WE News:
2025-11-03@02:03:46 GMT

اداکارہ حمیرا اصغر: خاموش فلیٹ کی آخری کہانی

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

جب دنیا میں کوئی شخص مر جائے تو لوگ اسے روتے ہیں، مگر جو تنہائی میں مرے، اسے صرف خاموشی دفناتی ہے۔ تنہائی کی موت سب سے سست، سب سے سفاک موت ہوتی ہے ، کوئی مرنے والے کو مرا ہوا نہیں سمجھتا، کوئی ماتم بھی نہیں کرتا۔
ایسا ہی اداکارہ حمیرا اصغر کے ساتھ ہوا۔

پہلا منظر: روشنیوں سے سجی دنیا کی پرچھائیاں

وہ روشنیوں کی دنیا تھی۔ کیمروں کی چمک، ریمپ پر چلتے ماڈل، تصویروں میں مسکراتے چہرے – ان میں ایک چہرہ حمیرا اصغر کا بھی تھا۔ لاہور کے ایک متوسط مگر باوقار گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی خوابوں کا تعاقب کرتے ہوئے کراچی پہنچی تھی۔ ماڈلنگ اور اداکاری کا جنون اسے وہاں لے گیا، جہاں رنگ تو تھے، لیکن اکثر تعلقات صرف وقتی اور مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔

لاہور کے علاقے کیو بلاک، ماڈل ٹاؤن کی رہنے والی حمیرا نے سنہ 2018 میں کراچی کے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک اپارٹمنٹ میں سکونت اختیار کی۔ اتحاد کمرشل کی ایک خاموش سی گلی میں واقع سکس سی عمارت کے تیسری منزل پر واقع اس اپارٹمنٹ میں وہ اکیلی رہتی تھیں۔ بظاہر یہ محض ایک رہائش گاہ تھی، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک تنہائی کا قیدخانہ بن چکا تھا۔

دوسرا منظر: خاموشی کا شور

وقت گزرتا رہا، کیمرے کے فلیش کم ہونے لگے، پروجیکٹس چھننے لگے اور پھر سوشل میڈیا پر بھی حمیرا کی موجودگی مدھم ہونے لگی۔ ستمبر 2024 میں ان کی آخری انسٹاگرام پوسٹ سامنے آئی، جس میں وہ ایک فیشن شوٹ میں مصروف دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے بعد، یکایک خاموشی چھا گئی۔

2 اکتوبر کو سٹائلسٹ دانش مقصود سے ان کا آخری رابطہ ہوا۔ ’آپ کی ٹیم کے ساتھ کام کر کے لطف آیا‘ – یہ حمیرا کا آخری پیغام تھا۔ 7 اکتوبر کو ان کا واٹس ایپ اکاؤنٹ آخری بار آن لائن نظر آیا۔ اس کے بعد حمیرا کی زندگی جیسے ایک غار میں دفن ہو گئی ہو۔

فلیٹ جہاں اداکارہ حمیرا اصغر کو تنہائی نے مار ڈالا۔ تصویر: بی بی سی

تیسرا منظر: بند دروازہ، خاموش دیواریں

8 جولائی 2025 کو کراچی پولیس ایک عدالتی حکم پر اپارٹمنٹ نمبر 3 پر پہنچی۔ دروازہ بند تھا، اندر سے۔ بار بار کی دستک کے بعد جب دروازہ نہ کھلا تو پولیس نے بیلف کے ساتھ زبردستی دروازہ توڑا۔ اندر داخل ہونے پر ایک المناک منظر نے پولیس اہلکاروں کا استقبال کیا۔ زمین پر ایک لاش تھی – کئی ماہ پرانی، مکمل طور پر گل چکی، پہچاننا مشکل۔

وہ لاش تھی حمیرا اصغر کی۔ وہی لڑکی جو روشنیوں کی دنیا کا چمکتا ستارہ تھی۔

چوتھا منظر: لاوارث کی آوازیں

لاش کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیان 8 سے 10 ماہ گزر چکے تھے۔ جسم مکمل طور پر ڈی کمپوز ہو چکا تھا۔ تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا، لیکن موت کی وجہ ابھی بھی لیبارٹری تجزیے کی منتظر تھی۔

جب خبر میڈیا میں آئی، سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سوال اٹھے: کیا وہ لاوارث تھیں؟ ان کے گھر والے کہاں تھے؟ کیا وہ ان سے ناراض تھے؟ کیا وہ سب کچھ چھوڑ کر تنہائی میں ڈوب گئی تھیں؟

پانچواں منظر: رشتوں کا جواب

ابتدا میں یہ افواہیں پھیلیں کہ خاندان نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔ ان کے بھائی نوید اصغر اور بہنوئی کراچی پہنچے، قانونی تقاضے پورے کیے، اور لاش وصول کی۔ نوید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا:

’یہ کہنا کہ والدین نے لاش وصول کرنے سے انکار کیا، سراسر غلط ہے۔ حمیرا ایک خود مختار لڑکی تھی، ہم اس سے باقاعدہ رابطہ رکھتے تھے۔ کچھ مہینے سے رابطہ نہیں ہوا تھا، لیکن ہم مسلسل تلاش میں تھے۔‘

