Jasarat News:
2025-07-13@00:21:17 GMT

ہمارا کسی بڑی حقیقت سے گہرا تعلق نہیں

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہر سال محرم کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے بعض احباب اس بات کو تواتر کے ساتھ دہراتے ہیں کہ امت مسلمہ نے امام حسینؓ اور ان کے خانوادے کی شہادت سے کچھ سیکھ کر نہیں دیا۔ ان کا اصرار ہے کہ شیعوں نے تو امام حسینؓ کی شہادت کو رونے دھونے کا ذریعہ بنالیا مگر سنّی تو اس سلسلے میں رونے دھونے سے بھی کم تر مقام پر کھڑے ہیں۔ ان کا یہ کہنا غلط نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ فی زمانہ ہمارا کسی بھی بڑی حقیقت سے کوئی گہرا اور زندہ تعلق نہیں۔
مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت خدا ہے، لیکن ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں اعشاریہ ایک فی صد مسلمان بھی ایسے نہیں ہیں جن کی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ ہو۔ جہاں تک مسلمانوں کے بالائی طبقات کا تعلق ہے تو ان کا خدا امریکا اور یورپ ہے۔ وہ خدا سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا امریکا اور یورپ سے ڈرتے ہیں۔ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک عیاش آدمی ہیں اور وہ غزہ کے قتل عام کی پشت پناہی کررہے ہیں مگر وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے پر گئے تو چار ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے لے کر لوٹے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو دیکھا جائے تو وہ اپنے عوام کے لیے خدا بنے ہوئے ہیں اور مسلم دنیا کے عوام جتنا اپنے بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں سے ڈرتے ہیں اتنا وہ خدا سے نہیں ڈرتے۔ مصر کے ذرائع ابلاغ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے کہ وہ جنرل سیسی کے خلاف ایک لفظ بھی ادا کریں گے۔ سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ میں ولی عہد محمد بن سلمان کے بارے میں ایک لفظ نہیں آسکتا۔ پاکستان میں کوئی جنرل عاصم منیر کے خلاف ایک لفظ لکھ سکتا ہے نہ آن ائر ہوسکتا ہے۔ البتہ مسلم دنیا میں خدا کے باغیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ بدقسمتی سے جو ’’خدا پرست‘‘ ہیں۔ ان کی خدا پرستی بھی پھسپھسی ہے۔ اسلام نے نماز کو دین کا ستون کہا ہے اور رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم اس طرح تو پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے مگر ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں ’’شاید‘‘ پچاس سو ہی ایسے ہوں گے جو نماز میں خدا کو دیکھنے کی لذت کے حامل ہوں یا جو اس شعور کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوں گے گویا خدا انہیں دیکھ رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری نمازیں تک نماز کہلانے کی مستحق نہیں ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے
کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے خدا ایک ’’حقیقت‘‘ نہیں محض ایک تصور ہے۔ صرف ایک Concept۔ چنانچہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت خدا سے نہیں اس کے تصور سے چمٹی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے اس چمٹنے میں بھی خوبصورتی اور گہرائی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارا خدا ہی سے گہرا تعلق نہیں تو امام حسینؓ اور ان کے خانوادے سے ہمارا کیا گہرا تعلق ہوگا؟ یہاں ہمیں غالب اور ان کا تعلق بااللہ یاد آگیا۔ غالب کو خدا نے سات اولادیں دیں مگر ساتوں کی ساتوں مر گئیں۔ غالب نے ایک لڑکے کو گود لیا مگر وہ بھی جوانی میں فوت ہوگیا۔ اس کی موت پر غالب نے جو نوحہ لکھا اس کا ایک شعر دل دہلانے والا ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت میں ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
اس صورت حال کی وجہ سے غالب کو خدا سے شدید شکایت لاحق ہوئی اور انہوں نے یہ تک کہہ دیا۔
زندگی اپنی جو اس طور سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
مگر اس کے باوجود غالب نے خدا اور بندے کے تعلق پر ایک ایسا شعر کہا ہے کہ غالب محبت کے ساتھ خدا سے لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
آج ہمارے درمیان ایسے لوگوں کا کال پڑا ہوا ہے جو خدا سے غالب کی طرح محبت کرسکتے ہوں۔ صاحبان و صاحبات اگر ہم خدا سے شدید اور گہری محبت نہیں کرسکتے تو امام حسینؓ سے کیا شدید اور گہری محبت کریں گے ۔
خدا کے بعد مسلمانوں کے لیے اہم ترین ہستی رسول اکرمؐ کی ہے۔ بقول شاعر
محمد مصطفی کہیے محمد مجتبیٰ کہیے
خدا کے بعد بس وہ ہیں اور ان کے بعد کیا کہیے
