بگ باس ایک مشہور رئیلٹی شو ہے۔ بھارت کا یہ مقبول ترین ٹی وی شو سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کا کلرز ٹی وی نیٹ ورک یہ شو کئی برسوں سے دکھا رہا ہے۔ اگلے روز ایک خبر اخبار میں پڑھی کہ نامور انڈین اداکار سلمان خان جو طویل عرصے سے اس شو کے میزبان ہیں، انہوں نے اس سال شو کے لیے اپنے معاوضے میں قدرے کمی کی ہے۔
خبر کے مطابق سلمان خان اس 19ویں بگ باس شو کے لیے 8 سے 10 کروڑ فی ہفتہ چارج کریں گے، جو تقریباً 15، 20 ہفتے جاری رہے گا، یوں سلمان کے پاس ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ رقم آئے گی۔ پچھلے سال سلمان خان کی کمائی البتہ اس سے زیادہ تھی۔ رپورٹر نے مہربانی کرتے ہوئے ہمیں اس کی وجہ بھی بتائی کہ اس بار سلمان کے ساتھ فرح خان، کرن جوہر، انیل کپور وغیرہ بھی میزبان ہوں گے۔
بگ باس شو بھارت میں طویل عرصے سے ہورہا ہے، کورونا میں بھی تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ یہ ہوا۔ یہ ہر سال ستمبر اکتوبر میں ہوتا ہے، مگر اس بار 24 اگست سے شروع ہوجائے گا۔
آپ بھی حیران ہوں گے کہ اس بندے کو آج کیا ہوگیا ہے، یہ بگ باس کے بارے میں فلمی انداز کی معلومات کیوں فراہم کررہا ہے۔ تھوڑا انتظار فرمائیے جلد ہی ہم اگلے مرحلے میں جا رہے ہیں۔
بگ باس شو کے اندر ایک زمانے میں پاکستانی فنکاروں نے بھی حصہ لیا اور خاصا شرمندہ کرایا۔ بیگم نوازش علی تو ابتدائی اقساط میں آوٹ ہوگئی مگر وینا ملک نے کچھ عرصہ وہاں قیام کیا اور پھر وہاں جو عامیانہ حرکتیں انہوں نے کیں، اس پر ظاہر ہے ہمارے ہاں لوگ دشرمسار ہوئے۔ وینا ملک جب آوٹ ہوکر وطن واپس آئیں تو ان پر تنقید بھی بہت ہوئی۔ ایسے ہی ایک ٹی وی شو میں وینا ملک اور المشہور مفتی قوی کا ٹاکرا ہوگیا۔ تب مفتی قوی کو لوگ سچی مچی مفتی سمجھتے تھے، اس ٹاک شو میں بھی وہ مذہبی حلقوں کی نمائندگی کے لیے بلائے گئے تھے۔ وینا ملک نے مفتی قوی کو اڑا کر رکھ دیا، ایسے ٹسوے بہائے کہ وہ بے چارہ بوکھلا گیا۔ اس شو کو ٹاک شو کی تاریخ کی 2, 3 ٹاپ ریٹنگ والے شوز میں شامل کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف بھارت میں بگ باس کے نام سے شو ہوتا ہے ورنہ دنیا بھر میں یہ بگ برادر کے نام سے چلتا ہے۔ بگ برادر شو برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، فرانس، جرمنی وغیرہ کے ساتھ ساتھ برازیل، ارجنٹائن اور نائیجریا وغیرہ میں بھی تیار کیا جاتا ہے اور وہاں کی مقامی ثقافت کے امتزاج کے ساتھ یہ بہت مقبول ہے۔
بگ برادر نام ایک مشہور ناول سے لیا گیا۔ جارج اورویل پچھلی صدی کے نامور انگریزی ناول نگارگزرے ہیں۔ ان کے ناول اینیمل فارم (Animal Farm) کو عالمی ادب میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اینیمل فارم ایک اچھوتے پلاٹ پر لکھا ناول ہے۔ اس میں انگلینڈ کے ایک فارم کا نقشہ کھینچا گیا جس میں فارم کے مالک کے ناقابل برداشت رویے کے باعث ایک دن وہاں کے جانور بغاوت کر دیتے ہیں اور یوں دنیا کا پہلا اینیمل فارم وجود میں آ جاتا ہے۔
برطانوی مصنف نے اپنے اس ادبی شاہکار میں جانوروں کی نفسیات اور ان کے رویوں کی بڑے عمدہ عکاسی کی۔ اینیمل فارم کا موٹو تھا ‘سب جانور برابر ہیں’ بعد میں اس فارم کی قیادت ایک آمرمزاج سور کے ہاتھ آگئی۔ سور دراصل فارم کا طبقہ اشرافیہ بن گیا، انہوں نے موٹو تبدیل کردیا اور یوں وہ فقرہ وجود میں آیا جو اب ضرب المثل بن چکا ہے، ‘سب جانور برابر ہیں لیکن ان میں سے کچھ زیادہ برابر ہیں’۔
اس ناول میں کمیونسٹ روس اور وہاں کے لیڈروں کی پیروڈی کی گئی تھی۔ اینمل فارم کے کئی فقرے بہت مشہور ہیں اور جگہ جگہ کوٹ کیے جاتے ہیں۔ اس ناول کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، بک کارنر جہلم نے اسے بڑی خوبصورتی سے شائع کیا ہے۔ اینمل فارم انگریزی یا اردو میں پڑھ لینا چاہیے، یہ ایسا ناول ہے جسے نہ پڑھنا محرومی سے کم نہیں۔
جارج اورویل نے بعد میں ناول ‘1984’ لکھا۔ یہ ناول 1949 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں بھی مطلق العنان ریاستوں کی بھد اڑائی گئی۔ یہ 64 عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
مصنف نے اس ناول کے ذریعے عالمی فکشن میں ایک دلچسپ کردار ‘بگ برادر’ متعارف کرایا۔ ناول میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی جہاں بدترین آمرانہ نظام قائم ہے وہاں کا ہر فرد خوف وہراس کا شکار ہے۔ گلی کوچوں میں سائن بورڈ لگے ہیں جن پر لکھا ہے ‘بگ برادر دیکھ رہا ہے’۔
