اداکارہ حمیرا اصغر: خاموش فلیٹ کی آخری کہانی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
جب دنیا میں کوئی شخص مر جائے تو لوگ اسے روتے ہیں، مگر جو تنہائی میں مرے، اسے صرف خاموشی دفناتی ہے۔ تنہائی کی موت سب سے سست، سب سے سفاک موت ہوتی ہے ، کوئی مرنے والے کو مرا ہوا نہیں سمجھتا، کوئی ماتم بھی نہیں کرتا۔
ایسا ہی اداکارہ حمیرا اصغر کے ساتھ ہوا۔
پہلا منظر: روشنیوں سے سجی دنیا کی پرچھائیاں
وہ روشنیوں کی دنیا تھی۔ کیمروں کی چمک، ریمپ پر چلتے ماڈل، تصویروں میں مسکراتے چہرے – ان میں ایک چہرہ حمیرا اصغر کا بھی تھا۔ لاہور کے ایک متوسط مگر باوقار گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی خوابوں کا تعاقب کرتے ہوئے کراچی پہنچی تھی۔ ماڈلنگ اور اداکاری کا جنون اسے وہاں لے گیا، جہاں رنگ تو تھے، لیکن اکثر تعلقات صرف وقتی اور مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔
لاہور کے علاقے کیو بلاک، ماڈل ٹاؤن کی رہنے والی حمیرا نے سنہ 2018 میں کراچی کے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک اپارٹمنٹ میں سکونت اختیار کی۔ اتحاد کمرشل کی ایک خاموش سی گلی میں واقع سکس سی عمارت کے تیسری منزل پر واقع اس اپارٹمنٹ میں وہ اکیلی رہتی تھیں۔ بظاہر یہ محض ایک رہائش گاہ تھی، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک تنہائی کا قیدخانہ بن چکا تھا۔
دوسرا منظر: خاموشی کا شور
وقت گزرتا رہا، کیمرے کے فلیش کم ہونے لگے، پروجیکٹس چھننے لگے اور پھر سوشل میڈیا پر بھی حمیرا کی موجودگی مدھم ہونے لگی۔ ستمبر 2024 میں ان کی آخری انسٹاگرام پوسٹ سامنے آئی، جس میں وہ ایک فیشن شوٹ میں مصروف دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے بعد، یکایک خاموشی چھا گئی۔
2 اکتوبر کو سٹائلسٹ دانش مقصود سے ان کا آخری رابطہ ہوا۔ ’آپ کی ٹیم کے ساتھ کام کر کے لطف آیا‘ – یہ حمیرا کا آخری پیغام تھا۔ 7 اکتوبر کو ان کا واٹس ایپ اکاؤنٹ آخری بار آن لائن نظر آیا۔ اس کے بعد حمیرا کی زندگی جیسے ایک غار میں دفن ہو گئی ہو۔
تیسرا منظر: بند دروازہ، خاموش دیواریں
8 جولائی 2025 کو کراچی پولیس ایک عدالتی حکم پر اپارٹمنٹ نمبر 3 پر پہنچی۔ دروازہ بند تھا، اندر سے۔ بار بار کی دستک کے بعد جب دروازہ نہ کھلا تو پولیس نے بیلف کے ساتھ زبردستی دروازہ توڑا۔ اندر داخل ہونے پر ایک المناک منظر نے پولیس اہلکاروں کا استقبال کیا۔ زمین پر ایک لاش تھی – کئی ماہ پرانی، مکمل طور پر گل چکی، پہچاننا مشکل۔
وہ لاش تھی حمیرا اصغر کی۔ وہی لڑکی جو روشنیوں کی دنیا کا چمکتا ستارہ تھی۔
چوتھا منظر: لاوارث کی آوازیں
لاش کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیان 8 سے 10 ماہ گزر چکے تھے۔ جسم مکمل طور پر ڈی کمپوز ہو چکا تھا۔ تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا، لیکن موت کی وجہ ابھی بھی لیبارٹری تجزیے کی منتظر تھی۔
جب خبر میڈیا میں آئی، سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سوال اٹھے: کیا وہ لاوارث تھیں؟ ان کے گھر والے کہاں تھے؟ کیا وہ ان سے ناراض تھے؟ کیا وہ سب کچھ چھوڑ کر تنہائی میں ڈوب گئی تھیں؟
پانچواں منظر: رشتوں کا جواب
