Express News:
2025-07-27@04:39:58 GMT

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل آمدنی میں پورے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانا مشکل تھا اور پھر اوپر سے معذور بچے کی پیدائش‘ پورے محلے کے منہ سے ’’ہائے رام‘‘ نکل گیا‘ بچہ پیدائشی اندھا بھی تھا اور کمزور بھی‘ پورے خاندان کا خیال تھا ہم یہ بچہ نہیں پال سکیں گے چناںچہ ہمیں گلہ دبا کر اسے قتل کر دینا چاہیے لیکن والد نیک دل انسان تھا‘ اس نے بچے کو معذوری کے باوجود قبول کر لیا اور یوں سری کانت کو زندہ رہنے کا سر ٹیفکیٹ مل گیا۔

آندھرا پردیش کے سری کانت بولا کے لیے یہ سر ٹیفکیٹ ضروری تھا‘ کیوں؟ کیوںکہ اس نے آگے چل کر دنیا بھر کے اندھوں کے لیے ٹارچ بننا تھا‘ ان اندھوں کے لیے جن کے لیے معاشرے کے پاس اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو زندگی بھر زندگی کو اندھیری گلیوں میں ٹٹولتے رہتے ہیں اور مرنے سے پہلے دہائیوں تک تھوڑا تھوڑا مرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ حیات کی مٹکی خالی ہو جاتی ہے‘ سری کانت بولا نے ان لوگوں کے لیے مشعل بننا تھا‘ یہ سری کانت بولا کی کہانی ہے۔

یہ بچہ 1992 میں آندھرا پردیش کے گاؤں سیتا راما پورم میں پیدا ہوا‘ یہ پیدائشی نابینا تھا‘ وزن بھی خطرناک حد تک کم تھا‘ والد کی ماہانہ آمدنی 1600 روپے تھی چناںچہ رشتے داروں اور محلے داروں نے مشورہ دیا ’’بچے کو گلہ دبا کر قتل کر دو‘ تم یہ بچہ نہیں پال سکو گے‘‘ یہ مشورہ عقل مندانہ تھا‘ بھارت میں آج بھی معذور اور بدصورت بچوں بالخصوص بچیوں کو پیدائش کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے‘ لوگ اسے برا نہیں سمجھتے۔

لیکن سری کانت کا والد نہ مانا‘ اس نے بچے کو پالنے بلکہ اعلیٰ تعلیم دینے کا فیصلہ کر لیا‘ باپ اس کا واحد سہارا تھا‘ والد نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے بولنا‘ چلنا‘ پھرنا اور ٹٹول کر چیزوں کی ماہیت کو سمجھنا سکھا دیا‘ سری کانت جب اسکول جانے کی عمر کو پہنچا تو والد نے اسے گاؤں کے اسکول میں داخل کرا دیا لیکن اسکول میں اس کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا جاتا تھا‘وہ اسکول میں اچھوت بن کر رہ گیا۔ 

والد نے اس کی حالت دیکھی تو اس نے معذور بچوں کا اسکول تلاش کرنا شروع کر دیا‘ سیتا راما پورم سے معذور بچوں کا قریب ترین اسکول حیدرآباد میں تھا‘ والد نے اس کی انگلی پکڑی اور اسے حیدر آباد چھوڑ آیا‘ وہ اسکول کے بورڈنگ ہاؤس اور کلاس رومز تک محدود ہو گیا‘ سری کانت کو اﷲ تعالیٰ نے ذہانت کی دولت سے مالا مال کررکھا تھا‘ وہ میٹرک میں 90 فیصد نمبر لے گیا۔

وہ انٹر میڈیٹ میں سائنس رکھنا چاہتا تھا لیکن سائنس کے مضامین کے لیے آنکھیں ضروری ہوتی ہیں اور قدرت نے اسے اس نعمت سے محروم کر رکھا تھا لہٰذا صوبے کا کوئی کالج اسے سائنس میں داخلہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ بولا نے مایوس ہو نے کے بجائے اس انکار کو چیلنج سمجھا اور وہ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا۔ 

یہ کوشش کارگر ثابت ہوئی اور کالج سری کانت بولا کو داخلہ دینے پر مجبور ہوگئے‘ کالج کی انتظامیہ عدالتی حکم کی وجہ سے اس کے خلاف تھی‘ اس کی کوشش تھی یہ فیل ہوجائے لیکن کالج کے ایک استاد کو اس پر رحم آ گیا اور اس نے اس کے لیے لیکچرز کی آڈیو کیسٹیں تیار کرنا شروع کر دیں۔ 

