خیبرپختونخوا بدقسمتی سے ترقی کے دوڑ میں پیچھے رہ گیا: گورنر فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا بے پناہ قدرتی وسائل، تاریخی ورثے اور انسانی صلاحیتوں سے مالا مال صوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر اس صوبے کو ترقی، خوش حالی اور سرمایہ کاری کا مرکز بنائیں۔
میڈیا ذرائع کےمطابق گورنر ہاؤس پشاور میں برین ڈیزائنرکے زیراہتمام ایکسپلور اینڈ انویسٹ خیبر پختونخوا ریجن کے عنوان سے منعقدہ چھٹی کانفرنس سے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کیا اور مختلف کاروباری شخصیات میں ایوارڈز بھی تقسیم کیے-
انہوں نے کہا کہ آج کی کانفرنس میں پیش کی جانے والی تجاویز کو متعلقہ فورمز کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور گورنر ہاؤس کی جانب سے مکمل تعاون یقینی بنایا جائے گا۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا ابھرتا ہوا تجارتی، صنعتی، سیاحتی اور ٹیکنالوجی کا مرکز بن چکا ہے، یہاں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں، جن میں قابلِ تجدید توانائی، معدنیات، زرعی صنعت، آئی ٹی اور سیاحت کے شعبے نمایاں ہیں۔
گورنر کے پی نے کہا کہ حکومت نے ٹیکس اصلاحات، خصوصی اقتصادی زونز اور سرمایہ کار دوست پالیسیوں کے ذریعے کاروباری ماحول کو بہتر بنایا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خیبرپختونخوا کے عوام بالخصوص نوجوان طبقہ ہی اصل طاقت ہیں، حکومت ان کی فنی تربیت، ٹیکنالوجی کی تعلیم اور رہنمائی پر توجہ دے رہی ہے تاکہ ایک باصلاحیت، ہنرمند اور کاروبار دوست نسل تیار ہو۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیصل کریم کنڈی
پڑھیں:
خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو چترال میں اسپاغ لشٹ کے قریب دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، انھوں نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال خیبرپختونخوا کا خوبصورت علاقہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ دانش اسکولز میں ایچی سن کے معیار کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور غریب ، یتیم اور عام آدمی کے بچے بھی یہاں مفت تعلیمی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ کسی پر احسان نہیں، ریاست کا فریضہ ہے۔ انھوں نے گیس پلانٹ منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا اور اپر چترال کے لیے بجلی کی یکسان ٹیرف مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اگلے ہفتے چترال بھیجنے کا اعلان کیا۔
اپر چترال میں جدید اسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز طلبہ کے لیے میرٹ پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی اسکیم کا اجرا کیا ہے، یہ لیپ ٹاپ چترال کے ہونہار طلبا کو بھی ملیں گے۔
چترال میں تعلیمی اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دانش اسکول کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ چترال ایک انتہائی خوبصورت اور وسیع وعریض ضلع ہے۔ یہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔
خصوصاً اس علاقے میں دیہی آبادی جن کا کی روزی کا دارومدار گلہ بانی ہے، ان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گلہ بانوں کے لیے چراگاہوں کا ایشو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
گلہ بانوں کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس علاقے میں روزگار اور خوش حالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت، کاروباری طبقے اور افسرشاہی کو پسماندہ اضلاع کی پسماندہ آبادی کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ چترال میں ٹورازم کو بھی خاصی ترقی دی جا سکتی ہے۔
اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور برادریاں زبان اور ثقافت کے اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے قریب ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پچھلے دنوں گوجری زبان کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا اور اہم اقدام ہے۔
اس حوالے سے چترال میں بھی گوجری زبان بولنے والوں کی آبادی کی ترقی کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر فون کرکے مبارکباد دی ہے اور انھیں پیشکش کی ہے کہ مل کر ترقی، خوشحالی، بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، وفاق ان سے مکمل تعاون کرے گا۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ بھی تشکیل پا گئی ہے، صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ کو صوبہ خیبرپختونخوا کی تعمیر وترقی کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔
