منی لانڈرنگ کیس؛ پرویز الہٰی کی حاضری معافی کی درخواست منظور، چالان جمع نہ ہو سکا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
لاہور:
منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کی جانب سے چالان جمع نہ کروایا جا سکا جبکہ عدالت نے ان کی حاضری معافی کی درخواست منظور کر لی۔
ایف آئی اے سینٹرل لاہور کے جج نے منی لانڈرنگ سے متعلق مقدمے کی سماعت کی اور اس دوران رہنما پی ٹی آئی چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل عامر سعید راں نے پرویز الہٰی کی حاضری معافی سے متعلق درخواست دی اور بتایا کہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکے۔
عدالت نے پرویز الہٰی کی حاضری معافی کی درخواست منظور کر لی اور ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ مقدمہ کا چالان کہاں ہے، تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ چالان جمع کروانے کے لیے مہلت دی جائے۔
پرویز الہٰی کے وکیل عامر سعید راں نے کہا کہ ایف آئی اے نے اس سے قبل تین مرتبہ مہلت مانگی لیکن پرویز الہٰی کے خلاف الزامات ثابت نہیں کر سکے، ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت نہیں صرف انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے مہلت مانگی جاتی ہے، الزامات لگائے ہیں تو چالان جمع کروائیں۔
وکیل عامر سعید راں نے کہا کہ مونس الہٰی بے قصور ہیں، جان بوجھ کر مقدمے میں نامزد کیا گیا، مونس الہٰی کے خلاف ایک الزام ثابت نہیں ہوا، مونس کے ریڈ وارنٹ نکال کر قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ حکومت کے پاس منی لانڈرنگ کے کوئی شواہد نہیں ہیں، صرف سیاسی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کے لیے مقدمہ قائم کیا گیا، اگر کوئی ثبوت ہوتے تو حکومت عدالت میں پیش کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
عدالت نے ایف آئی اے کو مقدمہ چالان جمع کروانے کیلئے 18 اگست تک آخری موقع دے دیا اور کہا کہ چالان نہ آیا تو قانون کے مطابق کارروائی آگے بڑھے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی حاضری معافی پرویز الہ ی کے منی لانڈرنگ ایف آئی اے چالان جمع عدالت نے کہا کہ
پڑھیں:
جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد: جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج فرائض انجام دینے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کی سماعت کے قابل ہونے پر قانونی معاونت طلب کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہیں اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
دورانِ سماعت اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندگان روسٹرم پر آ گئے اور اس درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلا نمائندگان نے پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فی الوقت عدالت صرف ابتدائی اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی نہ تو جج صاحب کو اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔
عدالت اس اہم آئینی سوال پر غور کر رہی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہو، تو کیا ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟
اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے، اور اگر عدالتیں اس نوعیت کی پٹیشنز کو سماعت کے لیے منظور کرتی رہیں تو یہ عدلیہ کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
عدالت نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ اس کیس میں فریق ہیں؟ ساتھ ہی کہا کہ اگر نوٹس جاری کیا گیا تو تمام متعلقہ فریقین کو سنا جائے گا۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے کہا کہ بار اس معاملے میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ بار کا آئینی مؤقف قابلِ قدر ہے، تاہم اس وقت عدالت صرف ابتدائی قانونی اعتراضات پر غور کر رہی ہے۔
Post Views: 6