اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں: فرانس
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جولائی 2025ء) سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ صدارت والی اقوام متحدہ کی تین روزہ کانفرنس کے آغاز پر فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے پیر کے روز کہا، ''صرف ایک سیاسی، دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کی جائز خواہشات کا جواب دینے میں مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔
‘‘کانفرنس سے کچھ دن قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ستمبر میں خود مختار فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیں گے، جس پر اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آئی تھی۔ اسرائیل اور امریکہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہیں۔
بارو نے کہا کہ دیگر مغربی ممالک بھی کانفرنس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کی تصدیق کریں گے، تاہم انہوں نے کسی مخصوص ملک کا نام نہیں لیا۔
(جاری ہے)
انہوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔
ژاں نوئل بارو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اس بات پر اتفاق موجود ہے کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا سیاسی حل نکالنے کا وقت آ چکا ہے، لیکن عالمی طاقتوں کو اپنے الفاظ کو عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا، ’’یورپی کمیشن کو یورپی یونین کی جانب سے اپنی توقعات واضح کرنا چاہییں اور یہ دکھانا چاہیے کہ ہم اسرائیلی حکومت کو اس مطالبے پر غور کرنے کے لیے کیسے قائل کر سکتے ہیں۔
‘‘فرانس کو امید ہے کہ برطانیہ بھی اس کی پیروی کرے گا۔ جمعے کو 200 سے زائد برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اس خیال کی حمایت کی، تاہم وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ’’ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔‘‘
فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ نے اجلاس کے آغاز پر کہا، ’’تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ اب عملی اقدام کریں۔
‘‘ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک بین الاقوامی فورس کی حمایت کا مطالبہ بھی کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ سے امیدیںکانفرنس کے شریک صدر ملک سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پٹی کی جنگ ختم کرانے اور دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے میں ’’ایک محرک قوت‘‘ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ریاض کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے کوئی منصوبے نہیں ہیں۔سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اس تین روزہ کانفرنس کو ’’غیر نتیجہ خیز، غیر موزوں وقت پر‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک ''تشہیری حربہ‘‘ ہے جو امن کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔
اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ اسرائیلی’’بستیوں، زمینوں کی ضبطی، اور مقدس مقامات پر تجاوزات‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسرائیل اور امریکہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہیں، جب کہ اسرائیل پر قریب دو سال سے جاری غزہ پٹی کی جنگ ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے ’’عارضی جنگ بندی‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن غزہ پٹی میں انسانی بحران کانفرنس میں تقاریر پر غالب رہے گا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے کہا، ’’یہ کانفرنس کسی حل کو فروغ نہیں دیتی۔
‘‘ دو ریاستی حل کا امکان؟اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اس اجلاس میں کہا، ’’دو ریاستی حل پہلے سے کہیں زیادہ دور ہو چکا ہے۔‘‘
اے ایف پی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک اب اس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں جو 1988 میں جلاوطنی میں فلسطینی قیادت نے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سن انیس سو سینتالیس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت فلسطین (جو اُس وقت برطانوی مینڈیٹ کے تحت تھا) کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔
اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک کئی دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے بیک وقت وجود پر مبنی دو ریاستی حل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
تاہم غزہ پٹی میں 21 ماہ سے جاری جنگ، مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے ارادوں کے باعث یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام جغرافیائی لحاظ سے ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔
کانفرنس کے ایجنڈے میں اور کیا ہے؟فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حالات پیدا کرنے کے علاوہ، کانفرنس میں تین دیگر امور پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات، حماس کو غیر مسلح کرنا اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بھی اس کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
تاہم ایک فرانسیسی سفارتی ذریعے کے مطابق کانفرنس میں تعلقات کی بحالی یا قیام کے کسی نئے معاہدے کا اعلان متوقع نہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب ’’فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان کبھی اتنا خطرے میں نہیں رہا اور کبھی اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں رہی۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی ریاست کو تسلیم دو ریاستی حل کانفرنس میں اقوام متحدہ اسرائیل اور کرنے کے لیے کانفرنس کے کی جانب سے کے ساتھ غزہ پٹی
پڑھیں:
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں،فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت دی جائے، اسحاق ڈار
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم اوروزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں‘وقت آگیا ہے فلسطینی ریاست کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے‘پاکستان دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ فوری ختم ہونا چاہیے‘ بھارت جب بھی کمپوزٹ ڈائیلاگ کرنا چاہے گا ہم تیار ہیں‘ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا، تین دریاؤں پر ہمارا حق ہے۔اقوام متحدہ میں اسرائیل اور فلسطین کیلئے دو ریاستی حل سے متعلق کانفرنس سے خطاب اور بعدازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ یو این کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے بھرپور بیان دیا ہے، ہم نے فلسطین کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ فوری ختم ہونا چاہیے۔
غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات بہت مفید رہی، ہم نے باور کرایا کہ مذاکرات کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں، بھارت کے ساتھ جنگ بندی کی پیش کش میں ڈائیلاگ کی بھی بات ہوئی تھی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ڈائیلاگ ہوگا تو جامع ڈائیلاگ ہوگا، بھارت جب بھی کمپوزٹ ڈائیلاگ کرنا چاہے گا ہم تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا، تین دریاؤں پر ہمارا حق ہے۔ پانی کا رخ موڑ دیا گیا تو ہم قبول نہیں کریں گے۔نائب وزیراعظم کا کہنا ہے کہ او آئی سی 57 ممالک کی تنظیم ہے جس کے ہم بانی ممبر ہیں، اسلاموفوبیا پر او آئی سی کا مستقبل مندوب مقرر کروایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تجارت اور ٹیرف سے متعلق بھی بات کی، مارکو روبیو سے آج بھی ٹیلی فون پر بات ہوئی، ٹیرف پر معاہدے کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب جلد امریکا پہنچیں گے۔اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ امریکا کا دورہ ہر حوالے سے کامیاب رہا ہے، امریکا سے دو طرفہ اور علاقائی امور پر کھل کر بات ہوئی۔انہوں نے کہا کہ امریکا میں سعودی عرب، برطانیہ، بنگلادیش، کویت، فلسطین کے ساتھ دو طرفہ میٹنگز ہوئیں، یو این اجلاس کے سائیڈ لائنز پر 8 دو طرفہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کیلئے دو ریاستی حل سے متعلق کانفرنس سے خطاب میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی، خوراک کی فراہمی، جنگی جرائم پر قرار واقعی سزا اور انسانیت کیخلاف جرائم کا سلسلہ بند کرایا جائے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین 75 سال سے زائد عرصے سے حل طلب ہے، فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہونا صرف سیاسی ناکامی نہیں، اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔انسانی جان کا قتل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اپنے خطاب میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان فلسطین کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھیگا۔اسحاق ڈار نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فرانس کے فیصلے کا خیرمقدم اور کانفرنس کی میزبانی پر سعودی عرب اور فرانس کو خراج تحسین پیش کیا۔قبل ازیں عالمی کانفرنس سے خطاب میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فوری جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انسانی بحران دہشت ناک حد کو چھورہا ہے۔