سری کانت یہ کیسٹیں سنتا چلا گیا اور کام یاب ہوتا گیا‘ کالج میں اس نے شطرنج اور کرکٹ بھی سیکھ لی اور اس میں بھی کمال کر دیا‘ بولا کو اس دوران صدر عبدالکلام کے منصوبے ’’لیڈ انڈیا‘‘ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا‘ سری کانت نے 98 فیصد نمبر لے کر ایف ایس سی کر لی‘ یہ معجزہ تھا لیکن یہ معجزہ اپنے ساتھ نئے مسائل لے آیا‘ وہ اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینا چاہتا تھا‘ وہ میرٹ پر بھی پورا اترتا تھا لیکن انسٹی ٹیوٹ نے آج تک کسی نابینا طالب علم کو داخلہ نہیں دیا تھا۔ 

سری کانت کو انکار کر دیا گیا‘ سری کانت نے بہت کوشش کی‘ عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے لیکن کام یابی نہ ہوئی اور وہ گھر بیٹھنے پر مجبور ہو گیا‘ اس دوران امریکا کی یونیورسٹی ماساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کو اس کے بارے میں معلوم ہوا اور یونیورسٹی نے اسے سو فیصد وظیفہ آفر کر دیا‘ سری کانت بولا نے یہ پیش کش قبول کر لی‘ یہ امریکا چلا گیا۔

امریکا میں اس نے 2012میں گریجوایشن کی‘ امریکا کی بیشمار یونیورسٹیوں‘ کمپنیوں اور کارپوریشنز نے اسے نوکری کی آفر کی لیکن اس نے بھارت واپس آنے کا فیصلہ کر لیا‘ بھارت آنے سے پہلے اس نے یونیورسٹی کے استادوں سے ملاقات کی اور ایک ایسے ادارے کا منصوبہ ان کے سامنے رکھا جو نابینا نوجوانوں کو نوکری بھی دے اور انھیں ہنر بھی سکھائے۔ 

استادوں کو یہ منصوبہ پسند آیا‘ انھوں نے یہ پروجیکٹ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ میں پیش کر دیا‘ سینڈیکیٹ نے اس کی منظوری دے دی یوں یونیورسٹی ے سری کانت بولا کو منصوبے کے لیے ابتدائی رقم دے دی‘ وہ واپس آیا اور حیدر آباد میں ایک چھوٹا سا دفترلیا‘ پانچ کمپیوٹر رکھے اور معذور لوگوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینا شروع کر دی‘ یہ ادارہ چل پڑا۔

سری کانت نے اس میں چند دوسرے شعبے بھی متعارف کرا دیے‘ بولا کے جذبے کو دیکھ کر بھارت کے کھرب پتی رتن ٹاٹا نے اس کی کمپنی میں سرمایہ کاری کر دی اور یوں بولا کی کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے ’’بولانت انڈسٹریز‘‘ میں تبدیل ہو گئی‘ یہ کمپنی ان پڑھ اور معذور لوگوں کو ملازمت دیتی ہے۔ 

یہ انھیں کاغذ کو ری سائیکل کرنے اور درختوں کے پتوں سے پیکنگ مٹیریل بنانے کا ہنر سکھاتی ہے‘ یہ لوگ یہ ہنر سیکھنے کے بعد کمپنی کے لیے اشیاء بناتے ہیں اور یہ اشیاء ملک کے بڑے گروپ خریدتے ہیں‘ سری کانت کی کمپنی چار سال میں تین ریاستوں آندھرا پردیش‘تلنگانہ اور کرناٹکا تک پھیل گئی۔ 

ان میں سے آدھے لوگوں کے پاس ذاتی گھر اور ذاتی گاڑیاں ہوں اور کمپنی کی مالیت کم از کم 20 ارب روپے ہو‘ سری کانت بولا دن رات اس مشن کی تکمیل میں سرگرم ہے‘ اس کی گروتھ اور ترقی سے اس کے والدین بھی خوش ہیں اور وہ بہن بھائی بھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے نارمل پیدا کیا تھا لیکن وہ مکمل ہونے کے باوجود زندگی میں ترقی نہ کر سکے‘ وہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے اور زندگی میں خوش حالی کی منزل بھی نہ پا سکے‘‘۔

