گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سے کرم چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری کے نمائندہ وفدکی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جولائی2025ء) گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سے کرم چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری کے نمائندہ وفد نے چیمبرکے صدر نیاز محمد کی سربراہی میں بدھ کوگورنرہاؤس پشاور میں ملاقات کی۔ گورنر ہاؤس پشاور تر جمان کے مطابق وفد میں دولت خان، اشفاق حسین، دلدار حسین، واقف علی خان اور ایگزیکٹیو اراکین اوردیگرعہدیدار شامل تھے۔
وفد نے گورنر کو کرم کی تاجر برادری کو درپیش مسائل اور انہیں کاروباری سہولیات کی فراہمی سے متعلق آگاہ کیا۔انہوں نے کرم میں سڑکوں کی تعمیراور بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ کرم میں خرلاچی تجارتی شاہراہ سمیت دیگر سڑکوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔وفد نے گورنرسے ٹرانزٹ ٹریڈ روٹ کی فعالی، خرلاچی ٹرمینل میں تاجروں کو سہولیات کی فراہمی، سنٹرل ایشیاء اورروس تک ریلوے لائن منصوبہ پر پیش رفت تیز کرنے اور ضم ضلع کرم میں منظور شدہ انڈسٹریل اسٹیٹ کیلئے کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔(جاری ہے)
وفد نے ضلع کرم میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے اور عوام علاقہ کے مسائل کو موثر انداز میں پیش کرنے پر گورنر خیبرپختونخوا کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ اس موقع پر گورنر نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے تاجربرادری کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہاکہ تاجربرادری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ملکی اقتصادی ترقی میں بزنس کمیونٹی و کاروباری برادری کی خدمات قابل ستائش ہیں۔انہوں نے کہاکہ کرم چیمبر کے درپیش مسائل کو متعلقہ حکام کے سامنے رکھاجائیگا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وفد نے
پڑھیں:
یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے سے قبل سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہےکہ دنیا میں پائی جانے والی تقسیم، جنگوں اور بحرانوں نے بین الاقوامی تعاون کے ہر اصول کو اس قدر کمزور کر دیا ہے جس کی گزشتہ دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
Tweet URLان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ جنرل اسمبلی کے اس ہفتے کو سفارت کاری کا عالمی مقابلہ کہتے ہیں لیکن یہ پوائنٹ سکور کرنے کا موقع نہیں بلکہ مسائل کو حل کرنے کا وقت ہے کیونکہ اس وقت دنیا کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔
(جاری ہے)
متلاطم اور ان دیکھے حالاتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا کو متلاطم اور ان دیکھے حالات کا سامنا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے، تنازعات میں شدت آ رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی زوروں پر ہے، ٹیکنالوجی سے خطرات لاحق ہیں اور عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے جبکہ یہ تمام مسائل فوری حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں آئندہ ہفتے 150 سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت اور ہزاروں حکام و سفارت کار شرکت کر رہے ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس دوران وہ خود بھی 150 سے زیادہ دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور عالمی رہنماؤں سے ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کو کہیں گے تاکہ تقسیم کا خاتمہ ہو، خطرات میں کمی لائی جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔جنرل اسمبلی کے مرکزی موضوعاتسیکرٹری جنرل نے امن، موسمیات، ذمہ دارانہ اختراع، صنفی مساوات، ترقیاتی مالیات اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کو اس ہفتے کے مرکزی موضوعات قرار دیا۔
انہوں نے غزہ، یوکرین، سوڈان اور دیگر علاقوں میں جنگیں روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات پر زور دیا اور مشرق وسطیٰ میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کی بنیاد پر منصفانہ و پائیدار امن قائم کرنےکی ضرورت کو دہرایا۔
موسمیاتی مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد سے نیچے رکھنے کے لیے مضبوط قومی منصوبے پیش کریں۔
سیکرٹری جنرل نے مصنوعی ذہانت کے انتظام پر عالمگیر مکالمہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ جدید ٹیکنالوجی کا انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
محض وعدے نہیں، ٹھوس پیش رفتجنرل اسمبلی کے اس اعلیٰ سطحی ہفتے میں منعقد ہونے والی پہلی دو سالہ کانفرنس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حکام اور عالمی رہنما پائیدار ترقی کے ا ہداف کی تکمیل کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے وعدے کریں گے کہ فی الوقت ان میں تمام اہداف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
علاوہ ازیں اس موقع پر صنفی مساوات پر تاریخی بیجنگ کانفرنس کی 30ویں سالگرہ کی مناسبت سے اجلاس بھی ہوں گے۔انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اجلاسوں کی فہرست بہت طویل ہے کیونکہ ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ موجودہ عالمی بحران خالی خولی باتوں اور محض وعدوں کے بجائے ایسی قیادت کا تقاضا کرتے ہیں جو ٹھوس پیش رفت کے لیے پرعزم ہو۔