قدرتی ویاگرا کہلانے والی پاکستانی ’سلاجیت‘ کی دنیا میں طلب زیادہ کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
پاکستان کے شمالی علاقوں کے خشک پہاڑوں میں پائے جانے والا قدرتی معدنی مادہ سلاجیت ملک میں تو پہلے ہی مشہور تھا، لیکن اب اس کی مانگ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جہاں اسے قدرتی سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
سلاجیت کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق حالیہ برسوں میں اس قدرتی مادے کی عالمی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور اب عرب ممالک، یورپ اور امریکا سے بھی باقاعدہ آرڈرز آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سلاجیت، جس کی خاطر وکیل نے وکالت چھوڑ دی
سلاجیت ہے کیا؟سلاجیت کی مارکیٹ اور طلب کو سمجھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ سلاجیت ہے کیا، کہاں پیدا ہوتا ہے، اور اسے نکالنے کا طریقہ کیا ہے۔
سلاجیت ایک قدرتی معدنی مادہ ہے جو پہاڑوں کی چٹانوں سے رس کر نکلتا ہے، خاص طور پر ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش جیسے بلند پہاڑی سلسلوں میں یہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پودوں، جڑی بوٹیوں اور دیگر نامیاتی مادّوں کے گلنے سڑنے سے بنتا ہے، اور سورج کی گرمی یا تپش سے چٹانوں سے خارج ہونے لگتا ہے۔
چترال کی سلاجیت پورے ملک میں مشہور ہے۔ مقامی زبان کھوار میں اسے ’زم و اشرو‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’پہاڑ کی آنکھ کا آنسو‘۔ گلگت بلتستان میں اسے ’استرو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سلاجیت عام طور پر گہرے بھورے یا سیاہی مائل رنگ کی ہوتی ہے، اور خشک ہونے پر سیاہ روغنی مادہ بن جاتی ہے۔ جب اسے ہاتھ سے رگڑا جائے یا گرم کیا جائے تو یہ چپکنے والی شکل اختیار کر لیتی ہے، جبکہ اس کا ذائقہ سخت کڑوا اور دھات جیسا ہوتا ہے۔
پہاڑوں سے مارکیٹ تک کا کٹھن سفرپاکستان کے دشوار گزار پہاڑوں میں پائی جانے والی یہ معدنی سوغات آج دنیا بھر میں خوبصورت پیکنگ میں دستیاب ہے، مگر اسے پہاڑ سے نکال کر مارکیٹ تک لانا ایک انتہائی مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے۔
رحمت عالم چترال سے تعلق رکھنے والے نوجوان بزنس مین ہیں جو اس وقت چترال سے سلاجیت کے سب سے بڑے سپلائرز میں سے ایک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سلاجیت انتہائی اونچے اور دشوار گزار پہاڑی مقامات پر پائی جاتی ہے، جہاں تک عام انسان کا پہنچنا ممکن نہیں۔ اس کے لیے ماہر افراد کی ایک مخصوص ٹیم ہوتی ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ قیمتی مادہ نکالتی ہے۔
یاسین اعظم جو گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی سالوں سے سلاجیت کے کاروبار سے وابستہ ہیں، بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم پہاڑوں سے سلاجیت نکالتی ہے، پھر فلٹریشن کے بعد اسے مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے۔
سلاجیت نکالنے کے دوران اس میں مٹی اور دیگر غیر ضروری اجزا شامل ہو جاتے ہیں جنہیں نکالنے کا عمل، یعنی فلٹریشن بہت محنت طلب اور وقت لینے والا ہوتا ہے۔ رحمت عالم کے مطابق اس عمل میں ایک ماہ سے بھی زیادہ کا وقت لگتا ہے، اور وہ تمام پراڈکٹ کو لیب میں ٹیسٹ کرا کر فروخت کرتے ہیں۔
سلاجیت کی عالمی رسائیپاکستان میں تو سلاجیت کی مانگ پہلے سے تھی، مگر کچھ نوجوان کاروباری افراد نے اسے عالمی مارکیٹ تک متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں رحمت عالم کا نام نمایاں ہے، جنہوں نے کورونا وبا کے دوران نوکری کھونے کے بعد سلاجیت اور دیگر روایتی مصنوعات کا کاروبار شروع کیا۔
رحمت عالم بتاتے ہیں کہ پہلے ہر دوسرا دکاندار سلاجیت فروخت کرتا تھا، مگر انہوں نے فلٹریشن کے بعد معیاری سلاجیت فراہم کرنے کا آغاز کیا جسے کم وقت میں ہی پذیرائی مل گئی۔ اب وہ مختلف ممالک میں اپنے سپلائرز کے ذریعے سلاجیت فروخت کررہے ہیں، جن میں یوکے، یورپ، امریکا، دبئی اور سعودی عرب شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سپلائی کے لیے لیب ٹیسٹ اور سرٹیفکیٹس لازمی ہوتے ہیں۔ پاکستانی لیبارٹریوں کے سرٹیفیکیٹ زیادہ تر تسلیم نہیں کیے جاتے، اس لیے یوکے کے ایک ایمیزون سپلائر نے وہاں کے معیار کے مطابق ٹیسٹ کروا کر ان کا مال منظور کروایا۔
