے۔ اس فیصلے پر عوامی اور صنعتی رائے لینے کے لیے 14 دن کا وقت دیا گیا ہے، جس کے دوران شہری، ادارے اور متعلقہ فریق اپنی تجاویز یا اعتراضات بورڈ کو جمع کرا سکتے ہیں۔
سیکریٹری اجرت بورڈ رفیق قریشی کے مطابق یہ نئی اجرتیں یکم جولائی 2025ء سے نافذ العمل ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ اضافہ 8.
ان کا مزید کہنا تھا کہ روزانہ کی اجرت کو بھی باقاعدہ بنیادوں پر طے کرتے ہوئے فی گھنٹہ کم از کم اجرت 192 روپے مقرر کی گئی ہے، تاکہ ڈیلی ویجز ملازمین کو بھی تحفظ حاصل ہو۔
اس حوالے سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ان اجرتوں کا اطلاق صرف رجسٹرڈ نہیں بلکہ تمام اداروں پر، خواہ وہ رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ، لازمی طور پر ہوگا۔ یہ فیصلہ مزدوروں کو استحصال سے بچانے اور ایک منصفانہ محنتانہ نظام کے قیام کی جانب ایک قدم سمجھا جا رہا ہے۔
وزیرِ محنت شاہد تھہیم نے مجوزہ اجرتوں کے اعلان کے موقع پر کہا کہ خواتین محنت کشوں کو مردوں کے برابر تنخواہ دی جائے گی اور اس پر عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ایک مزدور دوست پالیسی پر عمل پیرا ہے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔
شاہد تھہیم کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مزدور کی محنت کا ہر قطرہ وقار اور عزت کے ساتھ منایا جائے۔ ہم ان کا پسینہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی ترجیحات میں محنت کش طبقے کی بہتری سر فہرست ہے اور یہ تجاویز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز
اسلام آباد:حکومت امیروں سے پیسہ جمع کرنے کے نام پر سیلاب سے متعلق بحالی کے لیے ایک نیا منی بجٹ پیش کر سکتی ہے جس کے تحت کاروں، سگریٹ، الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے اور جون میں ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں کمی کے برابر درآمدی سامان پر لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت بعض ایسی اشیا کو ہدف بنانے پر غور کر رہی ہے جو امیر طبقے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح 1,100 سے زائد درآمدی سامان پر فیڈرل لیوی کے ذریعے مزید محصولات جمع کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کی منظوری دے دی تو یہ منی بجٹ محصولات کے خسارے کو کم کرے گا اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے رقم اکٹھی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
تاہم زیادہ تر ریلیف اور ریسکیو کا کام صوبے کر رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’ ایکسپریس ٹریبیون ‘‘ کو بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کے روز ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں فلڈ لیوی بل کے ذریعے حکومت کی ممکنہ تجاویز پر غور کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی اضافی آمدنی کی مقدار، شرح اور متاثرہ اشیا کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔
کم از کم 50 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے تاہم اصل رقم اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جولائی تا اگست 40 ارب روپے کا ٹیکس خسارہ سامنے آیا ہے جو اس ماہ کے اختتام تک بڑھ کر 100 ارب روپے سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
اس اقدام سے آئی ایم ایف کے مالیاتی اہداف بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے ترجمانوں نے حکومتی منصوبوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
ذرائع نے بتایا حکومت 5 فیصد لیوی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے جو مخصوص قیمت کی حد سے زائد والے الیکٹرانک سامان پر لاگو ہوگی۔
اسی طرح ہر برانڈ اور قیمت سے قطع نظر ہر سگریٹ کے پیکٹ پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ٹیکس کے برعکس لیوی صرف وفاقی آمدنی ہوتی ہے اور ایف بی آر کے مجموعے کا حصہ نہیں بنتی۔
تاہم غیر ٹیکس محصولات مثلاً فلڈ لیوی سے ایف بی آر کے محصولات کے خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی لیوی کی آئینی حیثیت پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی۔
اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں بڑی صنعتوں کی پیداوار 9 فیصد بڑھنے کے باوجود ایف بی آر اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے حال ہی میں 213 ارب روپے کے جناح میڈیکل کمپلیکس اسلام آباد کی تعمیر کے لیے میونسپل ٹیکس کے نئے مجوزہ منصوبے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور تجویز یہ ہے کہ مخصوص انجن کیپسٹی سے زیادہ والی کاروں پر لیوی عائد کی جائے۔ ممکنہ طور پر 1800 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیاں نشانے پر ہوں گی۔
انڈس موٹرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی اصغر جمالی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ گاڑیوں کی قیمتیں حکومت کے بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے زیادہ ہیں جو کل قیمت کا 30 سے 61 فیصد تک بنتے ہیں۔
بجٹ میں حکومت نے تقریباً 1150اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں کمی کی تھی۔ اب وزارت خزانہ ان اشیا پر اتنی ہی شرح کی لیوی لگانے پر غور کر رہی ہے۔