خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور ساتھ ہی ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت کی اطلاعات بھی سامنے آ گئی ہیں۔ حکومتی جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان اسمبلی نے انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن کے امیدوار ان سے رابطے کر رہے ہیں اور ووٹ کے بدلے مالی فوائد کی پیشکش کر رہے ہیں اس معاملے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ارکان اسمبلی سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے اور ہدایت دی ہے کہ ایسے کسی بھی رابطے کی معلومات سے انہیں باخبر رکھا جائے تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں گزشتہ شب پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں سینیٹ الیکشن اور پانچ اگست کو مجوزہ احتجاج کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ اجلاس کے بعد ارکان کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں بعض ارکان نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ہر بار احتجاج کے لیے خیبر پختونخوا کے کارکنوں کو آگے لایا جاتا ہے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد کے کارکنان غیر فعال رہتے ہیں اس لیے آئندہ احتجاج میں دیگر صوبوں کو بھی متحرک کیا جائے پارٹی ذرائع کے مطابق سینیٹ الیکشن سے متعلق شکایات کے علاوہ آئندہ احتجاج کے لائحہ عمل پر بھی گفتگو ہوئی۔ پارٹی نے تمام صوبوں سے ارکان اسمبلی کو کل ہفتے کے روز لاہور طلب کر لیا ہے جہاں پانچ اگست کے احتجاج کے بارے میں حتمی حکمت عملی طے کی جائے گی اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ترجمان ملک عدیل کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ارکان سے سینیٹ الیکشن میں پیسوں کی آفر کے بارے میں رائے لی گئی اور ارکان سے کہا گیا کہ اگر کوئی ایسا رابطہ ہوتا ہے تو فوری طور پر وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ احتجاجی لائحہ عمل پر حتمی فیصلہ لاہور میں ہونے والے آئندہ اجلاس میں کیا جائے گا اور جو بھی فیصلہ قیادت کرے گی پارٹی اس پر مکمل عمل کرے گی

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا سینیٹ الیکشن احتجاج کے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا حکومت بدلنی ہے یا گھسیٹنی ہے؟

خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی 11 نشستوں کے لیے الیکشن 21 جولائی کو ہونے ہیں۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد اب یہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ یہ الیکشن صوبے میں پارٹی پوزیشن بتانے کا سب سے اچھا ٹیسٹ ہونگے۔ سینیٹ الیکشن میں ممبران اسمبلی اپنی دہاڑیاں لگانے کو نتائج ہر بار اوپر نیچے کر کے رکھ دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان صوبے میں حکومت ہٹانے کی کسی مہم کا حصہ بننے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس کے بعد جس کو بھی یہ خیال آ رہا ہے اس کو سکون کر جانا چاہیے۔ لیکن یہ لڑکے ٹلتے دکھائی نہیں دیتے۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو موجودہ یا آئندہ کسی سیٹ اپ میں صوبائی حکومت کا تاج یا تخت ملنے کا امکان نہیں ہے۔

ایسا سمجھنے کی وجہ خود مولانا اور ان کے بیانات ہیں۔ مولانا کو یہ چھوڑیں اگلی اسمبلی سے بھی حکومت ملنے کا کوئی خدشہ لاحق ہوتا تو وہ ایسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے بیانات نہ دے رہے ہوتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اس وقت مولانا کو اپنے صرف ایک علاقائی حریف علی امین گنڈا پور کا سامنا ہے۔ حکومت تبدیلی کی صورت میں گورنر فیصل کریم کنڈی کے علاوہ فتح اللہ میاںخیل بھی کپتان والے خطرے ناک ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریجنل پاور کے طور پر سرگرم ہوتا پاکستان اب اپنا گھر ٹھیک کرے

علی امین گنڈا پور کے علاوہ مولانا فیصل کریم کنڈی اور ڈیرہ سے ہی پی پی کے موجودہ ایم این اے فتح اللہ میانخیل کے بڑے بھائی عمر فاروق میانخیل سے بھی سنہ 1996 میں الیکشن ہار چکے ہیں۔ مولانا وفاقی سیاست کرتے ہیں جبکہ ان کے یہ سارے حریف مقامی سیاست پر ہی فوکس رہتے ہیں۔

جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا، ان سائنسی اصولوں کے تحت جب جب خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن ہوگا۔ ممبران کا دل رسی تڑوا کر بکنے کو کرے گا۔ پی پی بانہیں کھول کر ان کو گلے لگانے کو تیار کھڑی ملے گی۔ اس سب کے ساتھ اب دھیان میں لائیں کہ گورنر کا تعلق بھی پی پی سے ہے۔