آپ سری کانت بولا کی کہانی کو دوبارہ پڑھیں‘ آپ کو اس میں تین پہلو ملیں گے‘ پہلا ایلیمنٹ بولا کی معذوری ہے‘ دنیا کا ہر انسان معذور ہوتا ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص مکمل نہیں‘ کائنات کے اس ہیر پھیر میں صرف ایک ذات مکمل ہے اور اس ذات کا نام خدا ہے‘ اس کے علاوہ ہر چیز نامکمل‘ ادھوری اور معذور ہے۔

ہم سب لوگ کوئی نہ کوئی معذوری لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ بس ہم میں سے کچھ لوگوں کی معذوری دوسروں کو نظر آ جاتی ہے اور باقی کی معذوری کپڑوں‘ وجود اور دماغ میں چھپی رہتی ہے اور یہ صرف ان کے قریبی لوگوں کو دکھائی دیتی ہے یا پھر اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے‘ بولا بھی ہماری طرح ایک معذور انسان تھا لیکن اس کی معذوری دوسروں کو دکھائی دیتی تھی‘ یہ نابینا تھا مگر یہ دوسرے معاملات میں زندگی میں ایک مکمل انسان تھا۔

دوسرا پہلو‘ بولا کو زندگی میں تین ہیلپنگ ہینڈ ملے‘ والد‘ ایف ایس سی کا استاد اور امریکن یونیورسٹی‘ والد نے سولہ سو روپے کی آمدنی کے باوجود اسے پالنے کا فیصلہ کیا‘ ایف ایس سی میں اسے ایک ایسا استاد مل گیا جس نے تمام استادوں کے لیکچرز کی آڈیو ریکارڈنگ اس کے حوالے کر دی‘ بولا نے یہ آڈیو سن کر 98 فیصد نمبر لے لیے اور آخر میں وہ ماسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جس نے تاریخ میں پہلی بار کسی نابینا شخص کو سو فیصد وظیفے پر داخلہ دے دیا۔ 

بولا یونیورسٹی گیا‘ استادوں نے اس کی مدد کی اور اس نے اندھے پن کے باوجود کمال کر دیا اور بولا کی کہانی کا تیسرا پہلو اس کا حوصلہ‘ اس کی مستقل مزاجی اور اس کا شکست نہ ماننے کا جذبہ ہے‘ یہ پیدائشی طور پر معذور اور کمزور تھا لیکن اس نے کمزوری اور معذوری کو اپنے راستے کا پتھر نہ بننے دیا‘ یہ مستقل مزاجی سے ڈٹا رہا اور ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ یہ کام یاب ہو گیا مگر کام یابی کے بعد اس نے ایک اور کمال کیا‘ یہ اپنے دہی کا کنڈا اٹھا کر گھر نہیں گیا‘ اس نے اپنی کام یابی کو جاگ بنا دیا۔ 

یہ امریکا سے واپس آیا‘ اس نے کمپیوٹر ٹریننگ کا چھوٹا سا ادارہ بنایا اور اپنے جیسے معذور تلاش کر کے انھیں بھی سری کانت بولا بنانے لگا‘ یہ اس کی کہانی کا شان دار ترین پہلو ہے اور یہ پہلو ثابت کرتا ہے‘ آپ جب کام یابی کو اپنی ناک کی نتھ یا کان کی بالی بنا لیتے ہیں تو آپ خودغرض ہو جاتے ہیں‘ ایک خوش حال اور کام یاب خودغرض لیکن جب آپ اپنی کام یابی کو دوسروں میں بانٹنے لگتے ہیں‘ آپ دوسروں کو سکھانے کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں تو پھر آپ لیڈر بن جاتے ہیں‘ آپ انقلابی ہو جاتے ہیں اور سری کانت بولا ایک لیڈر ہے‘ ایک سچا اور کھرا انقلابی لیڈر۔

کاش ہم لوگ سری کانت بولا جیسے لیڈر کی تصویر اپنی میزوں پر لگا لیں اور روز اس تصویر کو دیکھیں اور اپنے آپ سے دو سوال پوچھیں ’’میں جسمانی لحاظ سے بولا سے بہتر ہوں لیکن میں اس سے پیچھے ہوں‘ کیوں؟ اور میں بھی کام یاب ہوں لیکن میں کام یابی کو سری کانت بولا کی طرح دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کررہا ‘ کیوں؟‘‘ مجھے یقین ہے یہ دو سوال ہمیں چند ماہ میں ذہنی‘ جسمانی اور روحانی معذوری سے آزاد کر دیں گے‘ ہم بھی سری کانت بولا بن جائیں گے‘ ایک ایسا سری کانت بولا جسے اس کا اندھا پن بھی روشنی بانٹنے سے نہیں روک سکا۔

