بگ باس ایک مشہور رئیلٹی شو ہے۔ بھارت کا یہ مقبول ترین ٹی وی شو سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کا کلرز ٹی وی نیٹ ورک یہ شو کئی برسوں سے دکھا رہا ہے۔ اگلے روز ایک خبر اخبار میں پڑھی کہ نامور انڈین اداکار سلمان خان جو طویل عرصے سے اس شو کے میزبان ہیں، انہوں نے اس سال شو کے لیے اپنے معاوضے میں قدرے کمی کی ہے۔
خبر کے مطابق سلمان خان اس 19ویں بگ باس شو کے لیے 8 سے 10 کروڑ فی ہفتہ چارج کریں گے، جو تقریباً 15، 20 ہفتے جاری رہے گا، یوں سلمان کے پاس ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ رقم آئے گی۔ پچھلے سال سلمان خان کی کمائی البتہ اس سے زیادہ تھی۔ رپورٹر نے مہربانی کرتے ہوئے ہمیں اس کی وجہ بھی بتائی کہ اس بار سلمان کے ساتھ فرح خان، کرن جوہر، انیل کپور وغیرہ بھی میزبان ہوں گے۔
بگ باس شو بھارت میں طویل عرصے سے ہورہا ہے، کورونا میں بھی تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ یہ ہوا۔ یہ ہر سال ستمبر اکتوبر میں ہوتا ہے، مگر اس بار 24 اگست سے شروع ہوجائے گا۔
آپ بھی حیران ہوں گے کہ اس بندے کو آج کیا ہوگیا ہے، یہ بگ باس کے بارے میں فلمی انداز کی معلومات کیوں فراہم کررہا ہے۔ تھوڑا انتظار فرمائیے جلد ہی ہم اگلے مرحلے میں جا رہے ہیں۔
بگ باس شو کے اندر ایک زمانے میں پاکستانی فنکاروں نے بھی حصہ لیا اور خاصا شرمندہ کرایا۔ بیگم نوازش علی تو ابتدائی اقساط میں آوٹ ہوگئی مگر وینا ملک نے کچھ عرصہ وہاں قیام کیا اور پھر وہاں جو عامیانہ حرکتیں انہوں نے کیں، اس پر ظاہر ہے ہمارے ہاں لوگ دشرمسار ہوئے۔ وینا ملک جب آوٹ ہوکر وطن واپس آئیں تو ان پر تنقید بھی بہت ہوئی۔ ایسے ہی ایک ٹی وی شو میں وینا ملک اور المشہور مفتی قوی کا ٹاکرا ہوگیا۔ تب مفتی قوی کو لوگ سچی مچی مفتی سمجھتے تھے، اس ٹاک شو میں بھی وہ مذہبی حلقوں کی نمائندگی کے لیے بلائے گئے تھے۔ وینا ملک نے مفتی قوی کو اڑا کر رکھ دیا، ایسے ٹسوے بہائے کہ وہ بے چارہ بوکھلا گیا۔ اس شو کو ٹاک شو کی تاریخ کی 2, 3 ٹاپ ریٹنگ والے شوز میں شامل کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف بھارت میں بگ باس کے نام سے شو ہوتا ہے ورنہ دنیا بھر میں یہ بگ برادر کے نام سے چلتا ہے۔ بگ برادر شو برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، فرانس، جرمنی وغیرہ کے ساتھ ساتھ برازیل، ارجنٹائن اور نائیجریا وغیرہ میں بھی تیار کیا جاتا ہے اور وہاں کی مقامی ثقافت کے امتزاج کے ساتھ یہ بہت مقبول ہے۔
بگ برادر نام ایک مشہور ناول سے لیا گیا۔ جارج اورویل پچھلی صدی کے نامور انگریزی ناول نگارگزرے ہیں۔ ان کے ناول اینیمل فارم (Animal Farm) کو عالمی ادب میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اینیمل فارم ایک اچھوتے پلاٹ پر لکھا ناول ہے۔ اس میں انگلینڈ کے ایک فارم کا نقشہ کھینچا گیا جس میں فارم کے مالک کے ناقابل برداشت رویے کے باعث ایک دن وہاں کے جانور بغاوت کر دیتے ہیں اور یوں دنیا کا پہلا اینیمل فارم وجود میں آ جاتا ہے۔
برطانوی مصنف نے اپنے اس ادبی شاہکار میں جانوروں کی نفسیات اور ان کے رویوں کی بڑے عمدہ عکاسی کی۔ اینیمل فارم کا موٹو تھا ‘سب جانور برابر ہیں’ بعد میں اس فارم کی قیادت ایک آمرمزاج سور کے ہاتھ آگئی۔ سور دراصل فارم کا طبقہ اشرافیہ بن گیا، انہوں نے موٹو تبدیل کردیا اور یوں وہ فقرہ وجود میں آیا جو اب ضرب المثل بن چکا ہے، ‘سب جانور برابر ہیں لیکن ان میں سے کچھ زیادہ برابر ہیں’۔
