Daily Sub News:
2025-07-12@22:43:27 GMT

ناؤرو کے صدر چین کےساتھ تعلقات  کے حوالے سے پرامید  

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

ناؤرو کے صدر چین کےساتھ تعلقات  کے حوالے سے پرامید  

ناؤرو کے صدر چین کےساتھ تعلقات  کے حوالے سے پرامید   WhatsAppFacebookTwitter 0 12 July, 2025 سب نیوز


بیجنگ :ناؤرو کے صدرڈیوڈ ایڈیون نے چائنا میڈیا گروپ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ چین کا ترقی کا تجربہ قابل تقلید ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں چین سے سیکھنے کی کوشش کروں ،نہ صرف ملکی ترقی کے حوالے سے چینی تعاون حاصل کروں بلکہ چینی عوام کے بنیادی اقدار سے بھی رہنمائی لوں۔ یہی اقدار ہیں جن کی رہنمائی میں چینی عوام نے  پورے معاشرے کی ترقی کو فروغ دیا، کروڑوں لوگوں کو غربت سے باہر نکالا اور چین کو  جدید ترین  ممالک میں سے ایک بنایا ہے۔

ایڈیون نے کہا کہ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد سے ناؤرو نے ترقی اور معاشی نمو میں بہت شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم چین کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں پر اعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ناؤرو اور چین کے رہنماؤں کی حیثیت سے میرا اور صدر شی جن پھنگ کا مقصد  دونوں حکومتوں اور عوام کو قریب لانا اور یکجہتی پر مبنی مستقبل کی تعمیر  ہے ۔ یہی صدر شی جن پھنگ کی طرف سے پیش کردہ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا تصور ہے۔

خصوصی انٹرویو میں صدر ایڈیون نے کہا کہ اگرچہ ناؤرو اور چین  سمندر کے پار واقع ہیں لیکن تاریخ اور حقائق دونوں ممالک اور ان کے عوام کو مضبوطی سے جوڑتے ہیں۔ صدر ایڈیون نے کہا کہ وہ  یقین رکھتے ہیں کہ ناؤرو تاریخ کے صحیح رخ پر ہے، اور یہ کہ دونوں ممالک مشترکہ خوشحالی اور ترقی کے نئے باب کے لیے نئی قوت کا اضافہ کریں گے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچینی صدر کا گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو دانش مندانہ ہے، وزیر اطلاعات سرکاری اداروں کے مجموعی نقصانات 59کھرب روپے سے تجاوز کرگئے احبابِ فکر و عمل تنظیم کی شجر کاری مہم – سرسبز پاکستان کی جانب ایک مثبت قدم چین-پاکستان زرعی تعاون دو طرفہ ترقی اور مشترکہ فوائد کو فروغ دے رہا ہے ملک بھر کی بزنس کمیونٹی اتحاد کا مظاہرہ کرے اور کسی بھی قسم کے احتجاج سے فوری طور پر گریز کیا جائے، عاطف اکرام.

.. ملک میں چینی کی قیمت نے ڈبل سنچری مکمل کرلی ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 0.95فیصد بڑھ گئی، رپورٹ جاری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ناو رو

پڑھیں:

دہشت گردوں کی خفیہ سازباز

اسلام ٹائمز: تل ابیب عرصہ دراز سے مغربی ایشیا خطے میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے تاکہ اس طرح عالمی برادری میں اپنی شدید گوشہ نشینی کا ازالہ کر سکے اور خود کو درپیش خطرات کم کر سکے۔ اسرائیل واضح طور پر عرب حکومتوں سے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے بڑے شہروں میں ایسے بینر دکھائی دیتے ہیں جن میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے ساتھ مغربی ایشیائی ممالک شام، لبنان، فلسطین، مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عمان کے سربراہان کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ ایسے ہی ایک بینر میں دعوی کیا گیا ہے کہ "نئے مشرق وسطی کی تشکیل کا وقت آن پہنچا ہے!"۔ اسی طرح ایک اور بینر پر لکھا ہے "ایک وقت جنگ کا تھا، ایک وقت مفاہمت کا اور اب ابراہیم معاہدے کا وقت ہے"۔ تحریر: علی حریت
 
شام کے نام نہاد صدر ابومحمد الجولانی نے پیر 7 جولائی کے دن متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی کا دورہ کیا اور اس ملک کے صدر شیخ محمد بن زاید سے ملاقات کی۔ لیکن قصہ صرف یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ اسی وقت غاصب صیہونی رژیم کی قومی سلامتی کونسل کا سربراہ صخی ہینگبی بھی وہاں موجود تھا۔ شامات علاقے کا آزاد اخبار "الجمہوریہ" منگل 8 جولائی کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ان دونوں افراد (جولانی اور ہینگبی) نے ابوظہبی میں خفیہ ملاقات کی ہے۔ اس اخبار نے اپنے باخبر ذرائع کے بقول دعوی کیا کہ یہ ملاقات "اس نوعیت کی پہلی ملاقات" نہیں تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر صیہونی رژیم نے سراسیمہ ہو کر اعلان کیا کہ ہینگبی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ ہی نہیں کیا بلکہ وہ نیتن یاہو اور اسرائیلی وفد کے ہمراہ واشنگٹن گیا ہوا ہے۔
 