موجودہ اتحادی حکومت تشکیل دیتے وقت پاور شیئرنگ فارمولا بھی بنا۔ پی پی کو آئینی عہدے اور دو صوبوں کی حکومت ملی، بلوچستان میں مسلم لیگ نون کے پاس بھی اتنے ممبران اسمبلی تھے کہ وہ بھاگ دوڑ کر حکومت بنا سکتی تھی۔ اس فارمولے میں یہ لازمی طے کیا گیا ہو گا کہ جب بھی کے پی حکومت تبدیل ہوئی تو وزارت اعلیٰ کس کی ہو گی۔ اپنا اندازہ ہے کہ یہ مسلم لیگ نون کو دینے کا فیصلہ ہوا ہو گا۔

مزید پڑھیے: ایران-اسرائیل جنگ بندی کیوں اور کیسے ہوئی؟

آج کل صدر صاحب کے استعفے کی خبریں گرم ہیں۔ ان خبروں کو کے پی میں پی پی کی سرگرمیوں سے جوڑ کر دیکھیں تو کچھ کچھ سمجھ آئے گا کہ یہ خبریں کیوں آ رہی ہیں۔ آصف زرداری گنجائش بنے تو سیاسی پیشرفت کرنے میں پہلے کرنے سے گریز اور دیر نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد نمبر گیم تبدیل ہو گئی ہے۔

بظاہر حکومتی اتحاد کو اب ’2 تباہی‘ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ سیاستدانوں کی جب طاقت بڑھتی ہے تو ان کا موڈ بدلتا ہے اور ایڈونچر کرنے کو مچلنے لگتے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں 9 مئی ملزمان کو سزائیں سنانے کا عدالتی عمل شروع ہو جائے گا۔ الحمدللہ صوبائی اسمبلی کے 2 تہائی ممبران پر مقدمات درج ہیں۔ زیادہ تر مقدمات تو اتنے مزاحیہ ہیں کہ عدالت کے جذبات ہوتے تو مقدمہ بنانے والے کو ہی لما لٹا لیتی۔

کچھ مقدمات ایسے ہیں جن میں ممبران کو سزائیں ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ نااہل ہو سکتے ہیں۔ اس نااہلی کو پکا کرنے کے لیے سپریم کورٹ تک جانے کا طویل راستہ طے کرنا بھی ضروری ہے۔ ممبران کی بڑی تعداد میں نااہلی کی صورت میں گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں۔ تب رونق لگ جائے گی۔

خیبر پختونخوا حکومت کو تبدیل کرنے کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے۔ اس حکومت اور انداز حکومت کے ساتھ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بالکل ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ عسکریت پسندی کنٹول کرنے کے لیے مؤثر صوبائی انتظامیہ اور متحرک وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے۔ جو انتظامیہ کو چابی دینے کے علاوہ ریلیف کا کام بھی تیزی سے کرا سکے۔

بطور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ وہ اپنے خلاف عدم اعتماد کا مؤثر انداز میں سامنا کر سکتے ہیں۔ اپنی وزارت اعلیٰ کو لمبا کھینچ سکتے ہیں۔ لڑائی بڑھے گی جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کے صوبائی حکومت اپنا روٹین کا بزنس (سیاسی کام) نہیں کر سکے گی اور لوگوں کے کام بھی رک جائیں گے۔

مزید پڑھیں: جنگ کی قیمت کمر توڑ دیتی ہے

یہ صوبے کی پرانی سیاسی جماعتوں کے لیے آئیڈیل صورتحال ہو گی کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے ہی بوجھ کے نیچے دبنا شروع ہو جائے۔ ادھر بس سوال ایک ہی ہے کہ اگر خود علی امین گنڈا پور ہی 9 مئی کے کسی کیس میں نااہل ہو گئے تو پھر؟۔ اب دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومت کو تبدیل کرنے والوں کا زور چلتا ہے یا اس حکومت کو گھسیٹنے والوں کے دل کو ٹھنڈ پڑتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

’2 تباہی‘ اکثریت حکومتی اتحاد خیبرپختونخوا حکومت صدر زرداری کی رخصتی کے پی حکومت کی چھٹی وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ الیکشن سے متعلق مولانا سے کسی جماعت نے رابطہ نہیں کیا، ترجمان جے یو آئی
  • اسپیکر کے پی اسمبلی کا مخصوص نشستوں پر ارکان کے حلف کیلئے اجلاس بلانے سے انکار
  • سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کے حلف کے لئے اجلاس بلانے سے معذرت
  • سینیٹ الیکشن سے متعلق کسی جماعت نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ نہیں کیا، ترجمان جے یو آئی
  • پی پی پی، جے یو آئی کی کے پی سینیٹ الیکشن مل کر لڑنے پر مشاورت
  • احتجاجی تحریک کی تیاریاں‘ پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس لاہور میں طلب
  • اسپیکر کے پی اسمبلی کا مخصوص نشستوں پر ارکان کے حلف کیلیے اجلاس بلانے سے انکار
  • خیبر پختونخوا سے سینیٹ الیکشن میں بولیاں لگنا شروع
  • خیبر پختونخوا حکومت بدلنی ہے یا گھسیٹنی ہے؟