اس ناول میں کمیونسٹ روس اور وہاں کے لیڈروں کی پیروڈی کی گئی تھی۔ اینمل فارم کے کئی فقرے بہت مشہور ہیں اور جگہ جگہ کوٹ کیے جاتے ہیں۔ اس ناول کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، بک کارنر جہلم نے اسے بڑی خوبصورتی سے شائع کیا ہے۔ اینمل فارم انگریزی یا اردو میں پڑھ لینا چاہیے، یہ ایسا ناول ہے جسے نہ پڑھنا محرومی سے کم نہیں۔
جارج اورویل نے بعد میں ناول ‘1984’ لکھا۔ یہ ناول 1949 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں بھی مطلق العنان ریاستوں کی بھد اڑائی گئی۔ یہ 64 عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
مصنف نے اس ناول کے ذریعے عالمی فکشن میں ایک دلچسپ کردار ‘بگ برادر’ متعارف کرایا۔ ناول میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی جہاں بدترین آمرانہ نظام قائم ہے وہاں کا ہر فرد خوف وہراس کا شکار ہے۔ گلی کوچوں میں سائن بورڈ لگے ہیں جن پر لکھا ہے ‘بگ برادر دیکھ رہا ہے’۔
بگ برادر پُراسرار کردار ہے، جسے سب کچھ معلوم ہے، وہ ہر کسی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔اس کردار کی دہشت آواز کے ذریعے ہی قائم ہے۔ وہ شاذ ہی کسی کے سامنے آتا ہے۔ بگ برادر کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست کے بانیوں میں سے ہے اور اس نے ملک کو بارہا دشمنوں سے بچایا۔ یہ دعویٰ بعد میں غلط ثابت ہوا۔ کہانی میں ایک جگہ پر بتایا جاتا ہے کہ بگ برادر کبھی نہیں مرے گا۔ یوں یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ کردار فرد سے زیادہ ایک پورے طبقے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
‘بگ برادر’ کے کردار کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ چند سال قبل ‘دنیا کے 100 طاقتور ترین خیالی کرداروں’ میں اسے شامل کیا گیا۔ اس کردار کے حوالے سے پچھلے 20 برسوں میں برطانیہ سمیت یورپ بھر میں شو ‘بگ برادر’ شروع کیا گیا۔ ان شوز میں مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات کو چند ہفتوں کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ایک گھر میں رکھا جاتا ہے اور انہیں ٹی وی دیکھنے یا فون سننے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ وہ خود ہی اپنا کھانا پکانے اور کپڑے دھونے سمیت دیگر کام کرتے ہیں۔
پروگرام کا پروڈیوسر بگ برادر کا کردار ادا کرتا ہے، جو ٹی وی ناظرین کی دلچسپی کے لیے گھر کے مکینوں کو مختلف ٹاسک دیتا رہتا ہے۔ ہر ہفتے ایک ساتھی کو پروگرام سے آؤٹ ہونا پڑتا ہے کیونکہ جو آخر میں بچ گیا وہ جیت گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں بالی ووڈ اداکارہ شلپا شیٹھی کو برطانیہ کے ‘بگ برادر’ شو میں شرکت کرکے شہرت ملی تھی۔ شلپا شیٹھی نے وہ مقابلہ جیتا تھا۔ انہی دنوں ایک برطانوی اخبار میں دلچسپ تبصرہ شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد بگ برادر کا کردار یورپ میں تو ٹی وی شوز تک ہی محدود رہ گیا ہے، مگر کئی مسلمان ممالک میں اس کردار کی عملی شکل دیکھی جاسکتی ہے۔ کالم نگار کے مطابق ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اس سیاہ بخت اور دریدہ دہن برطانوی صحافی کی رائے سے ہمیں شدید اختلاف رہا ہے۔ پاکستان جیسے بہترین جمہوری ملک کے بارے میں کوئی ایسا تبصرہ کرنے کی جسارت کیسے کرسکتا ہے؟ ہم نے تب ہی اس سے بریت کا اعلان کیا تھا، آج بھی ہمارا یہی خیال ہے کہ بگ برادر ہو یا بگ باس، کسی بھی نام سے ٹی وی شو دکھائیں، جو مرضی کریں، مگر ہمارے اوپر طنز نہ کریں۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں، جمہوریت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر طرف موجزن ہے۔ انصاف پر مبنی عدالتی فیصلے ہوتے ہیں، میڈیا بھی کلی طور پر آزاد ہے اور سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا تو خیر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ عوام کی آزادی تو خیر اخیر درجے کی ہے۔ وہ جس پارٹی کو چاہے ووٹ ڈال کر جتوا دیں، جسے چاہے ہرائیں، کوئی مداخلت نہیں کرتا۔
البتہ ہمارے ہاں انڈین بگ باس ٹی وی شو جیسی انٹرٹینمنٹ ضرور نظر آتی ہے۔ جگہ جگہ بہت سے کردار یوں شوخے ہوکر ایکٹنگ کرتے نظر آتے ہیں جیسے انہیں بگ باس کے ڈائریکٹر نے ٹاسک سونپے ہوں۔ اس انٹرٹینمنٹ کے مفت نظارے ہم سب لے رہے ہیں، اسی میں مست ہیں۔ ہور سانوں کی چاہیدا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اینیمل فارم ا جاتا ہے وینا ملک ٹی وی شو اس ناول کے ساتھ میں بھی کے لیے ہے اور
پڑھیں:
حریت کانفرنس کشمیر یوں کا ایک مستند نمائندہ پلیٹ فارم ہے، غلام محمد صفی
اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں حریت کنوینر کا کہنا تھا کہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران حریت کانفرنس کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے کر کشمیریوں کی پرامن جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے حالیہ اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”حریت کانفرنس” ایک دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ حق خوداردیت کیلئے پرامن جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کا ایک مستند نمائندہ پلیٹ فارم ہے۔ ذرائٰع کے مطابق حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران حریت کانفرنس کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے کر کشمیریوں کی پرامن جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کا یہ بیان مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی مسلسل ناکامیوں، بھرپور عوامی مزاحمت اور عالمی برادری کی تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بڑھتی ہوئی دلچسپی سے پیدا ہونے والی بھارتی بوکھلاہٹ کا واضح عکاس ہے۔
انہوں کہا کہ حریت کانفرنس کشمیریوں کی معتبر نمائندہ آواز ہے جو اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے۔
غلام محمد صفی نے مزید کہا کہ مودی حکومت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت سلب کر کے دراصل علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا راستہ ہموار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری حسب سابق 5 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر بھارت کو یہ واضح پیغام دیں گے کہ وہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور حق خودارادیت کے لیے اپنی جدوجہد کو ہر قیمت پر اسکے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں انسانیت کے خلاف جاری سنگین جرائم کا نوٹس لیں اور کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق، حق خودارادیت دلانے کیلئے کردار ادا کریں۔