زیادہ پرانی بات نہیں، 70 کی دہائی میں ہمیں اپنے کالج دور میں لاہور اور کراچی بذریعہ ٹرین سفر کا موقع ملا۔ اس وقت رحیم یار خان سے لاہور آتے ہوئے کوٹ لکھپت اسٹیشن کے بعد لاہور شہر کا انتظار شروع ہو جاتا۔ اب لاہور کی شاخیں رائے ونڈ اسٹیشن سے شروع ہو جاتی ہیں۔ کراچی جاتے ہوئے اسٹیل مل کے بعد لانڈھی کورنگی گزرنے کے بعد ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شہر کا انتظار شروع ہوتا لیکن اب تو کراچی شہر کب کا اسٹیل ملز پھلانگ کر حیدرآباد کی طرف جا نکلا ہے۔
والد مرحوم 1950 کے لگ بھگ ٹھٹھہ میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ کراچی آتے تو ملیر ٹھہرتے۔ ان سے سنی باتوں کے مطابق ملیر ان دنوں کراچی کا مضافاتی قصبہ تھا اور ملیر ندی میں پانی بہتا تھا! تاہم ہم نے 80 کی دہائی میں کراچی کو ملیر بھی پھلانگتے دیکھا۔کچھ ایسے ہی مناظر اسلام آباد، ملتان، حیدرآباد، فیصل آباد، کوئٹہ اور پشاور سمیت تمام بڑے شہروں میں بھی رونما ہوئے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کے لیے ’’زمین تنگ‘‘ ہو گئی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے ساتھ سیاسی اور عوامی جنون اپنی جگہ لیکن ایک اہم ترین وجہ آبادی میں مسلسل اور بے تحاشہ اضافہ بھی ہے۔ اس پر مستزاد شہروں میں انتقال آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو چکے ہیں۔ آبادی میں بے مہار اضافہ اب محض اعدادوشمار کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ قومی سلامتی، پائیدار ترقی، اور سماجی ہم آہنگی کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ 1947 میں پاکستان کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ تھی، جب کہ 2024 میں یہ 25 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 2050 تک پاکستان دنیا کا تیسرا یا چوتھا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن سکتا ہے۔
گزشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان کی آبادی میں تیز رفتار اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1972 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً 6 کروڑ تھی، جو آج 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ شرح پیدائش (Birth Rate) دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے جس کے باعث پاکستان کو ’’آبادی کے دھماکے‘‘ (Population Explosion) کا سامنا ہے۔
پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 60 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے۔ بہت سے معاشی ماہرین کے مطابق یہ ایک ’’ڈیموگرافک ڈویڈنڈ‘‘ ہے، لیکن جب یہی نوجوان بیروزگار ہوں، کم تعلیم یافتہ ہوں، اور ان کے لیے معاشی مواقع موجود نہ ہوں تو یہ ڈویڈنڈ ریاست کے گلے کا ہار بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 16 فیصد سے زائد ہے، جو قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔
دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی بھی ایک قابل غور ٹرینڈ ہے۔ 1951 میں پاکستان کی شہری آبادی کل آبادی کا محض 17 فیصد تھی، جو اب 38 فیصد سے زائد ہے۔ بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد، اور فیصل آباد پر دباؤ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ رہائش، پانی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی وسائل پر بڑھتا ہوا بوجھ شہروں کو مسائل کا گڑھ بناتا جا رہا ہے۔
معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو بڑھتی آبادی ایک طرف روزگار کی فراہمی کا بڑا چیلنج ہے، تو دوسری طرف تعلیم، صحت، اور سماجی بہبود کے شعبوں پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال رہی ہے۔ 2024 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا محض 1.