ان کے چچا محمد علی نے بھی کہا، ’اس کا خاندان اس سے ناراض نہیں تھا، وہ خود کم رابطہ کرتی تھی۔ کبھی 6، کبھی 8مہینے بعد لاہور آتی تھی۔‘

چھٹا منظر: ایک شہر، ایک لاش، اور کئی سوالات

ڈیفینس کی وہ عمارت جہاں حمیرا رہتی تھی، وہ اب بھی خاموش کھڑی ہے۔ اس کے اپارٹمنٹ پر پولیس کی زرد پٹی ہے، جس پر لکھا ہے:

’خبردار، اس سے آگے جانا منع ہے۔‘

پڑوسیوں کو کچھ خبر نہیں تھی۔ نیچے موجود ویٹرنری کلینک کے عملے نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ کئی ماہ تک ایک لاش ایک بند اپارٹمنٹ میں پڑی رہی، لیکن کسی نے محسوس نہ کیا – یہ شاید ایک بڑے شہر کی بےحسی کا ثبوت تھا، یا ایک تنہا زندگی کی خاموش موت کا۔

فلیٹ کا دروازہ جہاں اداکارہ حمیرا اصغر 2018سے اب تک مقیم تھیں، کو سیل کردیا گیا۔ نتصویر: بی بی سی

ساتواں منظر: آخری سفر

بالآخر، لاہور کے علاقہ ماڈل ٹاؤن کی فضائیں خاموش ہو گئیں، جب کیو بلاک کی مسجد میں حمیرا اصغر کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ان کے اہلِ خانہ، چند احباب، میڈیا کے نمائندے اور وہ لوگ بھی موجود تھے جو صرف اس درد کو محسوس کرنے آئے تھے جو کسی کے اپنے سے کٹ جانے کا ہوتا ہے۔

قبرستان میں مٹی کے نیچے وہ خواب دفن کر دیے گئے، جو کبھی کیمرے کی چمک میں جگمگاتے تھے۔

اختتام: کیا ہم نے اسے کھو دیا؟

حمیرا کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں تھی، یہ ایک معاشرتی المیہ تھا۔ یہ کہانی اس عورت کی تھی جس نے خود مختاری کا انتخاب کیا، لیکن تنہائی پائی۔ جس نے شناخت بنائی، لیکن اختتام میں کوئی نہ پہچان سکا۔

یہ ایک سوال بھی ہے، ہم سب سے:
کیا ہم زندہ لوگوں کی خاموشیوں کو سننے کا ہنر کھو چکے ہیں؟
کیا سوشل میڈیا پر موجودگی ہی آج کے دور میں تعلق کا ثبوت ہے؟
یا کیا تنہائی اب موت کا دوسرا نام بنتی جا رہی ہے؟

یہ کہانی ختم ہو گئی، لیکن اس سے جڑے سوال ابھی باقی ہیں۔

جیسا کہ اب تک کی معلومات ہیں کہ حمیرا اصغر کی ممکنہ طور پر موت اکتوبر سن دو ہزار چوبیس میں ہوئی، تب سے اب تک اس کی لاش فلیٹ میں پڑی رہی، پہلے اس میں آہستہ آہستہ بدبو پیدا ہونا شروع ہوئی، پھر بدبو اپنے انتہائی درجے کو پہنچ کر آہستہ آہستہ دم توڑ گئی اور لاش نے گلنا سڑنا شروع کردیا اور اپنی انتہا کو پہنچ گئی، لیکن اس دوران والدین، بہن بھائیوں، دوست احباب اور دیگر جاننے والوں میں سے کسی کو بھی فکر نہ ہوئی کہ حمیرا کیوں خاموش ہے؟ کیا کوئی اتنا بھی لاتعلق رہ سکتا ہے؟

یہ ایک گہرا اسرار ہے جس کا بھید شاید کسی نہ کسی دن کھل جائے۔ لیکن یہ بھید تو کھل چکا ہے کہ کوئی لاکھ اپنوں کے بغیر جینا چاہے، کائناتی حقیقت تو یہی ہے کہ تنہا جیا نہیں جاسکتا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

اداکارہ حمیرا اصغر عبیداللہ عابد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اداکارہ حمیرا اصغر عبیداللہ عابد اداکارہ حمیرا اصغر حمیرا کی کے ساتھ یہ ایک ا ہستہ

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • مٹیاری وگردنواح میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا، پولیس خاموش
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • شاہ محمود قریشی کی پارٹی کے سابق رہنمائوں سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی 
  • شاہ محمود قریشی سے سابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • ’ماشا اینڈ دی بیئر‘ اور روسی قدامت پسندوں کی بے چینی کا سبب کیوں بنا گیا؟
  • شاہ محمود قریشی سے پارٹی رہنماوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
  • افشاں قریشی نے اپنی خوبصورت محبت کی کہانی سنادی