ابھیشیک بچن سے تعلقات کی افواہیں، نمرت کور نے خاموشی توڑ دی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
بالی ووڈ کی اداکارہ نمرت کور نے ابھشیک بچن سے منسوب افواہوں پر ردعمل دے دیا۔
اداکارہ نمرت کور نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران ان افواہوں پر خاموشی توڑ دی جن میں انہیں اداکار ابھشیک بچن کے ساتھ تعلقات کیلئے جوڑا جارہا تھا۔ گزشتہ برس ابھیشیک کیساتھ فلم دسوی کے بعد یہ چہ مگوئیاں کی جارہی تھیں کہ نمرت اور ابھشیک کے درمیان تعلقات ہیں۔
خاص طور پر جب ابھشیک اور ایشوریا رائے بچن کی شادی ٹوٹنے متعلق قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی تھیں تاہم نمرت کور نے ان افواہوں پر اس وقت کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی ابھیشیک کی جانب سے کوئی تردید سامنے آئی۔
تاہم اب ایک ایونٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا نمرت نے ان افواہوں پر خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا ایک "امیبا" کی مانند ہے جو بغیر کسی وجہ کے کچھ بھی پھیلا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ممبئی اپنے کیریئر کے لیے آئی تھیں، نہ کہ ان افواہوں پر وقت ضائع کرنے کے لیے۔
نمرت نے ان تبصروں پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع نہیں کرنے چاہئیں مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی اجنبی کی فضول بات پر وہ برا نہیں مناتیں، اور سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے بھی ان کے لیے بےمعنی ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل نمرت کا نام اداکار روی شاستری اور رانا دگگوبتی سے بھی جوڑا گیا تھا، جن افواہوں کی انہوں نے تردید کردی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان افواہوں پر نمرت کور نے
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