نوٹ:ہمارا گروپ 20اگست کو چترال جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

+92 301 3334562

+92 331 3334562

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سری کانت بولا کام یابی کو انسٹی ٹیوٹ والد نے اس زندگی میں اور معذور کے باوجود کی معذوری کی کہانی تھا لیکن نے اس کی کام یاب بولا کی لیکن اس بولا نے ہیں اور بولا کو ہے اور کے لیے اور اس کر دیا

پڑھیں:

یہ عامل اور جادوگر

لغات عرب میں لفظ ’’جن‘‘ کے معنی پوشیدہ اوجھل بتائے گئے ہیں لیکن اس میں بالکل ’’نہ دکھائی‘‘ دینے سے زیادہ کم کم اورکبھی کبھی دکھائی دینے کے ہیں چنانچہ سانپ کو بھی ’’جان‘‘ کہا گیا ہے حالانکہ سانپ کا اپنا اصلی نوعی نام ’’حثہ‘‘ ہے لیکن کم کم دکھائی دینے کی وجہ سے ’’جان‘‘ کہا گیا ہے۔

لفظ’’جن‘‘ صرف عربی لفظ نہیں بلکہ آریائی زبانوں میں بھی تقریباً انھی معنی میں ہے، اس سے بے شمار الفاظ بنتے ہیں جیسے جان (روح) جون، جیونی ، جیون، جنم جنماتر، جانی وغیرہ… چنانچہ لفظ جنگل بھی اسی سے ہے۔ جنگل خودرو، بے ترتیب اور ہر قسم کے پیڑ پودوں پر مشتمل ہوتا ہے اور باغ باترتیب پھل دار اور زیادہ تر انسانوں کا لگایا گیا ہوتا ہے، مطلب یہ خودرو نہیں ہوتا۔

 پشتو میں جو لڑکی بالغ ہوکر پردے میں چلی جاتی ہے، اسے جینئی کہتے ہیں۔ انگریزی میں جینز، جینٹک جسے الفاظ بھی یہی معنی رکھتے ہیں یعنی ایک ایسی چیز جو موجود تو ہو مگر کھلے عام نظر نہ آتی ہو، جنون بھی ایسا مرض جو دکھائی نہیں دیتا۔

گوشت خور شکاری پہلے تو قدرتی اور ان گھڑ پتھروں سے ہتھیار کا کام لیتا رہا پھر اس نے پتھر کے ہتھیار تراشنا اور بنانا شروع کیے تو پتھروں کی رگڑ سے ’’آگ‘‘ دریافت کی جو اس زمانے میں موجودہ ایٹمی ایجاد سے کچھ کم ایجاد نہیں تھی اور اس پر آج ہی کے جوہری ملکوں کی طرح ’’مخر‘‘ بھی وہیں سے شروع ہوا اور تاریخ میں تو یہی آگ اورآتش ہتھیار ہی بالاتری کی بنیاد رہے ہیں، دھاتوں کے ہتھیار بھی آگ کی مدد سے بنائے جاتے پھر آگ کے ہتھیار پھر بارود، ڈائنامائیٹ اوراب ایٹم سب کے سب آتشی ہیں ۔

کائنات باقاعدہ ایک نظام، ایک قانون، ایک پروگرام کے تحت چل رہی ہے ‘ اس کائنات کی بنیاد تخلیق وتکوین اور ارتقاء کی بنیاد ’’ ازواج‘‘ پر ہے۔ اگرکوئی چیز اس کائنات میں مثبت ہے تو اس کے ساتھ اس کا منفی یقینا ہوگا۔

اور اس کائنات کاسب کچھ منفی اور مثبت کے جوڑوں پر قائم ہے، چل رہا ہے اورآگے بڑھ رہا ہے، کوئی پیدائش کوئی حرکت اورکوئی کام منفی مثبت کے ملانے اور یکجائی کے بغیر ممکن نہیں ہے اوراس پوری کائنات کی بنیاد جس جوڑے پر قائم ہے وہ ’’مادے‘‘ اور توانائی کا زوج ہے۔