جس طرح ہم خدا کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں اسی طرح ہم رسول اکرمؐ پر اپنا سب کچھ نچھاور کرسکتے ہیں۔ مگر رسول اکرمؐ سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا یہ تعلق ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کے لیے جان دے سکتے ہیں مگر آپؐ کا ’’اتباع‘‘ نہیں کرسکتے۔ دیکھا جائے تو رسول اکرمؐ کا اتباع ہی ہمارے تعلق بالرسول کا بلند ترین نقطہ ہے۔ مسلمانوں کا رسول اللہؐ سے ’’اتباع‘‘ کے دائرے میں کیا تعلق ہے اس کی ایک مثال ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے دنیا کے بارے میں فرمایا کہ اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ اسی طرح سیرت طیبہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ رسول اکرمؐ صحابہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ ملا۔ رسول اکرمؐ اسے دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا۔ صحابہ نے کہا ایک تو یہ بچہ ہے اوپر سے مرا ہوا ہے ہم تو اسے مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ آپ نے دیکھا رسول اکرمؐ کے نزدیک دنیا کتنی ’’معمولی چیز‘‘ ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت خدا اور رسول کے بجائے دنیا کی محبت میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں ایک ارب 99 کروڑ 99 لاکھ مسلمان دنیا کھا رہے ہیں۔ دنیا پی رہے ہیں۔ دنیا بچھا رہے ہیں۔ دنیا اوڑھ رہے ہیں۔ انہیں دنیا سے محبت نہیں عشق ہے۔ کوئی دولت کے عشق میں مبتلا ہے۔ کوئی طاقت کے عشق میں گرفتار ہے۔ کوئی عہدوں اور مناصب کا دیوانہ ہے۔ کوئی دنیا کی شہرت پر فدا ہے۔ اس سلسلے میں بالائی، متوسط یا زیریں طبقے کی کوئی تخصیص نہیں ہر طبقہ دنیا کے عشق میں مبتلا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم دنیا کے شاعرو ادیب، دانش ور اور اساتذہ حد یہ کہ علماء تک دنیا کی محبت میں مبتلا ہیں۔ کسی کو یاد نہیں کہ اس سلسلے میں رسول اللہ نے کیا فرمایا تھا۔ کسی کو یاد نہیں کہ رسول اکرمؐ نے کس طرح دنیا سے بے نیاز ہو کر زندگی بسر کی۔ کسی کو یاد نہیں کہ اللہ نے رسول اکرمؐ سے فرمایا کہ اگر آپ کہیں تو ہم احد پہاڑ کو آپ کے لیے سونے کا بنا دیں تو رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ نہیں میں یہ چاہتا ہوںکہ ایک دن پیٹ بھر کر کھانا کھائوں تا کہ شکر کر سکوں اور دوسرے دن بھوکا رہوں تا کہ صبر کر سکوں۔ یعنی رسول اکرمؐ کی زندگی صبر اور شکر کے درمیان تھی مگر پوری امت کی زندگی دنیا کی طلب اور مزید طلب کے درمیان ہے۔ چنانچہ صاحبان و صاحبات اگر ہم رسول اکرمؐ کا اتباع نہیں کر سکتے تو امام حسینؓ کا اتباع کیسے کریں گے؟
مسلمانوں کے لیے خدا اور رسول اللہ کے بعد اہم ترین متاع قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید سے مسلمانوں کے تعلق کے چار تقاضے ہیں۔
1۔ قرآن کی تلاوت کرنا۔
2۔ قرآن کو سمجھنا۔
3۔ قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا۔
4۔ قرآن کو پورے عالمی نظام پر غالب کرنا۔
لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت تو قرآن کو پڑھتی ہی نہیں۔ مسلمانوں میں ناخواندگی کی شرح بلند ہے۔ مسلمانوں کی پچاس ساٹھ فی صد تعداد کو ناظرہ قرآن کی نعمت بھی میسر نہیں آپاتی۔ جو لوگ قرآن پڑھ لیتے ہیں کہ ان کی عظیم اکثریت کبھی پورے قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھتی چنانچہ 80 فی صد مسلمانوں کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن میں اللہ نے انسانوں اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کیا کہا ہے؟ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کو ترجمے سے پڑھ لیتے ہیں ان کی عظیم اکثریت قرآن پر عمل نہیں کرتی۔ مسلمانوں میں قرآن کی تفہیم کے حوالے سے ایسے لوگ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ جنہوں نے قرآن کی کسی تفسیر کا مطالعہ کیا ہو گا۔ رہے وہ لوگ جو قرآن کے علم کو پوری دنیا اور پورے عالمی نظام پر غالب کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو ایسے لوگ مسلمانوں کا ایک فی صد بھی نہیں۔ قرآن مسلمانوں کو باطل کی مزاحمت پر مائل کرتا ہے مگر مسلمانوں کی حالیہ تاریخ میں باطل کی مزاحمت کا حق یا تو افغان مجاہدین نے سوویت یونین کی مزاحمت کر کے ادا کیا ہے۔ یا طالبان نے امریکا کو شکست سے دوچار کر کے اس حق کو ادا کرنے کا عملی ثبوت دیا ہے یا اب حماس غزہ میں اسرائیل کی مزاحمت کر کے یہ حق ادا کر رہی ہے۔ اس کے سوا پورے عالم اسلام میں سناٹے کا راج ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن مسلمانوں کو قرآن کے تقاضے یاد نہیں انہیں امام حسینؓ کی شجاعت اور شہادت کیا یاد رہے گی؟ سوال یہ ہے کہ ہمارا کسی بھی بڑی حقیقت سے گہرا اور زندہ تعلق کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کاجواب اقبال نے مدرسے اور خانقاہ کے حوالے سے اپنے ایک شعر میں دیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے؎
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مسلمانوں کی عظیم اکثریت تو امام حسین مسلمانوں کے کی مزاحمت مسلم دنیا رسول اکرم فرمایا کہ یاد نہیں قرا ن کی قرا ن کو یہ ہے کہ نہیں کر نہیں کہ دنیا کی رہے ہیں جائے تو ایک ارب کریں گے دنیا کے کہا ہے نہیں ا خدا کے کا ایک کے بعد اور ان ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

