دنیا کے مقبول ترین سرچ انجن گوگل نے برطانیہ میں صارفین کے لیے ایک نیا ’اے آئی موڈ‘ متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے، جو پیچیدہ اور کئی حصوں پر مشتمل سوالات کے جوابات دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بغیر کوڈنگ کے ایپ بنانا ممکن، گوگل نے ‘اوپل’ نامی اے آئی ٹول لانچ کردیا

گوگل نے ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا کہ نیا فیچر ان سوالات کے لیے تیار کیا گیا ہے جو روایتی سرچ انجن سے مکمل طور پر حل نہیں ہوتے۔ ’اے آئی موڈ‘ کے تحت جب کوئی صارف سرچ کرے گا، تو اسے روایتی نیلی ویب لنکس کی فہرست کے بجائے ایک گفتگو کی شکل میں خلاصہ شدہ تحریری جواب میں موصول ہوگا۔

Our most powerful AI search is now rolling out in the UK ????????

AI Mode in Google Search expands on AI Overviews and allows you to go even deeper through follow-up questions and helpful links to the web.

Try it today! Learn more → https://t.co/EDyWBRrtEb pic.twitter.com/Qx4s0JanV3

— Google UK (@GoogleUK) July 29, 2025

گوگل میں سرچ پروڈکٹ مینجمنٹ کی نائب صدر ہیما بدراجو کے مطابق ’اے آئی موڈ ایک نیا، بامعنی انداز ہے جو آپ کے پیچیدہ سوالات اور ان کے بعد آنے والے ضمنی سوالات کو بہتر انداز میں حل کرتا ہے۔ یہ آپ کی جستجو کو زیادہ بھرپور انداز میں پورا کرتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیچر خاص طور پر اُن صارفین کے لیے مددگار ہے جو تفصیل سے معلومات چاہتے ہیں، جیسے پروڈکٹس کا موازنہ کرنا، سفر کی منصوبہ بندی یا کسی مشکل طریقہ کار کو سمجھنا۔ ’ہم نے دیکھا ہے کہ ’اے آئی موڈ‘ استعمال کرنے والے صارفین کے سوالات روایتی سرچ کے مقابلے میں 2 سے 3 گنا زیادہ طویل ہوتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: ایپل صارفین کے لیے گوگل کا نیا فیچر، اہم سہولت دیدی

گوگل کا کہنا ہے کہ یہ نیا فیچر موجودہ سرچ انجن کی جگہ نہیں لے گا، تاہم ماہرین کو تشویش ہے کہ ایسے اقدامات مصنوعی ذہانت کو سرچ کا مرکزی ذریعہ بناسکتے ہیں۔ مختلف اداروں کا کہنا ہے کہ لوگ اب گوگل جیسے روایتی سرچ انجن کی جگہ چیٹ جی پی ٹی یا میٹا اے آئی جیسے چیٹ بوٹس استعمال کررہے ہیں، جو معلومات حاصل کرنے کا انداز تبدیل کررہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اے آئی موڈ برطانیہ جوابات سوالات گوگل

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اے ا ئی موڈ برطانیہ جوابات سوالات گوگل اے آئی موڈ صارفین کے نیا فیچر کے لیے

پڑھیں:

کیا یہ واقعی خاتون ہیں؟ ووگ میں اے آئی ماڈل کی موجودگی نے معیار حسن پر سوالات اٹھا دیے

فیشن کی دنیا میں ایک نئی ’ماڈل‘ نے دھوم مچا دی ہے۔ وہ حسین، پرکشش اور دلکش ہے لیکن حقیقت میں وجود نہیں رکھتی۔

یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟

بی بی سی کے مطابق ماہ اگست کے ووگ میگزین میں شائع ہونے والے گیس (Guess) کے اشتہار میں ایک خوبصورت سنہری بالوں والی ماڈل کو کمپنی کے گرمیوں کے ملبوسات پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تاہم اشتہار کے ایک کونے میں چھوٹے سے الفاظ میں انکشاف کیا گیا کہ یہ ماڈل درحقیقت مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کسی عالمی شہرت یافتہ فیشن میگزین میں ایک AI ماڈل کو شامل کیا گیا ہے خواہ وہ اشتہار کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اور اسی وجہ سے اس اشتہار نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے۔

