Express News:
2025-07-30@10:08:26 GMT

کے پی سے فوج کا انخلا

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی نے ایک متفقہ قرارداد پا سکی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت جو فوج تعینات کی گئی ہے، اس نوٹیفکیشن کو پندرہ دن کے اندر واپس لیا جائے۔ ویسے تو شاید تحریک انصاف کی کے پی کی تنظیمی کمیٹی کو یہ علم نہیں کہ وفاق براہ راست کسی صوبے میں فوج کی تعیناتی کے احکامات نہیں دے سکتا۔ پہلے صوبائی حکومت سفارش کرتی ہے، پھر وفاق آٗئین کے آرٹیکل 245کے تحت کسی جگہ فوج تعینات کرتا ہے۔

لہٰذا خیبرپختونخوا میں کہیں بھی فوج تعینات ہے تو وہ صوبائی حکومت کی مرضی سے تعینات ہے۔پی ٹی آئی یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہماری حکومت سے پہلے حکومت نے فوج تعینات کر دی تھی کیونکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی مسلسل تیسری حکومت ہے۔ تحریک انصاف تنظیمی کمیٹی کو اپنی اس قرارداد میں یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ہماری حکومت کی درخواست پر تعینات فوج کو ہماری ہی حکومت واپس بھیجے۔

کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے سویلین اینڈ آرمڈ آرڈیننس کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔ اس آرڈیننس کو قانون کا درجہ تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے دیا تھا۔ اس کا دائرہ اختیار پورے کے پی تک بانی تحریک انصاف کے دور وزات عظمیٰ میں کیا تھا۔

پشاور ہا ئی کورٹ نے اس قانون کو ایک درخواست میں ختم کر دیا تھا۔ لیکن بانی تحریک انصاف کی ہدایت پر خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ آج کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پاک فوج کے پاس جو اضافی اختیارات ہیں، وہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کر دہ قانون اور اس کی حکومت کے حاصل کردہ حکم امتناعی کی وجہ سے ہیں۔

اس میںن لیگ‘ پیپلزپارٹی یا کسی اور سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ جب تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی اپنی ہی حکومت سے فوج کی تعیناتی ختم کرنے کا کہہ رہی ہے تو وہ کس کا کام کر رہی ہے۔ کیا فوجی انخلاء کا مطالبہ، پی ٹی آئی کا بیانیہ یا دشمن کی زبان نہیں؟کیا دہشت گرد یہ نہیں چاہتے؟ کیا پاکستان کے دشمن یہ نہیں چاہتے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صوبے میں دہشت گردی عروج پر ہے اور پاک فوج روزانہ 190 سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز میں مصروف ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر قربانیاں دے رہی ہے۔ کیافوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کے مترادف نہیں ہے۔ کیا یہ وہی مطالبہ نہیں جو بھارتی پراکسیز اور دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں چاہے،فتنہ الخوارج ہو، فتنہ الہندوستان یا بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اب پی ٹی آئی بھی اسی بیانیے کو دہرا رہی ہے۔

تیرہ، بنوں، کرم اور پاراچنار جیسے واقعات دراصل 12 سالہ پی ٹی آئی حکومت کی ناقص حکمرانی اور گورننس کے خلاء کا نتیجہ ہیں۔کیا آج امن وامان کی جو صورتحال ہے اس کی ذمے د اری کے پی حکومت کی نہیں ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ یہ قربانیاں ان پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو 2021 میں دہشت گردوں کی واپسی اور بحالی سے متعلق پی ٹی آئی حکومت نے اختیار کی اور اب گورننس کے یہ خلاء پاک فوج اپنے خون سے پورا کر رہی ہے جو اصل میں صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی۔ صوبائی حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی ذمے داری اب فوج پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

2022 کی پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا CTD اپنا 96 فیصد بجٹ صرف تنخواہوں پر خرچ کرتا ہے۔صرف 4 فیصد بجٹ آپریشنز کے لیے مختص ہے، جب کہ جدید سازوسامان، تربیت اور انفرااسٹرکچر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں CTD کے افسران اور ملازمین کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے، مگر یہ عملہ نااہل، کم تعلیم یافتہ اور ناکافی سہولیات سے لیس ہے۔جب آپریشن کے لیے بجٹ ہی نہیں ہے تو سی ٹی ڈی کیاکام کرے گی۔ صرف بھرتیوں سے تو سی ٹی ڈی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ آپ کو دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے انھیں بجٹ اور سہولیات بھی دینی ہیں، اس ضمن میں تحریک انصاف کی کے پی حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ نے اپنی سی ٹی ڈی کی فورس کو کافی مضبوط کیا ہے وسائل اور بجٹ بھی دیے ہیں۔

یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ کے پی کی صوبائی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ فوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل پی ٹی آئی کی اپنی کرپشن، نا اہلی خصوصاً 5 اگست کے ناکام احتجاج سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ رویہ سیکیورٹی کے حساس ترین معاملات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خطرناک مثال ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضم شدہ اضلاع سے فوج نکالی گئی تو دہشت گرد یقیناً دوبارہ منظم ہو جائیں گے‘ایسی صورت میں نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پورا پاکستان خطرے میں ہوگا۔