یاد رہے ان دنوں نیتن یاہو امریکہ گیا ہوا تھا تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات اور ایران مخالف اقدامات کے بارے میں بات چیت کرے۔ اسے اس بات کی کوئی توقع نہیں تھی کہ سرکاری طور پر تعلقات استوار ہونے سے پہلے ایک اعلی سطحی صیہونی عہدیدار کی شام کے صدر سے ملاقات فاش ہو جائے گی۔ اس سے پہلے بھی ہنگبی اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں اس بارے میں اشارہ کر چکا تھا۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم نے اس کا یہ بیان منظرعام پر لایا تھا۔ ہنگبی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا: "شام اور لبنان ابراہیم معاہدے میں شمولیت کے خواہاں ہیں اور اس وقت براہ راست اور روزانہ کی بنیاد پر ان سے سیاسی اور سیکورٹی امور کے بارے میں گفتگو جاری ہے"۔ ہنگبی نے مزید کہا کہ اگر شام کے ساتھ تعلقات معمول پر آ جاتے ہیں تو ہم بفر زون سے اسرائیل کی پسماندگی کا "شاید جائزہ لیں"۔
 
گوشہ نشینی سے نکلنے کی تگ و دو
تل ابیب عرصہ دراز سے مغربی ایشیا خطے میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے تاکہ اس طرح عالمی برادری میں اپنی شدید گوشہ نشینی کا ازالہ کر سکے اور خود کو درپیش خطرات کم کر سکے۔ اسرائیل واضح طور پر عرب حکومتوں سے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے بڑے شہروں میں ایسے بینر دکھائی دیتے ہیں جن میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے ساتھ مغربی ایشیائی ممالک شام، لبنان، فلسطین، مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عمان کے سربراہان کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ ایسے ہی ایک بینر میں دعوی کیا گیا ہے کہ "نئے مشرق وسطی کی تشکیل کا وقت آن پہنچا ہے!"۔ اسی طرح ایک اور بینر پر لکھا ہے "ایک وقت جنگ کا تھا، ایک وقت مفاہمت کا اور اب ابراہیم معاہدے کا وقت ہے"۔
 
انحصار اور خوف کا امتزاج
شام پر حکمفرما جولانی رژیم نے ابتدا میں شک و تردید کے ہمراہ اسرائیل سے رابطہ قائم کیا۔ ابومحمد الجولانی نے فروری 2025ء میں گولان ہائٹس سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے بارے میں بات کرنا ابھی بہت جلدی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ھیئت تحریر الشام کے موقف میں نرمی آتی گئی اور جون 2025ء میں جولانی نے اسرائیل کے شام کے "مشترکہ دشمن" کی بات کی اور آپس میں سیکورٹی تعاون کے لیے باہمی تناو ختم کرنے پر زور دیا۔ البتہ اس کا رویہ اب بھی محتاطانہ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے کے تحت تل ابیب کو شام میں فوجی کاروائی کا حق نہیں دیا جائے گا۔ اسی طرح جولانی نے اسرائیل سے شام کے علاقوں سے فوجی انخلاء کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ بھی شام پر ابراہیم معاہدے میں شمولیت کے لیے دباو ڈال رہا ہے۔
 
تقریباً دو ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر امریکی پابندیاں مکمل طور پر ختم کر دی تھیں اور دمشق اور تل ابیب میں تعلقات معمول پر لانے کو شرط قرار دیا تھا۔ حال ہی میں امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ ھیئت تحریر الشام کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ترکی میں امریکی سفیر اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک نے بھی اسرائیل اور جولانی میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے اور انہیں ایکدوسرے پر حملہ ور نہ ہونے کے معاہدے پر دستخط کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ دوسری طرف تل ابیب نے شام کے خلاف سخت رویہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیدعون سعر نے امریکہ کی جانب سے شام پر پابندیاں ختم کرنے کے اعلان کے ایک ہی دن بعد کہا کہ اسرائیل شام اور لبنان سے تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے لیکن گولان ہائٹس سے ہر گز دستبردار نہیں ہو گا۔
 
ھیئت تحریرالشام کی فوجی کمزوری
اسرائیل اور شام میں تعلقات پر نظر رکھنے والے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ دمشق اسرائیل کے فوجی اقدامات کے مقابلے میں بہت کمزور ہے اور یہ کمزوری اسرائیل کی جانب سے شام کے فوجی اڈے اور ذخائر تباہ کیے جانے کے بعد مزید شدید ہو گئی ہے۔ یاد رہے صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے فوراً بعد تل ابیب نے شام پر شدید فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جس میں شام آرمی کے تمام اہم مراکز اور فوجی ڈپو تباہ کر دیے گئے تھے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے اس دوران شام پر 480 فضائی حملے انجام دیے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق المزہ، حما اور حمص ایئربیسز سمیت طرطوس اور لاذقیہ کی فوجی بندرگاہیں بھی ان حملوں میں تباہ ہو گئی تھیں جبکہ بڑی تعداد میں میزائل، ٹینک اور جنگی کشتیاں بھی تباہ ہوئی تھیں۔

متعلقہ مضامین

  • چینی صدر کا گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو دانش مندانہ ہے، وزیر اطلاعات
  • دہشت گردوں کی خفیہ سازباز
  • چین-پاکستان زرعی تعاون دو طرفہ ترقی اور مشترکہ فوائد کو فروغ دے رہا ہے
  • مشرقی ایشیائی تعاون کی مجموعی صورت حال اچھی ہے، چینی وزیر خارجہ
  • چین غزہ میں جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لئے کوشش کرتا رہے گا، چینی وزیر اعظم
  • تہذیبوں کے درمیان تبادلے اور باہمی سیکھ انسانی تہذیب اور عالمی امن و ترقی کے لیے ایک اہم محرک ہے، چینی میڈیا سروے
  • پی ڈی ایم اے کی پنجاب میں مون سون بارشوں کے تیسرے سپیل کی پیشگوئی 
  • متنوع تہذیبیں دنیا کی حقیقی فطرت ہیں، چینی صدر
  • چین عرب تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں داخل ہو گئے ہیں، چینی وزیراعظم