کیا اے آئی ماڈلنگ حقیقت کو نگل لے گی؟

مذکورہ اشتہار کے پیچھے سیرافین ویلارا نامی کمپنی ہے جس کی بانیان ویلنٹینا گونزالیز اور آندریا پیٹریسکو کا کہنا ہے کہ گیس کے شریک بانی پال مارسیانو نے انہیں انسٹاگرام پر پیغام بھیج کر 2 اے آئی ماڈلز بنانے کا کہا۔ ان میں سے ایک سنہری بالوں والی ماڈل کو ووگ کے اشتہار کے لیے منتخب کیا گیا۔

مزید پڑھیے: مصنوعی ذہانت ڈرون اور روبوٹس کو کیسے زیادہ مہلک بنا دے گی؟

یہ ماڈلز صرف ’کمانڈ‘ دینے سے تیار نہیں ہو جاتیں بلکہ کمپنی کے مطابق ایک مکمل اے آئی ماڈل کو بنانے میں ایک ماہ تک کا وقت اور 5 ماہرین کی ٹیم درکار ہوتی ہے۔ ان کے کلائنٹس کی فیس لاکھوں ڈالر تک جا سکتی ہے۔

تاہم ماڈلنگ کی دنیا سے جڑی معروف پلس سائز ماڈل فیلِسٹی ہیوارڈ کا کہنا ہے کہ فیشن انڈسٹری میں اے آئی ماڈلز کا استعمال ’سستی اور سُست حکمتِ عملی‘ ہے جو ان ہزاروں ماڈلز کی محنت کو نظر انداز کرتا ہے جنہوں نے فیشن کو متنوع اور جامع بنانے کے لیے برسوں جدوجہد کی۔

اے آئی ماڈلنگ، ایک اور زخم

ہیوارڈ کے مطابق سنہ 2010 کی دہائی میں ماڈلنگ انڈسٹری نے تنوع کی طرف پیش قدمی کی۔ پہلی اوپنلی ٹرانس ماڈل ویلینٹینا سمپائیو، حجاب پہننے والی ماڈل حلیمہ عدن اور پلس سائز ماڈلز کا فیشن شوز میں شرکت کرنا، یہ سب اہم سنگ میل تھے۔

مگر حالیہ برسوں میں ان کی بکنگ میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب اے آئی ماڈلز کی آمد کو وہ ایک اور زخم قرار دیتی ہیں۔

کیااے آئی خوبصورتی کے ناقابلِ حصول معیار کو مزید آگے بڑھا رہی ہے؟

گونزالیز اور پیٹریسکو کا دعویٰ ہے کہ ان کا مقصد ناقابل حصول حسن نہیں، بلکہ حقیقت سے قریب تر تصاویر بنانا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ جب وہ مختلف نسلوں یا رنگت کی خواتین کی اے آئی تصاویر پوسٹ کرتی ہیں تو انہیں صارفین سے کم رسپانس ملتا ہے اسی لیے وہ وہی تصاویر پوسٹ کرتی ہیں جن پر زیادہ لائکس آئیں۔

ان کے مطابق ابھی تک وہ پلس سائز (ایک لحاظ سے نمایاں جسم) اے آئی ماڈل تیار نہیں کر سکے کیونکہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں۔

یہی تعصبات 2024 میں Dove کے ایک اشتہار نے بھی بے نقاب کیے جس میں ایک اے آئی جنریٹر سے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت بنانے کو کہا گیا اور نتیجہ ہمیشہ گوری، پتلی اور سنہری بالوں والی خواتین کی تصاویر کی صورت میں نکلا۔

جسمانی خوداعتمادی اور ذہنی صحت پر اثرات

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسے غیرحقیقی اے آئی چہرے اور جسم نوجوانوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

بیٹ (Beat) نامی ایٹنگ ڈس آرڈر چیریٹی کی سی ای او وینیسا لانگلے کہتی ہیں، ’جب لوگ ایسے جسم دیکھتے ہیں جو حقیقت میں ممکن ہی نہیں تو وہ اپنے جسم کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور اس سے کھانے کی نفسیاتی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: گوگل کا مصنوعی ذہانت کا ماڈل انٹرنیشنل میتھمیٹیکل اولمپیاڈ میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب

مزید برآں اے آئی ماڈلز کو واضح لیبل نہ دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرچہ گیس نے اے آئی ماڈل کا انکشاف کیا لیکن بہت باریک حروف میں۔ اگر قاری توجہ نہ دے تو یہ تصویر ایک حقیقی ماڈل کی لگتی ہے۔

کیا اے آئی ملازمتوں کے لیے خطرہ ہے؟

سیرافین ویلارا کی بانیان کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی اصل ماڈلز یا فوٹوگرافروں کو ختم نہیں کر رہی بلکہ یہ متبادل راستہ پیش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق  اے آئی ماڈل بنانے کے عمل میں بھی حقیقی ماڈل، فوٹوگرافر اور فیشن ایکسپرٹ شامل ہوتے ہیں تاکہ ڈیزائنز حقیقی انسانی جسم پر دیکھے جا سکیں۔

لیکن ان کی ویب سائٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ طریقہ مہنگے سیٹ اپ، ماڈلز، میک اپ آرٹسٹس، اور فوٹوگرافرز کی ضرورت کو ختم کر دیتا ہے جو فیشن انڈسٹری میں سینکڑوں افراد کی روزی کا ذریعہ ہے۔

فیشن کی سپریم کورٹ پر سوالیہ نشان؟

ووگ جیسے عالمی میگزین پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’جیسے خوبصورتی کے معیارات پہلے ہی ناقابل حصول تھے، اب اے آئی نے انہیں ناممکن بنا دیا۔ یہاں تک کہ اصل ماڈلز بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں‘۔

فیشن انڈسٹری کی سابق ماڈل اور ٹیک ماہرہ سینیڈ بوویل کہتی ہیں کہ ووگ کو فیشن انڈسٹری کی سپریم کورٹ سمجھا جاتا ہے اور جب وہ ایسا اشتہار شامل کرتے ہیں تو گویا وہ اس رجحان کو جائز قرار دے رہے ہوتے ہیں۔

مستقبل کی جھلک: کیا ہر کوئی اے آئی ماڈل بنے گا؟

اگرچہ خدشات موجود ہیں مگر کچھ ماہرین جیسے سینیڈ بوویل کو امید ہے کہ اے آئی کے ذریعے عام لوگ اپنی ذاتی اے آئی ماڈل بنا کر خود پر لباس کا تجربہ کر سکیں گے جو صنعت کو جمہوری بنا سکتا ہے۔

تاہم وہ خبردار بھی کرتی ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب لوگ  اے آئی ماڈلز سے اکتا جائیں کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ وہ حقیقی نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت محنت کشوں کی جان کے لیے بھی خطرہ، مگر کیسے؟

اے آئی ٹیکنالوجی بلاشبہ فیشن انڈسٹری کو نئی جہات دے رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال بھی اٹھا رہی ہے کہ کیا ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں خوبصورتی صرف کوڈ میں محفوظ ہو گی اور حقیقت میں کوئی خود کو خوبصورت محسوس نہیں کرے گا؟

یہ سوال صرف ماڈلز کے روزگار یا اشتہارات کی شفافیت تک محدود نہیں بلکہ ہماری خودی، اعتماد اور ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی اے آئی ماڈل خوبصورتی کا معیار مصنوعی ذہانت معیار حسن ووگ میگزین

متعلقہ مضامین

  • عمر ایوب کا چیف جسٹس کو خط: 9 مئی کے مقدمات میں عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھا دیے
  • ٹک ٹاک نے پاکستانی صارفین کیلئے سیلابی موسم سے تحفظ کیلئے نیا فیچر متعارف کرا دیا
  • اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟
  • عمر ایوب کا چیف جسٹس کو خط، 9 مئی کے مقدمات میں عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھا دیے
  • کیا یہ واقعی خاتون ہیں؟ ووگ میں اے آئی ماڈل کی موجودگی نے معیار حسن پر سوالات اٹھا دیے
  • پہلی بار بات چیت میں الجھن کا توڑ، واٹس ایپ نے ’ویو ایموجی‘ متعارف کرا دیا
  • بغیر کوڈنگ کے ایپ بنانا ممکن، گوگل نے ‘اوپل’ نامی اے آئی ٹول لانچ کردیا
  • کوئٹہ، کور کمانڈر راحت نسیم کی طلباء و طالبات سے ملاقات
  • ویڈیو: گوگل میپ کے دکھائے راستے پر جانے والی گاڑی نالے میں جاگری