ابتدا میں یہ افواہیں پھیلیں کہ خاندان نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔ ان کے بھائی نوید اصغر اور بہنوئی کراچی پہنچے، قانونی تقاضے پورے کیے، اور لاش وصول کی۔ نوید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا:
’یہ کہنا کہ والدین نے لاش وصول کرنے سے انکار کیا، سراسر غلط ہے۔ حمیرا ایک خود مختار لڑکی تھی، ہم اس سے باقاعدہ رابطہ رکھتے تھے۔ کچھ مہینے سے رابطہ نہیں ہوا تھا، لیکن ہم مسلسل تلاش میں تھے۔‘
ان کے چچا محمد علی نے بھی کہا، ’اس کا خاندان اس سے ناراض نہیں تھا، وہ خود کم رابطہ کرتی تھی۔ کبھی 6، کبھی 8مہینے بعد لاہور آتی تھی۔‘
چھٹا منظر: ایک شہر، ایک لاش، اور کئی سوالات
ڈیفینس کی وہ عمارت جہاں حمیرا رہتی تھی، وہ اب بھی خاموش کھڑی ہے۔ اس کے اپارٹمنٹ پر پولیس کی زرد پٹی ہے، جس پر لکھا ہے:
’خبردار، اس سے آگے جانا منع ہے۔‘
پڑوسیوں کو کچھ خبر نہیں تھی۔ نیچے موجود ویٹرنری کلینک کے عملے نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ کئی ماہ تک ایک لاش ایک بند اپارٹمنٹ میں پڑی رہی، لیکن کسی نے محسوس نہ کیا – یہ شاید ایک بڑے شہر کی بےحسی کا ثبوت تھا، یا ایک تنہا زندگی کی خاموش موت کا۔
ساتواں منظر: آخری سفر
بالآخر، لاہور کے علاقہ ماڈل ٹاؤن کی فضائیں خاموش ہو گئیں، جب کیو بلاک کی مسجد میں حمیرا اصغر کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ان کے اہلِ خانہ، چند احباب، میڈیا کے نمائندے اور وہ لوگ بھی موجود تھے جو صرف اس درد کو محسوس کرنے آئے تھے جو کسی کے اپنے سے کٹ جانے کا ہوتا ہے۔
قبرستان میں مٹی کے نیچے وہ خواب دفن کر دیے گئے، جو کبھی کیمرے کی چمک میں جگمگاتے تھے۔
اختتام: کیا ہم نے اسے کھو دیا؟
حمیرا کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں تھی، یہ ایک معاشرتی المیہ تھا۔ یہ کہانی اس عورت کی تھی جس نے خود مختاری کا انتخاب کیا، لیکن تنہائی پائی۔ جس نے شناخت بنائی، لیکن اختتام میں کوئی نہ پہچان سکا۔
یہ ایک سوال بھی ہے، ہم سب سے:
کیا ہم زندہ لوگوں کی خاموشیوں کو سننے کا ہنر کھو چکے ہیں؟
کیا سوشل میڈیا پر موجودگی ہی آج کے دور میں تعلق کا ثبوت ہے؟
یا کیا تنہائی اب موت کا دوسرا نام بنتی جا رہی ہے؟
یہ کہانی ختم ہو گئی، لیکن اس سے جڑے سوال ابھی باقی ہیں۔
جیسا کہ اب تک کی معلومات ہیں کہ حمیرا اصغر کی ممکنہ طور پر موت اکتوبر سن دو ہزار چوبیس میں ہوئی، تب سے اب تک اس کی لاش فلیٹ میں پڑی رہی، پہلے اس میں آہستہ آہستہ بدبو پیدا ہونا شروع ہوئی، پھر بدبو اپنے انتہائی درجے کو پہنچ کر آہستہ آہستہ دم توڑ گئی اور لاش نے گلنا سڑنا شروع کردیا اور اپنی انتہا کو پہنچ گئی، لیکن اس دوران والدین، بہن بھائیوں، دوست احباب اور دیگر جاننے والوں میں سے کسی کو بھی فکر نہ ہوئی کہ حمیرا کیوں خاموش ہے؟ کیا کوئی اتنا بھی لاتعلق رہ سکتا ہے؟
یہ ایک گہرا اسرار ہے جس کا بھید شاید کسی نہ کسی دن کھل جائے۔ لیکن یہ بھید تو کھل چکا ہے کہ کوئی لاکھ اپنوں کے بغیر جینا چاہے، کائناتی حقیقت تو یہی ہے کہ تنہا جیا نہیں جاسکتا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اداکارہ حمیرا اصغر عبیداللہ عابد اداکارہ حمیرا اصغر حمیرا کی کے ساتھ یہ ایک ا ہستہ
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