کیا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے WTO کو غیر مؤثر بنا دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں، خاص طور پر ٹیرف کے یکطرفہ نفاذ نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کو غیر مؤثر کر کے رکھ دیا ہے۔
ادارے کا تنازعات کے حل کا نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے کیونکہ اپیلٹ باڈی میں ججوں کی تقرری روک دی گئی ہے، جس کی وجہ سے فیصلے حتمی قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے درجنوں ممالک کی برآمدات پر نئی ٹیکس شرحیں نافذ کر دیں
ٹرمپ نے چین، بھارت، میکسیکو، کینیڈا اور دیگر ممالک پر بھاری ٹیرف عائد کیے ہیں جن کی شرح بعض اوقات 25 سے 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
ان اقدامات نے WTO کے اصولوں کو چیلنج کر دیا ہے اور کئی ممالک کی جانب سے اس پر شدید ردعمل آیا ہے۔
WTO کی قیادت نے ان پالیسیوں کو عالمی تجارت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو دنیا ایک نئی تجارتی جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے، جو عالمی معیشت کے لیے شدید نقصان دہ ہو گی۔
یورپی یونین اور کینیڈا جیسے ممالک WTO کے ذریعے ان اقدامات کے خلاف شکایات دائر کر چکے ہیں، مگر اپیلٹ نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آ سکا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا
بعض یورپی ریاستیں اب WTO کے متبادل تجارتی نظام پر غور کر رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر طاقتور ریاستیں بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرتی رہیں تو کمزور معیشتوں کے لیے عالمی تجارتی نظام مزید غیر محفوظ اور غیر منصفانہ ہو جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
WTO امریکی صدر تجارت ٹرمپ معیشت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر کے لیے
پڑھیں:
اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر) اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں کے مستقبل کے حوالے سے وزارت تجارت ککو مشکل کا سامناہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی تشویش کے مطابق ان اسکیموں کا فائدہ پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیاں تجارتی طور پر درآمد کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔وزارتِ تجارت کے ذرائع کے مطابق موجودہ اسکیمیں، جن میں گفٹ اسکیم، پرسنل بیگیج اسکیم اور ٹرانسفر آف رہائیش اسکیم شامل ہیں، بعض اوقات پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر ٹریف پالیسی بورڈ (ٹی پی بی) اور بین الوزارتی فورمز میں بحث ہو چکی ہے، مگر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ فنانس ڈویڑن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رائے کا انتظار ہے۔ذرائع کے مطابق وزارتِ صنعت و پیداوار کا موقف ہے کہ چونکہ عام طور پر پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہے، اس لیے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ اسکیمیں وضع کی گئی ہیں تاکہ وہ مخصوص حالات میں استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان لا سکیں۔ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں ان اسکیموں کے تحت بڑی تعداد میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوئیں۔ وزارتِ کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے پرانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹانے کے بعد، صرف ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دیگر اسکیمیں غیر شفاف طریقے سے استعمال کی جا رہی ہیں اور تجارتی درآمد کا متبادل بن گئی ہیں۔وزارتِ نے زور دیا کہ صارفین کے مفاد، عوامی تحفظ اور ماحولیاتی نقصان سے بچاؤ کے لیے درآمد شدہ گاڑیاں کم از کم حفاظتی، معیار اور ایگزاسٹ کے معیار پر پوری اتریں۔ اسی مقصد کے لیے موٹر وہیکلز انڈسٹری ڈویلپمنٹ ایکٹ 2025 کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، جو مقامی اور درآمد شدہ گاڑیوں کے ضوابط کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔پاکستان نے 2021 میں 1958 کے یو این ای سی ای معاہدے پر دستخط کیے، اور ای ڈی پی کو ڈبلیو پی 29 سیکریٹریٹ کے طور پر مقرر کیا گیا، جس کے تحت 17 بنیادی حفاظتی ضوابط اپنائے گئے ہیں۔وزارتِ صنعت و پیداوار کے مطابق یہ ضوابط تمام درآمد شدہ گاڑیوں پر بھی لاگو ہوں گے، تاہم اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کے معیار کے لیے مناسب جانچ کی سہولت موجود نہیں۔ اس لیے تمام درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے پری شپمنٹ انسپیکشن سرٹیفیکیشن ضروری ہوگا، جو جاپان آٹوموٹو ایپریزل انسٹی ٹیوٹ، جاپان ایکسپورٹ وہیکل انسپیکشن سینٹر، کورین ٹیسٹنگ لیبارٹری یا چائنا آٹوموٹو انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسی اداروں سے حاصل کیا جائے گا۔ یہ سرٹیفیکیٹ گاڑی کی حفاظت، معیار، ایگزاسٹ، اوڈومیٹر، اندرونی و بیرونی حالت، انجن اور ہوا کے بیگ جیسی تفصیلات کی تصدیق کرے گا۔ علاوہ ازیں صرف وہ کمپنیاں جنہیں موٹر وہیکلز کی تجارتی درآمد کا بنیادی کاروبار ہو، تجارتی بنیاد پر گاڑیاں درآمد کر سکیں گی۔