رحمت کے مطابق گزشتہ ماہ صرف یوکے میں 20 لاکھ روپے مالیت کی سلاجیت سپلائی کی گئی، جبکہ یورپ، امریکا اور دبئی کے لیے الگ مال گیا۔ موجودہ مہینے کے دوران یوکے سے مزید 25 لاکھ روپے کا آرڈر موصول ہوا ہے۔ لیب ٹیسٹ کے بعد سلاجیت کی عالمی مانگ میں 500 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
سلاجیت کا استعمال اور فوائدسلاجیت کو عموماً قدرتی ویاگرا کہا جاتا ہے۔ اسے نہ صرف نوجوان استعمال کرتے ہیں بلکہ عمر رسیدہ افراد بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق سلاجیت جسمانی طاقت، توانائی اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں معاون ہے۔ یہ ذہنی تھکن کو کم کرتا ہے اور جنسی صحت میں بھی بہتری لاتا ہے۔ ہڈیوں اور جوڑوں کے درد میں بھی اسے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔
محمد نذیر جو چترال کے رہائشی ہیں اور سلاجیت نکالنے میں تجربہ رکھتے ہیں، بتاتے ہیں کہ سلاجیت ’گرم‘ ہوتی ہے اور جسم میں گرمی پیدا کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہاڑوں میں زخمی جانور جیسے مارخور یا آئی بیکس سلاجیت تلاش کرکے اس پر لیٹتے ہیں جس سے ان کے زخم جلد بھر جاتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سلاجیت اندرونی زخموں کو بھی ٹھیک کرنے میں مددگار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمالیائی پہاڑوں کی قیمتی جڑی بوٹی ’بٹ پیا‘ کے طبی فوائد کیا ہیں؟
ڈاکٹرز خبردار کرتے ہیں کہ سلاجیت کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے اسے معتدل مقدار میں اور معیاری شکل میں استعمال کرنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews چترال سلاجیت شمالی علاقے عالمی مارکیٹ قدرتی ویاگرا گلگت بلتستان مانگ میں اضافہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چترال سلاجیت شمالی علاقے عالمی مارکیٹ گلگت بلتستان مانگ میں اضافہ وی نیوز سلاجیت کی کہ سلاجیت رحمت عالم کے مطابق ہوتا ہے جاتا ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پاکستانی کسانوں کا جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمے کا اعلان
—فائل فوٹوسندھ کے کسانوں نے 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے اپنی زمینیں اور روزگار کھو دینے کے بعد جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کر دیا۔
کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور سیمنٹ بنانے والی کمپنی ہائیڈلبرگ (Heidelberg) کو باقاعدہ نوٹس بھیج دیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ اگر ان کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔
اس حوالے سے کسانوں کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنیاں دنیا کی بڑی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے نقصان پہنچایا ہے، انہیں ہی اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ماحولیاتی بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا مگر نقصان ہم ہی اٹھا رہے ہیں جبکہ امیر ممالک کی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی زمینیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں اور چاول و گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں۔ وہ تخمینہ لگاتے ہیں کہ انہیں 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا جس کا ازالہ وہ ان کمپنیوں سے چاہتے ہیں۔
دوسری جانب جرمن کمپنیوں کاکہناہے انہیں موصول ہونے والے قانونی نوٹس پر غور کیا جارہا ہے۔
برطانوی میڈیا نے عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2022 میں پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثرہ ملک تھا۔ اس سال کی شدید بارشوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب کردیا تھا جس سے 1700 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بے گھر اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