بگ برادر پُراسرار کردار ہے، جسے سب کچھ معلوم ہے، وہ ہر کسی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔اس کردار کی دہشت آواز کے ذریعے ہی قائم ہے۔ وہ شاذ ہی کسی کے سامنے آتا ہے۔ بگ برادر کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست کے بانیوں میں سے ہے اور اس نے ملک کو بارہا دشمنوں سے بچایا۔ یہ دعویٰ بعد میں غلط ثابت ہوا۔ کہانی میں ایک جگہ پر بتایا جاتا ہے کہ بگ برادر کبھی نہیں مرے گا۔ یوں یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ کردار فرد سے زیادہ ایک پورے طبقے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
‘بگ برادر’ کے کردار کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ چند سال قبل ‘دنیا کے 100 طاقتور ترین خیالی کرداروں’ میں اسے شامل کیا گیا۔ اس کردار کے حوالے سے پچھلے 20 برسوں میں برطانیہ سمیت یورپ بھر میں شو ‘بگ برادر’ شروع کیا گیا۔ ان شوز میں مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات کو چند ہفتوں کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ایک گھر میں رکھا جاتا ہے اور انہیں ٹی وی دیکھنے یا فون سننے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ وہ خود ہی اپنا کھانا پکانے اور کپڑے دھونے سمیت دیگر کام کرتے ہیں۔
پروگرام کا پروڈیوسر بگ برادر کا کردار ادا کرتا ہے، جو ٹی وی ناظرین کی دلچسپی کے لیے گھر کے مکینوں کو مختلف ٹاسک دیتا رہتا ہے۔ ہر ہفتے ایک ساتھی کو پروگرام سے آؤٹ ہونا پڑتا ہے کیونکہ جو آخر میں بچ گیا وہ جیت گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں بالی ووڈ اداکارہ شلپا شیٹھی کو برطانیہ کے ‘بگ برادر’ شو میں شرکت کرکے شہرت ملی تھی۔ شلپا شیٹھی نے وہ مقابلہ جیتا تھا۔ انہی دنوں ایک برطانوی اخبار میں دلچسپ تبصرہ شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد بگ برادر کا کردار یورپ میں تو ٹی وی شوز تک ہی محدود رہ گیا ہے، مگر کئی مسلمان ممالک میں اس کردار کی عملی شکل دیکھی جاسکتی ہے۔ کالم نگار کے مطابق ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اس سیاہ بخت اور دریدہ دہن برطانوی صحافی کی رائے سے ہمیں شدید اختلاف رہا ہے۔ پاکستان جیسے بہترین جمہوری ملک کے بارے میں کوئی ایسا تبصرہ کرنے کی جسارت کیسے کرسکتا ہے؟ ہم نے تب ہی اس سے بریت کا اعلان کیا تھا، آج بھی ہمارا یہی خیال ہے کہ بگ برادر ہو یا بگ باس، کسی بھی نام سے ٹی وی شو دکھائیں، جو مرضی کریں، مگر ہمارے اوپر طنز نہ کریں۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں، جمہوریت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر طرف موجزن ہے۔ انصاف پر مبنی عدالتی فیصلے ہوتے ہیں، میڈیا بھی کلی طور پر آزاد ہے اور سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا تو خیر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ عوام کی آزادی تو خیر اخیر درجے کی ہے۔ وہ جس پارٹی کو چاہے ووٹ ڈال کر جتوا دیں، جسے چاہے ہرائیں، کوئی مداخلت نہیں کرتا۔
البتہ ہمارے ہاں انڈین بگ باس ٹی وی شو جیسی انٹرٹینمنٹ ضرور نظر آتی ہے۔ جگہ جگہ بہت سے کردار یوں شوخے ہوکر ایکٹنگ کرتے نظر آتے ہیں جیسے انہیں بگ باس کے ڈائریکٹر نے ٹاسک سونپے ہوں۔ اس انٹرٹینمنٹ کے مفت نظارے ہم سب لے رہے ہیں، اسی میں مست ہیں۔ ہور سانوں کی چاہیدا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اینیمل فارم ا جاتا ہے وینا ملک ٹی وی شو اس ناول کے ساتھ میں بھی کے لیے ہے اور
پڑھیں:
مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)
پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔
پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔
انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔
اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔
آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔
71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔
دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔
خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔
سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔
Tagsپاکستان