خیبرپختونخوا پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں سیاحت کی صنعت کا بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں قیمتی معدنیات جن میں نایاب اور انتہائی قیمتی جیمزا سٹونز بھی شامل ہیں، زمرد (ایمرالڈ)، تورملین، ایکوامرین، زرد اور نیلا یاقوت (روبی)، اور ڈائمنڈ جیسے قدرتی جیمز اسٹونز وافر مقدار میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ سنگ مرمر، بلیک گرے نائٹ، سفید گرے نائٹ اور دیگر قیمتی ماربل کے وسیع ذخائر صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی بھی اس صوبے میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالامال یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے۔
اگر اس خطے کی ترقی پر یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے چند برسوں میں یہ صوبہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی پر قابو پایا جائے، جرائم کی روک تھام ہو اور ایسے علاقوں میں قانون کا نفاذ یقینی ہو جہاں جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے موجود ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ صرف چترال کو ہی مدنظر رکھ لیں تو اس ایک ضلعے کو ہی اگر ٹورازم کے لیے محفوظ بنا دیا جائے تو اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ چترال بونی شندور 153کلومیٹر روڈ پر کام جاری ہے، چترال ایون 46کلومیٹر روڈ آیندہ سال مئی تک مکمل کر لی جائے گی، لواری ٹنل کی شمالی رسائی کے 7کلومیٹر حصے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم نے اپر چترال کے لیے وفاق کی طرف سے یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں اور کالجز قائم ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں نسلی اور ثقافتی ڈائیورسٹی بھی بہت زیادہ ہے۔
خیبرپختونخوا کی سرحد چونکہ افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے یہ صوبہ کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے پروموٹ ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا خیبرپختونخوا میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ نہیں سکتیں۔
خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کے لیے کاروباری سرگرمیوں کا بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی اور قبائلی کلچر مڈل کلاس کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی کامیابی خیبرپختونخوا میں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا استنبول میں اختتام پذیر ہوا پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے 4 برس سے افغان حکام کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر قابل اعتماد معلومات فراہم کیں تاہم بار بار کی یقین دھانی کے باوجود افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔
مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی نازک مذاکرات تھے۔ ترکیہ کا مشترکہ اعلامیہ مذاکرات کا ایک کورنگ نوٹ تھا۔ یہ ایک کتاب کے سرروق کی طرح تھا نہ کہ مکمل کتاب کی طرح ۔
افغان فریق کی جانب سے جنگ بندی کے تسلسل کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے تسلسل کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریری ضمانتوں کا طلب کیا جانا مذاکرات کا حصہ تھا۔
ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آیندہ نشست 6 نومبر کو ہو گی جس کی تکمیل پر بیان جاری کریں گے۔ آیندہ مذاکرات میں انٹرلوکیٹرز حکومتی سطح کے افراد اور سیاسی نمایندگی ہو گی۔
مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ سیکیورٹی صورت حال کا تقاضہ ہے ابھی سرحد کو بند رکھا جائے۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی امورِ مملکت اور رموزِ مملکت جیسی اصطلاحات پر گہرا غور وفکر کرنا چاہیے۔ طالبان اگر حکومت میں آ گئے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو فاتح یا مطلق العنان حاکم اور بادشاہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں کئی کروڑ عوام آباد ہیں۔
یہاں مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہ یا قومیتیں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہیں۔ خانہ بندوش قبائل بھی افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کا اقتدار کسی بھی افغان گروپ کے پاس ہو، اس کا پہلا فرض منصبی افغانستان کے عوام کی تعمیر وترقی ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام اور فعل کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج اگر طالبان اگر حکومت میں ہیں تو وہ جو چاہیں کریں، اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنے کسی فعل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو یہ ایک غلط طرزعمل اور طرز حکمرانی ہے بلکہ آمریت سے بھی بڑھ کر ہے۔