اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے عوام، فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ مین کثیرالجہتی حکمت عملی اپنائی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت انسداد دہشت گردی اور ریاستی رٹ کے قیام کے حوالے سے قائم سٹیئرنگ کمیٹی کا جائزہ اجلاس ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ریاست پاکستان دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور دنیا دہشت گردوں کے خلاف ہماری کامیاب کارروائیوں کی معترف ہے۔حالیہ تاریخ ساز معرکہ حق میں دنیا نے پاکستان کی فتح کو تسلیم کیا۔ ریاست پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے زمینی آپریشن، متعلقہ قانون سازی، بامعنی عوامی رابطے اور انتہا پسند سوچ کی حوصلہ شکنی جیسے اہم عناصر کا بھرپور اور مؤثر استعمال کیا گیا۔ اس موقع پر کمیٹی نے دہشت گردی کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین ہم آہنگی کو مؤثر بنانے اور اس ضمن میں کمیٹی کی سفارشات پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کردی۔ بہادر افواج کے سپوتوں کا دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کردار قابل تعریف اور قابل تحسین ہے۔ ارض وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اہلکار، افسران اور قربانی کے جذبے سے سرشار ان کے اہل خانہ پر مجھ سمیت پوری قوم کو فخر ہے۔  دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری پاکستانی قوم، بہادر افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلیجنس ادارے متحد اور یکسو  ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بہادر افواج  نے آپریشن رد الفساد اور ضرب عضب میں دہشت گردوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور حالیہ تاریخ ساز معرکہ حق میں دنیا نے پاکستان کی فتح کو تسلیم کیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ صوبائی حکومتوں، انٹیلیجنس بیورو، وزارت داخلہ، کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ بالخصوص پنجاب انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ  نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں نہایت مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان میں فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج اور اس طرح کی دوسرے سماج دشمن عناصر کے مکمل خاتمے کے لیے جامع، موثر اور قابل عمل حکمت عملی پر کام ہو رہا ہے اور تمام متعلقہ اداروں کی مشترکہ کاروائیوں اور تعاون سے سمگلنگ کے خلاف مؤثر کارروائیاں عمل میں لائی گئیں، جس سے سمگلنگ کی روک تھام ممکن ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمگلنگ کی روک تھام سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دہشت گردی سے پاک اور  پرامن مضبوط ریاستی ڈھانچہ ہی بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کے لیے حکومت نے تمام  نظام کی ڈیجیٹائزیشن اور ٹیکس سسٹم میں بہتری جیسے انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ اضافہ اور  گلوبل ریٹنگز میں بہتری پاکستان کی معیشت میں استحکام کی نشان دہی کرتا ہے اور اس سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق وطن واپسی کے پروگرام پر عمل درآمد مؤثر طور سے جاری ہے۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل عاصم منیر، مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وفاقی وزیر اقتصادی امور ڈویژن احد خان چیمہ، وزیراعظم کے مشیر برائے  بین الصوبائی تعاون رانا ثناء اللہ، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری، تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز، انسپکٹر جنرلز اور متعلقہ سرکاری حکام نے شرکت کی۔
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی+ آئی این پی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان اور امریکا کے مابین تاریخی تجارتی معاہدہ طے پانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قائدانہ کردار کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ’’ ایکس‘‘ پر اپنی پوسٹ میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے مابین تاریخی تجارتی معاہدے سے دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون کو فروغ حاصل ہوگا اور آنے والے وقت میں شراکت داری میں بھی اضافہ ہوگا۔ علاوہ ازیں نوائے وقت رپورٹ کے مطابق نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار نے بھی سوشل میڈیا پیغام میں اظہار مسرت کرتے ہوئے لکھا الحمد للہ! پاکستان کی امریکہ سے ڈیل طے پا گئی ہے۔ معاہدے  کے تحت دونوں ممالک تجارتی محصولات میں کمی، توانائی، آئی ٹی، معدنیات اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیں گے۔  علاوہ ازیں وزارت خزانہ کے مطابق پاک امریکہ معاہدے کے نتیجے میں باہمی ٹیرف خاص طور پر امریکہ میں پاکستانی مصنوعات پر لگنے والے ٹیرف میں کمی آئے گی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان اہم اقتصادی شعبوں خاص طور پر توانائی، معدنیات، آئی ٹی، کرپٹو کرنسی اور دیگر میں اقتصادی تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز کا باعث بنے گا۔ وزارت خزانہ کے مطابق یہ معاہدہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے خصوصاً ان تعلقات کو امریکی ریاستوں تک بڑھانے کے حوالے سے جاری کوششوں میں معاون ثابت ہوگا۔ وزارت خزانہ کے مطابق اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی منڈیوں تک بہتر رسائی میسر آئے گی اور پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ تجارتی معاہدہ دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور تجارت اور سرمایہ کاری روابط کو مضبوط بنانے کے لیے تمام کوششوں کو بروئے کار لانے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ دریں اثناء  وزیرمملکت برائے خزانہ بلال اظہرکیانی نے کہا ہے کہ امریکا سے ٹریڈ ڈیل ایک مضبوط سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔  امریکا سے تجارتی ڈیل ہماری معیشت کے لیے بڑی خوش آئند پیشرفت ہے۔ ڈیل کے نتیجے میں پاکستان سے امریکہ جانے والی اشیاء کے ٹیرف میں کمی ہوگی اور  اس ٹیرف میں کمی سے بہت بڑا اثر آئے گا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کے چچا زاد بھائی سید تنویر الحسن گیلانی کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعاکی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سید تنویر الحسن نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف سے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔ خواجہ سعد رفیق نے وزیراعظم کی قیادت میں ملکی معیشت کی بہتر سمت پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: نے دہشت گردی کے خلاف شہباز شریف نے وفاقی وزیر پاکستان کی حکمت عملی نے کہا کہ کے مابین کے مطابق نے والے کے لیے

