الطاف حسین علالت کے باعث لندن کے ہسپتال میں داخل
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
سٹی42: سندھ میں لسانی سٹوڈنٹ پالیٹکس سے سیاست کی ابتدا کرنے والے سینئیر سیاست دان الطاف حسین علالت کے باعث لندن کے ہسپتال میں داخل ہیں۔
1980 کی دہائی میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن APMSO اور اس کے بعد مہاجر قومی موومنٹ بنا کر کراچی میں پر تشدد لسانی سیاست کی ابتدا کرنے والے سینئیر سیاستدان الطاف حسین نے بعد میں اپنی جماعت کو متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے دیا تھا ۔ وہ طویل عرصہ سے لندن میں رہ رہے تھے، آج کل وہ شدید علیل ہیں اور لندن کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہیں۔
حفیظ سنٹر لاہور میں فائر ریسکیو آپریشن ؛ سیکرٹری ایمرجنسی سروسز کا فائر فائٹرز کو خراج تحسین
صحافتی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز الطاف حسین کو طبیعت خراب ہونے پر لندن کے مقامی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں پر وہ زیر علاج ہیں۔
الطاف حسین کے قریبی ساتھی قاسم علی رضا کے مطابق آج اسپتال میں ڈاکٹروں نے الطاف حسین کا چیک اپ کیا اور ان کے کئی ٹیسٹ تجویز کیے جن میں بلڈ ٹیسٹ، ای سی جی، سی ٹی سکین، ایکسرےاور الٹرا ساؤنڈ شامل ہیں۔
قاسم علی رضا نے کہا کہ ہاسپٹل میں الطاف حسین کو خون بھی لگایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے بانی پاکستان اوربین الاقوامی صورتحال، لندن میں متعدد مقدمات اور شدید مالی مشکلات کی وجہ سے طویل عرصے سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
شکر گڑھ میں درمیانے درجے کا سیلاب، زمینی رابطہ منقطع
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: الطاف حسین لندن کے
پڑھیں:
پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
سابق رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب کھل کر سامنے آنا چاہیئے تاکہ عوام خود فیصلہ کریں کہ کون ملک کے استحکام کے لیے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور کون مزاحمت کے نام پر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور سینئر سیاستدان محمود مولوی نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں مفاہمت اور تعمیری سیاست کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد واضح ہے، ہم اس ملک میں مفاہمت، مکالمے اور تعمیری سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ مزاحمت اور تصادم کی سیاست نے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ محمود مولوی نے کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب کھل کر سامنے آنا چاہیئے تاکہ عوام خود فیصلہ کریں کہ کون ملک کے استحکام کے لیے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور کون مزاحمت کے نام پر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو عناصر تصادم چاہتے ہیں، وہ دراصل قوم کو تقسیم اور اداروں کو کمزور کرنے کے خواہاں ہیں، ان کے لیے ہمارا پیغام بالکل واضح ہے کہ اگر آپ واقعی پاکستان کے خیرخواہ ہیں، تو مفاہمت کے راستے پر آئیں، مکالمے میں شامل ہوں اور ایک پرامن اور مستحکم سیاسی ماحول کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ سینئر سیاستدان نے کہا کہ پاکستان آج عالمی سطح پر ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، امریکا، چین اور سعودی عرب جیسے ممالک ہمارے اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں، مگر افسوس کہ اندرونی سطح پر ہم اب بھی سیاسی طور پر کمزور ہیں۔