مادہ جو پانچ انسانی حواس کے اندر ہے لیکن توانائی انسانی حواس سے باہر ہے مثلاً انسان یا تمام جانداروں کاجسم تو مادہ ہے، مادے سے بنتا ہے لیکن زندہ یا متحرک اس توانائی سے ہے جسے آپ روح کہیں، یا جان کہیں… جب تک ان دونوں کا ملاپ جاری رہتا ہے، وہ زندہ ہوتا ہے اور جب ’’جان‘‘ یا توانائی ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو مادی جسم میں اتنی بھی قوت نہیں رہتی کہ خود کو گلنے سڑنے اور مٹی میں ملنے سے بچا سکے اور وہ ’’جان‘‘ پھر نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی دیتی۔ 

اسے ہم مادی جسم کی وساطت سے جانتے تو ہیں لیکن اپنے پانچ حواس میں نہیں لاسکتے۔ اگر وہ زندہ وجود میں موجود بھی ہو تو ہم اس کا پتہ صرف اس جسم کی وساطت سے، اس کے کام سے اورحرکات وسکنات سے تو لگا سکتے ہیں لیکن براہ راست پتہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا ہے، کہاں ہے اورکیسی ہے۔ دوسری مثال ہم بجلی سے لے سکتے ہیں، بجلی کا کرنٹ نہ دکھائی دیتا ہے نہ سنائی اور تب تک وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا جب تک اسے تاروں، کھمبوں، بلبوں، مشینوں اورآلات کا تعاون حاصل نہیں ہوتا اور تار کھمبے، بلب، مشین اور آلات بھی بے جان رہتے ہیں، جب یہ توانائی کا کرنٹ ان کے ساتھ مل نہیں جاتا یعنی دونوں کا ملاپ ضروری ہے۔

مطلب یہ کہ اس کائنات میں کوئی بھی تخلیق وتکوین حرکت ، نشوونما اور ارتقاء منفی اور مثبت کے ملاپ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

آگ بھی کوئی قائم بالذات چیز نہیں ہے، اس کی پیدائش بھی ’’رگڑ‘‘ سے ہوتی ہے، اگر ایندھن نہ ہو تو آگ نہ پیدا ہوسکتی ہے، نہ زندہ رہ سکتی ہے ۔ ہمارے ہاں عامل اور جادوگر قسم کے لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس نظر نہ آنے والی قوتیں ہیں جنھیں وہ مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔

ہمارے جادوگر لوگ موکلات کو پلک جھپکنے میں حاضر غائب کرتے ہیں بلکہ دوسری شکلیں بھی اختیار کرواتے ہیں، ان سے بڑے بڑے کارنامے کرواتے ہیں اور وہ بھی اتنے بااختیار اور طاقت ور ہیں کہ جب چاہیں اپنے کھیل تماشے دکھانے لگتے ہیں، یوں چالاک انسان سادہ لوح انسانوںکو طرح طرح سے پریشان کرتے، ستاتے اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اپنی تمام تر قوت کے ساتھ موجود ہے اورگھاس کا ایک چھوٹا پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا اور عامل وغیرہ کہتے ہیں اور کراتے ہیں، یہ سب کچھ افسانے اورکاروباری ہتھکنڈے ہیں ۔

میں نے ایسے کئی عاملوں کو چیلنج کیا ہے جو خاصے مشہور ہیں اور اپنے قبضے میں سیکڑوں ان دیکھی شکتیاں رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ تم اپنے کالی شکتیوں کو آزمالو لیکن ایک صاحب ایمان مسلمان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن کوئی بھی سامنے نہیں آہا۔ اوراب اس کالم کے ذریعے بھی وہی چیلنج دہرا رہا ہوں کہ کوئی ہے تو سامنے آئے…

متعلقہ مضامین

  • یہ عامل اور جادوگر
  • اسرائیل ایران جنگ کے 40 دن بعد، ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے قوم کے لیے نئے اہداف کا اعلان کردیا
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • عمران خان ہی پارٹی لیڈر، شاہ محمود قریشی لیڈ نہیں کرینگے، سلمان اکرم راجہ
  • گنڈا پور مولا جٹ کی طرح بیانات دیتے ہیں کے پی میں تو آپریشن چل رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر خیبرپختونخوا
  • نیل کٹر میں موجود اس سوراخ کی وجہ جانتے ہیں؟
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں شاہ محمود قریشی نہیں: سلمان اکرم راجا
  • پارٹی کے لیڈر بانی پی ٹی آئی ہیں، شاہ محمود قریشی کے لیڈ کرنے کی بات غلط ہے، سلمان اکرم راجہ 
  • 4اکتوبر احتجاج کے مقدمات؛عمرایوب کے وارنٹ گرفتاری جاری،عدم حاضری پر ضمانتی مچلکے ضبط کرنے کا حکم