پڑھیں:

طاقت پر مبنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی

ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر ،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا۔لیکن وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو ہم نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

اصولی طورپر کسی مسلے کو حل کرنے کے لیے طاقت آخری آپشن کے طورپر استعمال کی جاتی ہے ، اس سے پہلے وہ تمام آپشن اختیار کیے جاتے ہیں جن کی نوعیت سیاسی ہوتی ہے۔لیکن ہم سیاسی حکمت عملی کو ابتدائی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے فوری طورپر طاقت کے استعمال کی جانب جاتے ہیں ، اس کاایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی سیاسی قیادت میں جہاں قبولیت کم ہوتی ہے وہیں یہ لوگوں میں منفی ردعمل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ہم قومی سیاست سے جڑے مسائل کوسیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔اول یا تو موثر سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے یا اس کی ملکیت کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔دوئم ہم سمجھتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے اور ہمیں ان کا علاج ہی طاقت کے استعمال سے کرنا ہوگا۔

عمومی طورپرہمیں اپنے قومی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورمز اختیار کرنے چاہیے تھے اور مکالمہ کی مدد سے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے تھا جس میں داخلی سفارت کاری کو ہر سطح پر ترجیح ملنی چاہیے تھی۔

اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جو حالات ہیں، ان صوبوں کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔دوسری طرف دہشت گردی کا ماحول بھی ان دونوں صوبوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ریاستی سطح پر سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں ۔دوسری جانب جو سیاسی عدم استحکام ہے اس نے بھی ہمارے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔بہت سے لوگوں خیبر پختون خواہ یا بلوچستان میں دہشت گردی اور قومی سطح پر سیاسی تقسیم کے خاتمہ میں سیاسی فریقین سے بات چیت کے حامی ہیں کیونکہ سیاسی لوگ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔

 ان سے بات چیت کے دروازوں کو کھولا جائے اور ان لوگوں کی آوازوں کو سنا جائے ۔کیونکہ جب ہم بات چیت کے تمام دروازے بند کردیں گے تو پھر انتہا پسندی رجحانات کا پیدا ہونا فطری امر ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی سیاسی اور جمہوری روش کمزور اور مسائل کے حل کے لیے سب ہی طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ جو جنگی ہتھیاروں پر مبنی ڈپلومیسی ہے اس نے دنیا کی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے ۔یہ ہی کچھ ہمیں پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اس کا نتیجہ جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کررہا ہے وہیں ریاستی سطح پر ہمیں عدم سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہماری ان داخلی سطح کی کمزوریوں کا فائدہ دشمن اٹھارہا ہے اور ہم ایک مضبوط ریاست کے طور پر ناکامی سے دوچار ہیں۔ ریاست میں موجود لوگ یا مختلف سیاسی یا غیر سیاسی گروہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کسی بھی سطح پر ہماری بات یا ہمارے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کا نتیجہ ریاست پر عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو خود ریاست کے لیے کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر ہم نے ریاست کی بات تسلیم نہ کی یا حکومت کی پالیسیوں کو نظر انداز کرکے اپنی بات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ریاست کی طرف سے سخت مزاحمت سمیت طاقت کے استعمال کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی طور پر اچھے رجحان کی عکاسی نہیں کرتا۔ایسے لگتا ہے ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی اور سیاسی و جمہوری سپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔کیونکہ آج بھی دنیا میں بیانیہ کی جنگ ہے اور اس میں ہم کو سفارت کاری کی سیاست مضبوط بنیادوںپر نظر آتی ہے توا س کا مطلب ہے کہ پرامن سیاسی اور جمہوری حکمت عملی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سیاسی حکمت عملیوں کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں ۔

حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ پچھلے چند برسوں کی طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے ہمارے مسائل حل کیے ہیں یا پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔اگر ہم نے سیاسی، جمہوری، آئینی اور قانونی ریاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو موجودہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمارے لیے کارگر ثابت نہیں ہو سکے گی۔

ممکن ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمیں وقتی طور پر بہتر نتائج دے سکے مگر یہ حکمت عملی مستقل بنیادوں پر اختیار نہیں کی  جاسکتی اور آپ کو جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہی کی میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اسی طرح طاقت کے استعمال کو بنیاد بنانا خودکو جمہوری ریاست سے دور رکھنا اور آمرانہ ریاست کی طرف لے جاتا ہے۔یہ جو منطق دی جاتی ہے کہ طاقت کو ہی استعمال کرکے سب کچھ جیتا جاسکتا ہے،اول تو ایسا نہیںہوتا اور اگر کہیں کچھ ہوتاہے تو اس کھیل میں ہمیں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔کیونکہ لوگوں کے دلوں میں جو نفرت کے رویے پیدا ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ کسی بھی سطح پر کمزور طبقات کے خلاف طاقت ہی کا استعمال ہوتا ہے۔

اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم حکومت کی سطح پر طاقت کے استعمال پرمبنی حکمت عملی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں بطور ریاست داخلی اور خارجی محاذ پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں سیاسی مسائل کا حل سیاسی،آئینی اور قانونی فریم ورک میںہی تلاش کرنا ہوگا اور لوگوں کو ساتھ جوڑ کر اپنی حکمت عملیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں ایک مضبوط ریاست کے بننے میں مدد دے سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا دہشت گردوں کے خلاف ہماری کامیاب کارروائیوں کی معترف ہے، پاکستان
  • طاقت پر مبنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی
  • پاکستان کی انسداد دہشتگردی حکمت عملی عالمی سطح پر موثر قرار دی گئی ہے، وزیر اعظم
  • ریاستِ پاکستان دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے پُرعزم ہے: وزیرِ اعظم شہباز شریف
  • ریاست پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ  میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے؛ وزیراعظم
  • ریاست نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے، وزیراعظم
  • ریاست نے دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے، وزیراعظم
  • فتنۂ ہندوستان اورفتنۂ خوارج کےخاتمے کیلئے جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے،وزیراعظم
  • بھارت کیخلاف کامیابی پر دنیا دنگ رہ گئی، وزیراعظم کابینہ نے حج اور اے آئی پالیسی کی منظوری دیدی