وٹامن سی کی کمی صرف غذا کا مسئلہ نہیں؟ چھپی ہوئی وجوہات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وٹامن سی کی کمی ایک سنجیدہ مگر اکثر نظر انداز کی جانے والی حالت ہے، جو نہ صرف جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ ذہنی کیفیت پر بھی اثر ڈالتی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ متوازن غذا کا فقدان ہے، خاص طور پر جب غذا میں تازہ پھل اور سبزیاں شامل نہ ہوں۔ تاہم کچھ کم واضح عوامل بھی اس کمی کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے تمباکو نوشی، گردوں کی بیماریاں، کچھ مخصوص ادویات، اور زخم کے بعد جسم کی مرمت کی ضرورت۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ انسانی جسم نہ تو خود وٹامن سی بناتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کر سکتا ہے، اسی لیے اس کا روزانہ کی بنیاد پر استعمال ضروری ہے۔ خواتین کو روزانہ 75 ملی گرام اور مردوں کو 90 ملی گرام وٹامن سی کی ضرورت ہوتی ہے، جو قدرتی ذرائع جیسے سنگترہ، بروکلی اور سرخ مرچ سے پوری کی جا سکتی ہے۔
وٹامن سی کی کمی کی ابتدائی علامات میں جسمانی تھکاوٹ، موٹاپا (خاص طور پر پیٹ کی چربی)، جلد کا خشک ہونا، مسوڑھوں سے خون آنا، زخم دیر سے بھرنا اور چڑچڑاپن شامل ہیں۔ طویل مدت تک کمی برقرار رہے تو جسمانی مدافعتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے اور کولاجن کی تیاری میں کمی واقع ہو جاتی ہے، جس سے جلد اور دیگر بافتوں کی صحت بگڑنے لگتی ہے۔
تمباکو نوش افراد اور گردے کے مریضوں کو وٹامن سی کی زیادہ مقدار درکار ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں فری ریڈیکلز کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے لڑنے کے لیے وٹامن سی ضروری ہو جاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وٹامن سی کی مناسب مقدار جسم کو فالتو چربی پگھلانے اور توانائی فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے، جبکہ اس کی کمی ذہنی کیفیت کو بھی منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔
لہٰذا متوازن غذا کا استعمال اور وٹامن سی سے بھرپور غذاؤں کو روزمرہ معمول کا حصہ بنانا نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وٹامن سی کی کی کمی
پڑھیں:
پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-2
پاکستان کے لیے یہ خبر کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 23 آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے مطابق ان بلاکس کا مجموعی رقبہ 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جب کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جو ڈرلنگ کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ پیش رفت انرجی سیکورٹی اور مقامی وسائل کی ترقی میں ایک بڑی کامیابی ہے، جو پاکستان کی توانائی خودکفالت کے سفر میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کامیاب بولی دہندگان میں پاکستان کی بڑی اور تجربہ کار کمپنیاں شامل ہیں، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، پرائم انرجی، اور فاطمہ پٹرولیم، جنہوں نے مقامی سطح پر اپنی تکنیکی صلاحیت اور مالی ساکھ کو مستحکم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ترکیہ پٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی اور اورینٹ پٹرولیم جیسے بین الاقوامی اداروں کی شمولیت اس منصوبے کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بناتی ہے۔ یہ اشتراک پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر میں غیر ملکی اعتماد کی بحالی اور اس کے پوٹینشل کے بڑھتے ہوئے اعتراف کی علامت ہے۔ امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن کی جانب سے حالیہ بیسن اسٹڈی میں پاکستان کے سمندر میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ممکنہ ذخائر کا عندیہ دیا گیا ہے، جو اگر حقیقت میں تبدیل ہو جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات خود پوری کر سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر ہی حکومت نے ’’آف شور راؤنڈ 2025‘‘ کا آغاز کیا، جو شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے اشارے بھی اس پیش رفت کی بنیاد بنے۔ 2024 میں ڈان نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے ایک دوست ملک کے تعاون سے تین سالہ سمندری سروے مکمل کیا ہے، جس سے تیل و گیس کے بڑے ذخائر کے مقام اور حجم کی نشاندہی ہوئی۔ اسی طرح 2025 میں نیوی کے ریئر ایڈمرل (ر) فواد امین بیگ نے چین کی مدد سے سمندر کی تہہ میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی تصدیق کی، جس سے پاکستان کے سمندری وسائل کی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔ یہ تمام شواہد اور اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس توانائی کے میدان میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ بدقسمتی سے ماضی میں کئی بار ایسے مواقع سیاسی عدم استحکام، پالیسی کے فقدان، اور تکنیکی کمزوریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