نواز شریف سے ذاتی تعلق ہے جب بھی انہوں نے یاد کیا میں چلا گیا: شاہد خاقان عباسی

شاہد خاقان عباسی—فائل فوٹو

سابق وزیرِ اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ملک کا مستقبل آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی میں ہے، نواز شریف سے ذاتی تعلق ہے جب بھی انہوں نے یاد کیا میں چلا گیا۔

کہوٹا میں میڈیا سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ چھوڑ دیا، مگر میں آج بھی اس بیانیے پر قائم ہوں۔

یہ بھی پڑھیے شفاف الیکشن کروادیں، ملک کا نظام چل پڑے گا: شاہد خاقان عباسی

شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ن لیگ کی سیاست سے اتفاق نہیں، میں کسی ناراضگی کے تحت نہیں آیا، ماضی میں ہر سیاسی لیڈر جیل گیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ کسی تحریک کی بنیاد یہ نہیں ہو سکتی کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو جیل سے نکالیں، حکومت کام نہیں کر رہی تو اپوزیشن بھی کام نہیں کر رہی۔

شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جماعتیں ایک دن میں نہیں بنتیں سوائے ان کے جنہیں اسٹیبلشمنٹ بنائے، جس ملک میں قانون نہیں وہ ترقی نہیں کر سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی حکومت کی مسلمانوں کیخلاف منظم مہم، جبری بے دخل کر کےجزیروں پر پھینکا جارہا ہے، واشنگٹن پوسٹ
  • نواز شریف سے ذاتی تعلق ہے جب بھی انہوں نے یاد کیا میں چلا گیا: شاہد خاقان عباسی
  • ایک اور ’میا‘ انٹرنیٹ پر وائرل، حقیقت نے سب کو چونکا دیا
  • کے پی حکومت کا قافلہ پنجاب اسمبلی سے نکالے گئے نمائندوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے ہے، علی امین گنڈاپور
  • حکومت مضبوط بے شک نہ ہو لیکن مضبوط ہاتھوں میں ہے، ڈاکٹر رسول بخش رئیس
  • غز وہ ٔ خیبر
  • اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق؟
  • 40 ہزار سے کم آمدنی والوں کیلئے نئی امدادی اسکیم کی حقیقت کیا؟
  • عالم اسلام کو غزہ کے نہتے مسلمانوں کی آواز بننا ہوگا ،جاوید قصوری