دنیا کے کئی دیگر ممالک اس مسئلے کا سامنا کر چکے ہیں۔ پاکستان کے برعکس دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک نے بروقت اور سنجیدہ اقدامات کے ذریعے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا۔ بنگلہ دیش نے 1980 کی دہائی سے ایک فعال خاندانی منصوبہ بندی پروگرام شروع کیا، جس کی بدولت اس کی شرح افزائش (fertility rate) 6.3 سے کم ہو کر 2.0 کے قریب آ گئی ہے۔
ایران نے 1990 کی دہائی میں ایک جامع پالیسی کے ذریعے تولیدی صحت، خواتین کی تعلیم، اور عوامی آگاہی پر زور دیا۔ نتیجتاً اس کی شرح پیدائش 7.0 سے کم ہو کر 1.9 پر آ گئی۔ انڈونیشیا نے ’’دو بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ قومی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کو ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ پیش کیا۔
ان تمام ممالک میں حکومت نے نہ صرف بروقت پالیسیاں بنائیں بلکہ مؤثر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا۔ اس عمل میں مذہبی اور ثقافتی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو اعتماد میں لیا گیا۔ایسے میں پاکستان کا راستہ کیا ہو؟پاکستان کے لیے وقت کم اور چیلنج بڑا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کو قومی ترجیح قرار دے کر اس پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔تولیدی صحت (Reproductive Health) کے مراکز کو دوبارہ فعال بنانے کی ضرورت ہے۔میڈیا، علماء اور سماجی اشتراک سے ایک مسلسل آگاہی مہم کے بغیر چارہ نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان موثر رابطے ، باہمی سپورٹ اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ نتیجہ خیز کوششوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اب کرپشن یا سیاسی عدم استحکام نہیں، بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو ان تمام مسائل کو جنم دیتی ہے یا ان کی شدت بڑھاتی ہے۔ اگر فوری طور پر بروقت اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں وسائل کی قلت، غربت، بے روزگاری اور معاشرتی بگاڑ کا ایک ایسا طوفان ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔پائیدار ترقی کا خواب اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اپنی آبادی کو قابو میں رکھیں، نوجوانوں کو تعلیم، تربیت، اور روزگار دیں، اور شہروں کو بہتر منصوبہ بندی سے سنبھالیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پاکستان پاکستان کی کی دہائی کے ساتھ سکتا ہے فیصد سے کے لیے کی شرح
پڑھیں:
کراچی میں ای سگریٹ کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)کراچی کے نوجوانوں میں ای سگریٹ کے استعمال کے رحجان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیاہے۔خواتین ،مردوں ،کم عمر بچے اور بچیاں میں بھی ای سگریٹ کے استعمال کا رجحان بڑھ گیا ہے، نوجوانوں میں یہ لت تیزی سے پھیل رہی ہے، کراچی میں یہ منافع بخش کاروبار بن گیا ہے شہر کے مختلف علاقوں جس میں گلشن اقبال،ملیر کینٹ،ماڈل کالونی،کلفٹن،گلستان جوہر منورچورنگی،اورنگی ٹائون سمیت کراچی کے دیگر علاقوں میں ویپ کیفے،ویپ لیب،ویپنگ کلب اور ویپ پوائنٹ کے ناموں سے دوکانیں موجود ہیں جہاںباآسانی اس کی خرید و فروخت جاری ہے۔کراچی میں ای سگریٹ کا استعمال40 فیصد تک ہوگیا ہے۔ کراچی میں نوجوانوں کی اکثریت ای سگریٹ کی لت میں مبتلا ہونے لگی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ای سگریٹ بھی دیگر تمباکو نوشی کی طرح ہی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ماہر ن نے کراچی میں ای سگریٹ کے بڑھتے ہوئے رحجان پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ای سیگریٹ کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق نیکوٹین کے صحت پر مرتب ہونے والے مضر اثرات اور دیگر خطرات کے بارے میں علم ہونے کے باوجود نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ای سگریٹ، بیٹری سے چلنے والے سگریٹ نوشی کے آلات کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ ای سیگریٹ کے استعمال کا براہ ر است اثر پھیپھڑوں پر پڑ رہاہے۔تحقیق کے مطابق گزشتہ 5برس میں ای سگریٹ کا استعمال 29 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ گیا ہے جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ تحقیق میں یہ پتا چلا ہے کہ اوسط عمر جس میں لوگ ای سگریٹ کا استعمال شروع کرتے ہیں وہ 17 سال ہے ،اور 58 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ای سگریٹ کا استعمال اس لیے کرتے ہوئے کیونکہ انکی نظر میں وہ ایسا کرکے کول نظر آتے ہیں۔ای سیگریٹ کے موضوع پر ہونے والی تحقیق میں یہ بھی پتا چلا کہ جواب دہندگان میں سے نصف سے زیادہ (55 فیصد) ای سگریٹ کے استعمال کے بارے میں کافی معلومات رکھتے تھے۔شرکاء میں سے 6 فیصد افراد کو ہائی بلڈ پریشر، 0.1 فیصد کے لگ بھگ دمہ اور 35.4 فیصد میں تشویش، ڈپریشن یا کسی اور نفسیاتی بیماری کی مثبت تاریخ پائی گئی۔ جواب دہندگان میں سے 79 فیصد کی کل آمدنی 60,000 روپے سے زیادہ تھی۔بیٹری سے چلنے والے ای سگریٹ پورٹیبل ہوتے ہیں اور اسے بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق کراچی میں ای سگریٹ کی فروخت بنیادی طور پر2020 میں کراچی سے شروع ہوئی اور تیزی سے پاکستان کے دوسرے شہروں میں پھیل گئی ہے۔پروفیسر اور کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ کے مطابق کراچی میں ای سگریٹ کے حوالے سے قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں ای سیگریٹ فروخت کرنے والی کمپنیوں نے اپنی تشہیری مہموں میں نوجوانوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔طبی ماہرین صحت کے مطابق ای سگریٹ کے استعمال سے مختلف خطرناک بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئی ہیں کراچی میں ویب پینے کے رحجان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے مخصوص جنرل اسٹورز پر ان کی خرید و فروخت جاری ہے تاہم متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے ای سگریٹ کی خرید وفروخت کرنے والوں کے خلاف کاروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