پاک فوج وہ خلا پر کر رہی ہے جوصوبائی سول حکومت اپنی نااہلی کے باعث پیدا کر چکی ہے۔ یہ مطالبات اس بیانیے کی واضح نفی کرتے ہیں جو پی ٹی آئی دے رہی ہے، اور ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مطالبات صرف اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور دشمن قوتوں کے مقاصد کو تقویت دینے کی ایک کوشش ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے حساس معاملات پر نہ تو سیاست کرنی چاہیے اور نہ ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی چاہیے۔ اگر تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی ہے بھی تو اس میںیہ خطرناک کھیل نہیں کھیلنا چاہیے۔

لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومت کا کام ہے مگر ملکی سلامتی کی خاطر پاک فوج وہاں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور ہر روز قربانیاں اپنے خون سے دے رہی ہے لیکن اگر صوبائی حکومت اپنی باقی نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے یہ انتہائی خطرناک قدم اٹھانا چاہتی ہے تو صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے بعد فوج ایک دن بھی وہاں نہیں ٹھہرے گی لیکن فوج کے جانے کے بعد خیبر پختونخوا میں جو کچھ بھی ہوگا اس کی ساری ذمے داری گنڈاپور اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر ہوگی۔ پھر ذمے دار بھی وہی ہوںگے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی تنظیمی کمیٹی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت فوج تعینات پی ٹی ا ئی کر رہی ہے ئی حکومت حکومت کی حکومت نے پاک فوج دے رہی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

حق دو بلوچستان تحریک کو اسلام آباد جانے کا موقع نہیں دیں گے، طلال چودھری

لاہور میں جماعت اسلامی کے قائدین کیساتھ ملاقات میں وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو ملتان اور لاہور  پہنچنے تک حکومت مکمل سکیورٹی دے گی۔ وزیر مملکت نے کہا کہ لاہور میں وفاقی حکومت کی کمیٹی حق دو بلوچستان کے منتظمین سے بات چیت کرے گی، کوشش کی جائے گی مارچ لاہور میں ہی اختتام پذیر ہو، اور اسلام آباد جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے منصورہ لاہور میں مرکز جماعت اسلامی کا دورہ کیا اور جماعت اسلامی کے قائدین کیساتھ ملاقات کی، جس کی اہم تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی بلوچستان کی جانب سے’’حق دو بلوچستان تحریک‘‘ کے لانگ مارچ کے حوالے سے قائم حکومتی کمیٹی کے رکن وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے منصورہ لاہور میں جماعت اسلامی کے قائدین نائب امیر لیاقت بلوچ اور سیکرٹری جنرل امیرالعظیم سے ملاقات کی۔ ملاقات میں حق دو بلوچستان مارچ کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ملاقات میں طے پایا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو ملتان اور لاہور پہنچنے تک حکومت مکمل سکیورٹی دے گی۔ وزیر مملکت نے کہا کہ لاہور میں وفاقی حکومت کی کمیٹی حق دو بلوچستان کے منتظمین سے بات چیت کرے گی، کوشش کی جائے گی مارچ لاہور میں ہی اختتام پذیر ہو، اور اسلام آباد جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
 
جماعت اسلامی کے قائدین نے کہا کہ جماعت اسلامی پُرامن جماعت ہے اور آئین کے مطابق عوام کے حقوق کیلئے جائز اور جمہوری طریقے سے جہدوجہد کرتی ہے۔ حکومت پُرامن مارچ کو سکیورٹی فراہم کرے۔ مارچ کو اسلام آباد اپنی منزل مقصود تک پہنچنے دیا جائے اور حکومت زخم خوردہ اور محرومیوں کا شکار بلوچ عوام کے مطالبات حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ وزیر مملکت نے اس موقع پر کہا کہ وہ اسی لیے جماعت کے مرکز چل کر آئے ہیں۔ (ن) لیگ اورحکومت نے بلوچستان کے مسائل  کو ہمیشہ حل کرنے کیلئے اہمیت دی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کے بچے پاکستان آئیں گے کسی کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے: شیخ وقاص
  • عمران خان نے اپنے بیٹوں کو پاکستان آنے سے روک دیا
  • تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کے گھر پولیس کی آمدورفت شروع ہو گئی
  • پولیس کی حماد اظہر کے گھر آمد، ملازمین سے پوچھ گچھ
  • پی ٹی آئی ایم پی اے نے لیگی ایم پی اے کو تھپڑ مار دیا
  • الیکشن کمیشن اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے‘ مسرت جمشید چیمہ
  • حق دو بلوچستان تحریک کو اسلام آباد جانے کا موقع نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • صرف گولی و طاقت کا راستہ اختیار کرنا وقتی تسکین تو ہو سکتی ہے پائیدار امن کا ذریعہ نہیں، پی ٹی آئی
  • وہ وقت ضرور آئے گا جب آپ لوگ چُھپیں گے اور ہم آپ کو گھسیٹیں گے، جنید اکبر کا ورکرز کنونشن سے خطاب